آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری - حصّہ دوم

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی نوع انسان کے لئے"دم دار تارے" (Comets)ہمیشہ سے آسمانی پہیلیاں بنی رہی ہیں۔ یہ خلائے بسیط سے خلاء کا نمائندہ بن کرہمارے پاس آتے رہے ہیں۔یہ کائنات کی ابتداء کو جاننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ دم دار تارے کائنات کی گہری پہیلیوں کو سلجھانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر ہم دم دار تارے پر پائے جانے والے "امینو ایسڈ س" (Amino Acids)اور زمین پر موجود حیات میں کوئی باہمی تعلق تلاش کر سکیں تو یقینا یہ سائنس کے میدان میں ایک کافی بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ دم دار تارے انسانیت کی بقاء کے لئے ہمیشہ سے خطرہ بھی بنے رہے ہیں۔اگر کوئی پہاڑ کے حجم جتنا دم دار تاراخدانخواستہ زمین سےٹکرا جائے تو اس تصادم کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی و بربادی ہوگی ۔اس کے باوجود اب تک کی ہماری تحقیق و جستجو یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر یہ دم دار تارے کائنات میں موجود نہیں ہوتے تو زمین پر زندگی کی شروعات ممکن نہیں تھی اور نتیجتاً ہم بھی وجود نہیں پا سکتےتھے ۔ ہمیں ان دم دار تاروں کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمین پر وہ کیمیائی اجزاء ترکیبی لانے کے ذمے دار ہیں جو زندگی کے دوام کے لئے ضروری ہیں ۔

آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفراس نظام میں موجود کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔

یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے ہمدم ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظاروں سے بڑھ کر ہیں ۔

سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنا سادہ نہیں ہے اس بات کو سمجھنے کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کوصحیح طور سے سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔

یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں جس میں یہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکراکر زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔

جب ہم ان دم دار تاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔

ان دم دار تاروں کی پیدائش کو سمجھنے کے لئے ہمیں آج سے ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میںجانا ہوگا جس وقت یہ دم دار ستارے اس قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہےتھے جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے منہدم ہوتے ہوئے بادل نے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔اس نئے بننے والے نظام شمسی میں سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلموں نے گرد کے ذرّات کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا۔ جس طرح برف کی پہاڑی کے اوپر سے برف کی گیندگرتے ہوئے اپنا حجم بڑھاتی ہے بالکل اسی ہی طرح گزرتے وقت کے ساتھ بتدریج ان اجسام نے بڑھناشروع کیا ۔ اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ جس کو اگر ہم کھول کر دیکھیں تو ہم یہ بات معلوم کرسکیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھااور اس چیز کو جاننا واقعی ہمارے لئے ایک غیر معمولی بات ہوگی۔

اپنی پیدائش کے بعد دم دار تارے کسی ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کے اولین مداروں سے نکال کر دوسرے مداروں میں ڈال دیا تھا۔نظام شمسی میں موجود اس اتھل پتھل سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں چار دانگ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کونظام شمسی میں موجود دور ٹھنڈے حصّے کی طرف روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھااس جگہ کواب ہم "کائپر کی پٹی"(Kuiper Belt) کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تردم دار ستارے اس جگہ سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اورجہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم" اورٹ کا بادل" (Oort Cloud)کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے آسمان پر دوسرے ستارے دکھتے ہیں ویسا نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں خلاء میں بہت معمولی چیزیںسمجھ لیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہمارے نظام شمسی کے اندرونی حصّے کی جانب نکل آتا ہے۔

اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے اندم دار تاروں کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے ان کے ثقلی توازن میں ہلکی سی بھی ہلچل مچےتو سورج کی قوّت ثقل اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (دوسرا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوّت ثقل کی جس طاقت نے ان دم دار ستاروں کو پیدا کر کے خلاء کے اس حصّے میں دھکیلا تھاوہ انہیں اب واپس اندرونی حصّے کی طرف کھینچنا شروع کردیتی ہے جس سے ان کا نظام شمسی میں تخلیق و تباہی پھیلانےکا باعث بننے والا سخت اور لمبا سفر شروع ہو جاتا ہےجیسا کہ ہم بنے ابھی بتایا ہے کہ سورج کے گردموجود نظام شمسی کے اس دور دراز کنارے میں جما دینے والی سردی میں رہنے والے ان کھرب ہا دم دار ستاروں میں سے کچھ یہاں رکنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ایک ہلکی سی بھی ثقلی کشش چاہئے وہ دور جاتے ہوئے ستارے سے پیدا ہو یا ہماری اپنی کہکشاں کے سفر کی وجہ سے پیدا جو وہ ان دم دار تاروں کو ان کے موجودہ مدار سے باہر نکل دیتی ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو ثقلی قوّت کو ہلکا سا ٹہوکا دے وہ اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ دم دار ستارہ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف دوڑا آئے ۔

خلل کھائےہوئے دم دار ستارے پر سورج کی قوّت ثقل غالب آجاتی ہے۔ اس بات کو یوں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح سے جب ہم پہاڑی پر سے اترتے ہیں تو شروع میں ہماری رفتار آہستہ ہوتی ہے اور پھر تیزی سے نیچے آتے ہوئے ہماری رفتار تیز ہونا شروع ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح سورج کی ثقلی قوّت کام کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ پہاڑ کے نیچے سورج موجود ہےاور دم دار تارا پہاڑ کی چوٹی پر ہے جیسے ہی وہ اپنی جگہ سے نکالا جاتا ہے اس کے پاس جانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔اس کو سورج کی طرف ہی بھاگنا پڑتا ہے۔وہ سورج کی طرف تیزی سے دوڑ پڑتا ہےمگر کیونکہ اس کا راستہ سورج سے بہت دور ہوتا ہےلہٰذا راستے میں آتے ہوئے سیاروں کی قوّت ثقل یا تو اس کی رفتار کو اور تیز کردیتی ہے یا پھر اس کو نظام شمسی سے باہر نکال پھینکتی ہے۔ اگر یہ سیاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنا سفر سورج کی جانب جاری رکھتے ہیں اوراس دوران ان میں سائنس کی دنیا میں جانی جانے والی سب سے زیادہ غیر معمولی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔

وہ کائنات میں موجود سب سے شاندار نظاروں میں سے ایک نظارہ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔(تصویر نمبر ١)
comet Ison graphic by Zonnee, on Flickr
جوں ہی دم دار تارا مشتری سے آگے آتا ہے ویسے ہی اس میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔اس کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتے ہوئے اس کی حرارت کو محسوس کرنا شروع کرتا ہے اور بس یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب اس میں تغیر کا آغاز ہونا شروع جاتا ہے۔ سورج سے ٥٠ کروڑ میل کی دوری پر حرارت اس میں زندگی کی روح پھونک دیتی ہے۔ منجمد گیسیں بخارات کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں۔برف کے ٹکڑے اور گرد اس کی سطح سے اوپر اٹھنے لگتی ہے ۔ جیسے جیسے سورج اس سے قریب ہوتا ہے ویسے ویسےاس میں سےگیسوں کا اخراج زیادہ تیزی سے ہونے لگتا ہے اوراس وقت دم دار ستارہ ایک روئی کے گالے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی ٹھوس سطح کے ارد گرد گیسوں کا ایک کافی بڑا بادل سا جمع ہوجاتا ہے جونا صرف اس دم دار ستارہ کا کرۂ فضائی بنا دیتا ہے بلکہ اس کی دم بھی بناتا ہے۔ یہ سب سورج کی کارستانیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کا سلسلہ اب بھی جاری رہتا ہے۔

