زہیر عبّاس
محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی نوع انسان کے لئے"دم دار تارے" (Comets)ہمیشہ سے آسمانی پہیلیاں بنی رہی ہیں۔ یہ خلائے بسیط سے خلاء کا نمائندہ بن کرہمارے پاس آتے رہے ہیں۔یہ کائنات کی ابتداء کو جاننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ دم دار تارے کائنات کی گہری پہیلیوں کو سلجھانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر ہم دم دار تارے پر پائے جانے والے "امینو ایسڈ س" (Amino Acids)اور زمین پر موجود حیات میں کوئی باہمی تعلق تلاش کر سکیں تو یقینا یہ سائنس کے میدان میں ایک کافی بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ دم دار تارے انسانیت کی بقاء کے لئے ہمیشہ سے خطرہ بھی بنے رہے ہیں۔اگر کوئی پہاڑ کے حجم جتنا دم دار تاراخدانخواستہ زمین سےٹکرا جائے تو اس تصادم کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی و بربادی ہوگی ۔اس کے باوجود اب تک کی ہماری تحقیق و جستجو یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر یہ دم دار تارے کائنات میں موجود نہیں ہوتے تو زمین پر زندگی کی شروعات ممکن نہیں تھی اور نتیجتاً ہم بھی وجود نہیں پا سکتےتھے ۔ ہمیں ان دم دار تاروں کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمین پر وہ کیمیائی اجزاء ترکیبی لانے کے ذمے دار ہیں جو زندگی کے دوام کے لئے ضروری ہیں ۔
آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفراس نظام میں موجود کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔
یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے ہمدم ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظاروں سے بڑھ کر ہیں ۔
سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنا سادہ نہیں ہے اس بات کو سمجھنے کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کوصحیح طور سے سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔
یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں جس میں یہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکراکر زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
جب ہم ان دم دار تاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔
ان دم دار تاروں کی پیدائش کو سمجھنے کے لئے ہمیں آج سے ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میںجانا ہوگا جس وقت یہ دم دار ستارے اس قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہےتھے جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے منہدم ہوتے ہوئے بادل نے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔اس نئے بننے والے نظام شمسی میں سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلموں نے گرد کے ذرّات کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا۔ جس طرح برف کی پہاڑی کے اوپر سے برف کی گیندگرتے ہوئے اپنا حجم بڑھاتی ہے بالکل اسی ہی طرح گزرتے وقت کے ساتھ بتدریج ان اجسام نے بڑھناشروع کیا ۔ اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ جس کو اگر ہم کھول کر دیکھیں تو ہم یہ بات معلوم کرسکیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھااور اس چیز کو جاننا واقعی ہمارے لئے ایک غیر معمولی بات ہوگی۔
اپنی پیدائش کے بعد دم دار تارے کسی ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کے اولین مداروں سے نکال کر دوسرے مداروں میں ڈال دیا تھا۔نظام شمسی میں موجود اس اتھل پتھل سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں چار دانگ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کونظام شمسی میں موجود دور ٹھنڈے حصّے کی طرف روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھااس جگہ کواب ہم "کائپر کی پٹی"(Kuiper Belt) کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تردم دار ستارے اس جگہ سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اورجہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم" اورٹ کا بادل" (Oort Cloud)کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے آسمان پر دوسرے ستارے دکھتے ہیں ویسا نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں خلاء میں بہت معمولی چیزیںسمجھ لیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہمارے نظام شمسی کے اندرونی حصّے کی جانب نکل آتا ہے۔
اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے اندم دار تاروں کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے ان کے ثقلی توازن میں ہلکی سی بھی ہلچل مچےتو سورج کی قوّت ثقل اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی نوع انسان کے لئے"دم دار تارے" (Comets)ہمیشہ سے آسمانی پہیلیاں بنی رہی ہیں۔ یہ خلائے بسیط سے خلاء کا نمائندہ بن کرہمارے پاس آتے رہے ہیں۔یہ کائنات کی ابتداء کو جاننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ دم دار تارے کائنات کی گہری پہیلیوں کو سلجھانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر ہم دم دار تارے پر پائے جانے والے "امینو ایسڈ س" (Amino Acids)اور زمین پر موجود حیات میں کوئی باہمی تعلق تلاش کر سکیں تو یقینا یہ سائنس کے میدان میں ایک کافی بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ دم دار تارے انسانیت کی بقاء کے لئے ہمیشہ سے خطرہ بھی بنے رہے ہیں۔اگر کوئی پہاڑ کے حجم جتنا دم دار تاراخدانخواستہ زمین سےٹکرا جائے تو اس تصادم کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی و بربادی ہوگی ۔اس کے باوجود اب تک کی ہماری تحقیق و جستجو یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر یہ دم دار تارے کائنات میں موجود نہیں ہوتے تو زمین پر زندگی کی شروعات ممکن نہیں تھی اور نتیجتاً ہم بھی وجود نہیں پا سکتےتھے ۔ ہمیں ان دم دار تاروں کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمین پر وہ کیمیائی اجزاء ترکیبی لانے کے ذمے دار ہیں جو زندگی کے دوام کے لئے ضروری ہیں ۔
آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفراس نظام میں موجود کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔
یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے ہمدم ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظاروں سے بڑھ کر ہیں ۔
سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنا سادہ نہیں ہے اس بات کو سمجھنے کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کوصحیح طور سے سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔
یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں جس میں یہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکراکر زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
جب ہم ان دم دار تاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔
ان دم دار تاروں کی پیدائش کو سمجھنے کے لئے ہمیں آج سے ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میںجانا ہوگا جس وقت یہ دم دار ستارے اس قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہےتھے جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے منہدم ہوتے ہوئے بادل نے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔اس نئے بننے والے نظام شمسی میں سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلموں نے گرد کے ذرّات کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا۔ جس طرح برف کی پہاڑی کے اوپر سے برف کی گیندگرتے ہوئے اپنا حجم بڑھاتی ہے بالکل اسی ہی طرح گزرتے وقت کے ساتھ بتدریج ان اجسام نے بڑھناشروع کیا ۔ اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ جس کو اگر ہم کھول کر دیکھیں تو ہم یہ بات معلوم کرسکیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھااور اس چیز کو جاننا واقعی ہمارے لئے ایک غیر معمولی بات ہوگی۔
اپنی پیدائش کے بعد دم دار تارے کسی ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کے اولین مداروں سے نکال کر دوسرے مداروں میں ڈال دیا تھا۔نظام شمسی میں موجود اس اتھل پتھل سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں چار دانگ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کونظام شمسی میں موجود دور ٹھنڈے حصّے کی طرف روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھااس جگہ کواب ہم "کائپر کی پٹی"(Kuiper Belt) کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تردم دار ستارے اس جگہ سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اورجہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم" اورٹ کا بادل" (Oort Cloud)کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے آسمان پر دوسرے ستارے دکھتے ہیں ویسا نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں خلاء میں بہت معمولی چیزیںسمجھ لیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہمارے نظام شمسی کے اندرونی حصّے کی جانب نکل آتا ہے۔
اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے اندم دار تاروں کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے ان کے ثقلی توازن میں ہلکی سی بھی ہلچل مچےتو سورج کی قوّت ثقل اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