شمسی طوفان جناتی بار دار موجوں کی شکل میں سورج سے نکلتے ہوئے تمام نظام شمسی میں پھیل جاتے ہیں۔ سورج سے قریب شمسی طوفان زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
تصویر نمبر ٢ - Comets - Two Tails by Zonnee, on Flickr
کائناتی طوفان کی طرح ، شمسی ہوائیں دم دار ستارے کے گیس کے سالموں کو خلاء میں اڑا دیتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں دم دار تارے کی ایک دوسری عظیم الجثہ دم بن جاتی ہے(تصویر نمبر ٢)۔ دم دار ستارے کا ٹھوس حصّہ تو صرف چند میل پر ہی مشتمل ہوتا ہے جبکہ دھندلہ حصّہ کئی ہزار میل یا دسیوں ہزار میل لمبا ہوتا ہے۔شمسی ہواؤں سے اڑی ہوئی دم تو کئی لاکھ میل بلکہ کروڑں میل دور تک پھیلی ہو سکتی ہے۔ اس وقت دم دار ستارے کی رفتار ٥٠ ہزار میل فی گھنٹہ ہوجاتی ہے۔ اس کا یہ سفر اب خلاء میں موجود ایک نہایت خطرناک جگہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ سورج سے ٢٠ کروڑ میل کی دوری پر پانی کی برف بخارات میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دم دار ستارے کی سطح میں ہلچل مچ جاتی ہے اور زلزلہ سا آجاتا ہے سطح پر موجود مادّہ گھلنے لگتا ہے جس سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کے فوارے پھوٹنے لگتے ہیں اس وقت دم دار ستارے کی سطح پر کوئی بھی چیز ٹکی نہیں رہ سکتی۔ سطح پر موجوددراڑیں کھلنے لگتی ہیں جس میں سےگیس پھٹ کر نکل پڑتی ہےاور اس کے نتیجے میں گرد و غبار کا طوفان ہر جگہ پھیل جاتا ہے۔ ان دھماکوں کی طاقت سے دم دار ستارہ لڑکھڑانے لگتا ہے۔
Comet Holmes 17P Nov 1, 2007 by Zonnee, on Flickr
ہر وہ فوارہ جو اس کی سطح پر موجود ہوتا ہےوہ ایک چھوٹے سے جیٹ انجن کی طرح نظر آتا ہے ۔جس طرح کار ریس میں حصّہ لینے والی کار ٹریک پر آکر دھاڑھتی ہے اسی طرح سے دم دارستارے میں چابی سی بھر جاتی ہے۔ زبردست رفتار ، غیر معمولی توانائی اور وسیع گرد کے بادلوں سے لبریز دم دار ستارہ ایک ایسی کونیاتی گرم راڈ میں بدل جاتا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے(تصویر نمبر ٣)۔ اس کے گرد موجود بادل مشتری سے بھی زیادہ بڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی دم ١٠ کروڑ میل جتنی کھینچ جاتی ہے۔

٤۔٥ ارب سال پہلے پیدا ہونے والا دم دار ستارہ دور تاریک خلاء میں سے نمودار ہوتا ہوا ہمارے لئے کائنات کی طرف سے ایک طرح کا تحفہ ہوتا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہم نے نظام شمسی کی یہ صورت کبھی نہیں دیکھی تھی یہ ہمارے لئے بالکل نئی چیز ہے۔

دم دار تارے ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں کہ ہم اپنے نظام شمسی کی ابتداء کے بارے میں جان سکیں یہ دم دار ستارے ہم پر بہت سارے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔ دم دار ستارے ہماری سوچ سے بھی زیادہ اجنبی اور خطرناک ہیں۔ جدید دوربینوں کے ذریعہ ہم ان کا زیادہ باریکی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ مگر ان کو صحیح طرح سےسمجھنے کے لئے ہمیں ان کے دل یعنی مرکزے کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ بات جاننی ہوگی کہ اس کی سطح پر کیا چیز موجود ہے؟اس کی کیمیائی بناوٹ کیا ہے؟ اس کی سطح پر موجود ان تغیر پزیر چٹانوں اور مادّے کی کیا خصوصیات ہیں ؟ اور اس طرح کے کئی سوالوں کے جوابات ہی ہمیں ان کو بہتر طور سے سمجھنے میں مدد کریں گے۔ اس کا مرکزہ ہی نظام شمسی کا وہ بنیادی جز ہے جس پر پورا نظام شمسی کھڑا ہے۔ سائنس دان اس کے مرکزے کے بارے میں جاننے کے لئے بیتاب ہیں۔ اس کا مرکزہ ہی وہ جگہ ہے جہاں اصل پراسراریت موجود ہے۔

گزشتہ آخری تین دہایوں میں درجنوں خلائی مشن ان دم دار ستاروں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ان کے بارے میں کچھ نیا ہی انکشاف کیا ہے۔اب ہم ان کی کیمیائی ساخت کے بارے میں جان چکے ہیں۔ہم ان کے سورج کے ساتھ باہمی تعلق کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔ ہمیں اب ان کی سطح کے بارے میں، ان کی ارضیاتی بناوٹ کے بارے میں اوراس بارے میں کہ وہ ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں بلکہ یہاں تک کہ ان پر موجود ایک جگہ دوسری جگہ سے کس قدر مختلف ہے کے بارے میں بھی ہم کافی کچھ جان چکے ہیں۔ یہ تمام باتیں جو ہم نے ان سے سیکھیں ہیں وہ ہمیں اس بات کا عندیہ دے رہی ہیں کہ دم دار ستارے اپنے آپ میں ایک جہاں ہیں۔
تصویر نمبر ٤ - Halley giotto by Zonnee, on Flickr
سائنس دان سمجھتے تھے کہ دم دار ستارے سفید برف کی گیند کی طرح ہیں۔ ان کا یہ خیال ١٩٨٦ء میں بدل گیا جب"جاٹو خلائی کھوجی"(Giotto Space Probe) نے "ہیلے کے دم دار" (Halley Comet)ستارے کی تصاویر زمین پر بھیجیں۔ یہ تاریخ میں پہلی دفہ کسی بھی دم دار ستارے کے مرکز کی تصاویر تھیں(تصویر نمبر ٤)، یہ اس دم دار ستارے کی تصاویر تھیں جو تاریخ میں کئی اہم موقعوں پر نمودار ہوا تھا ان تصاویرمیں یہ دم دار ستارہ ایک بنجر اور ٹھنڈی دنیا نظر آرہی ہے ۔ ہیلے کا دم دار تاراکوئی برف کی گیند نہیں تھی بلکہ یہ ایک مونگ پھلی کی شکل کا تھا۔ ایک کالی مٹی کی موٹی سی تہہ اس کی سطح کو ڈھکے ہوئے تھی۔ وہاں گڑھے اور پہاڑیاں بھی تھیں اور یہ ٩ میل لمبا تھا کوئی بھی یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ یہ اتنا لمبا ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (تیسرا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویر نمبر ٥ - stardust-comet-Artists conspt by Zonnee, on Flickr
سائنس دان سمجھتے تھے کہ تمام دم دار تارے ایک جیسے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ٢٠٠٤ءمیں "سٹارڈسٹ کھوجی" (Star Dust Probe)جب ایک دم دار تارے جس کا نام" وائلڈ ٢ "(Wild 2)تھا(تصویر نمبر ٥) کی دم کے پاس سے گزرا تو اس نے ہزار ہا چھوٹے مٹی کے ذرّات حاصل کئے ۔ سٹارڈسٹ جب ان مٹی کے ذرّات کو واپس زمین پر لایاتب سائنس دانوں کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہر دم دار تارا بالکل الگ اور انوکھا ہوتا ہے۔ جس طرح سے ہر سیارہ منفرد ہوتا ہےاور اس کی ایک اپنی علیحدہ کہانی ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح دم دار ستارہ ہوتا ہے ہر دم دار تارے کی خلقت میں مختلف مادّوں نے حصّہ لیا تھا۔ ان کی پیدائش کے وقت حرارت کے مختلف منبع اس کےاندرون میں جمع ہوگئے تھے جس سے مختلف کیمیائی اور ارضیاتی عمل وقوع پزیر ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک مختلف جہاں ہے جو اس بات کے انتظار میں ہے کہ کب ہم اس کو کھوجتے ہیں۔
تصویر نمبر ٦ - comet-hartley-ice-discovery-particles-circled_29125_600x450 by Zonnee, on Flickr
کچھ دم دار تارے بہت ہی عجیب ہوتے ہیں۔ "ہارٹلے ٢ " (Hartley 2)دم دار تارا بہت ہی عجیب ہے(تصویر نمبر ٦)۔یہ برف پر مشتمل ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خشک برف کی گالف کی گیند کے حجم کے ٹکڑے اس کے مرکز کے پیچھےدس لاکھ میل دور تک موجود ہیں۔ اس نے خلاء میں زبردست گند مچائی ہوئی تھی۔یوں سمجھ لیں کہ آپ کسی برفیلی دنیا میں موجود ہوں جس کو آپ ہلائیں تواس سے یہ چھوٹی برف کی گیندیں سی نکلیں گی۔ یہ برفیلی چیزیں اس دم دار ستارے کے گرد بالکل ایسے لگیں ہیں جیسے کھانے کے گرد مکھیاں بھنبھناتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔
تصویر نمبر ٧ - Temple 1 and Deep Space Impact Probe by Zonnee, on Flickr
ہارٹلے ٢ اس بہت" تیز رفتار"(Hyper Active) دم دار تارا ہے۔ یہ تیزی سے لڑکھڑا تے ہوئی اپنے جیسے دوسرے دم دار تاروں کے مقابلے میں زیادہ گرد پھینک رہا ہے۔ دم دار تارے "ٹیمپل ١ " (Temple 1)میں ہموار سطح مرتفع ، گڑھے ، ٦٠ فٹ اونچی پہاڑ کی چوٹی ، اور ایک کےاوپر ایک چٹانوں کی تہہ بالکل اس طرح جیسے ایک کے اوپر ایک کیک رکھے ہوں موجود ہیں۔ ہر دم دار ستارے کی اپنی تاریخ ہے۔ٹیمپل ١ دم دار ستاروں کی دنیا میں ایک اہم کھوج ہے(تصویر نمبر ٧)۔٢٠٠٥ میں" ڈیپ امپیکٹ خلائی کھوجی"(Deep Impact Space Probe) نے اس کی سطح پر ایک گولہ داغا جس نے اس کی سطح پر ١٥٠ گز جتنا شگاف ڈال دیا۔٤ جولائی ایک بہت ہی یادگار دن تھا جب انسان کی بنائی ہوئی ایک چیز نے ایک دم دار ستارے کی سطح پر ایک سوراخ کیا تھا۔ یہ ناسا کی تاریخ کے کچھ بہترین کارناموں میں سے ایک کارنامہ تھا۔

ڈیپ امپیکٹ کے گولے سے بننے والے سوراخ سے نکلنے والے مادّے نے سائنس دانوں کو اس کے مرکزے میں پہلی بار جھانکنے کا موقع دیا ۔ وہاں جوکچھ سائنس دانوں نے پایا وہ ناقابل یقین تھا۔ان کو وہاںمرکزے کے اندر " یاقوت"(Rubies) اور" زبرجد"(Peridot) جیسے قیمتی پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے ۔ان کو وہاں ہر قسم کے وہ حیاتیاتی سالمے بھی ملےجن سے ہم بنے ہیں۔سائنس دانوں کو یقین ہے کہ دم دار ستارے ہماری کائنات میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حیات کے بنیادی اجزاء ترکیبی زمین پر کہاں سےوارد ہوئے ہیں ؟یہ سب آپس میں کہاں ایک ساتھ ملے ہیں؟مائع پانی زمین پر کہاں سے آیا ؟دم دار ستارے ان سب سوالوں اور حیات کی نوعیت کو سمجھنے کی چابی ہیں۔

مگر ہمارے پاس ان کو سمجھنے کے مواقع نہایت ہی کم میسر ہیں۔دم دار ستارے زبردست رفتار کے ساتھ اس جگہ بھی جاسکتے ہیں جہاں کوئی خلائی کھوجی نہیں جاسکتا یعنی کہ سورج کے اندر ۔٤ ارب سال پہلے قوّت ثقل نے ان دم دار ستاروں کو نظام شمسی کے باہری کنارے کی طرف ہنکا دیاتھا اوراب وہ ہی قوّت ان کو واپس سورج کے اندرونی مدار کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ جب کوئی دم دار تارہ زمین کو پاس کرتاہے تو وہ اپنے اس سفر کے سب سے خطرناک اور شدید حصّے میں داخل ہوجا تا ہے ۔ اب یہ سورج کی طرف ایک لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑا جاتا ہے اب اس کی سطح دھواں دھواں ہوتی ہے۔اس کی سطح پر جھلسا دینے والا درجہ حرارت ہوتا ہے۔ زبردست قسم کے برف اور گیس کے چشمے اس کی سطح سے پھوٹ پڑھتے ہیں۔ فوارے ہرجگہ بن جاتے ہیں اس کی لڑکھڑا تی ہوئی چال اور محوری گردش بدل جاتی ہے اور اس کی سطح جگہ جگہ سے چٹخ جاتی ہے۔ دم دار ستارے کے اندر گیس چٹان کے بڑے ٹکڑے فضا میں اچھال دیتی ہے۔

اس کی کمیت مسلسل کم ہوتی جاتی ہے اور اس کا حجم سکڑتا جاتا ہے۔جوں جوں یہ سورج کے قریب پہنچتا ہے ویسے ویسے پتلا مادّہ اس کی سطح پر نمودار ہوتا جاتا ہے جس سے اس کی محوری گردش بدل جاتی ہے جس سے یہ لڑکھڑانے لگتا ہے اور اپنے مدار میں دھکے کھانے لگتا ہے جس سے اس کا مدار بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
تصویر نمبر ٨ - Sungrazers by Zonnee, on Flickr
دم دارتارا ہر سیکنڈ میں ٥٠ ٹن برف اور گیس نکال رہا ہوتا ہے۔اس کے مرکزے میں زبردست دباؤ بننے لگتا ہے جس سے یہ غیر پائیدار ہوجاتا ہے اور کسی بھی وقت بکھر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب ترین حصّے میں پہنچتا ہے تو بس اس کے گلے پر خنجر چلنے والا ہی ہوتا ہے۔ان میں سے کئی بچ نہیں پاتے ۔سائنس دانوں نے کئی دم دار تارے سورج کو نگلتے ہوئے دیکھے ہیں جہاں وہ پگھلتے ہوئے سورج میں جاگر تے ہیں اور پورا کا پورا دم دار تارہ چاہئے وہ ایک میل کا ہویا ١٠ میل کا مکمل تباہ ہوجاتا ہے ۔ ایک شمسی رصدگاہ میں ریکارڈکی گئی تصویر میں چھوٹے دم دار تارے جن کو "سورج کے چارے" (Sungrazers)کا نام دیا ہے ڈوبتے ہوئے نظر آرہے ہیں(تصویر نمبر ٨)۔وہاں ان پر قوّت ثقل زبردست اثر ڈال رہی ہے اور سورج کی زبردست حرارت ان کو جلا دے رہی ہے۔اپنے اس سفر میں ان میں سے کئی دم دار تارے مر جاتے ہیں ۔
تصویر نمبر ٩ - Comet Holmes explosion by Zonnee, on Flickr
کئی دم دار تارے خلائے بسیط میں بھی پھٹ پڑتے ہیں۔ ٢٠٠٧ء میں دم دارستارہ "ہومز"(Holmes) سورج سے دور جارہا تھا جب اس کے ساتھ ایک غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ ایک دن کے بھی کم عرصے میں وہ ٥ لاکھ گنا زیادہ روشن ہوگیا۔اس کے گرد گیس کے بادل غباروں کی طرح پھول گئے ۔ اگرچہ دم دار ستاروں میں یہ بات عام ہے کہ وہ مشتری سے بھی بڑے ہوجاتے ہوئے ایک لاکھ میل پر پھیل جاتے ہیں۔مگر اس میں ہفتے اور مہینے لگتے ہیں۔ہومز پر ضرورکوئی ایسی چیزرونماء ہوئی ہوگی جس نے اس کےگرد خول کو اتنی جلدی پھلا دیاتھا جو مشتری سے بھی بڑاا تھا اور اسی بات نے سائنس دانوں کو حیران کردیا تھا۔انہوں نے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ در حقیقت میں دم دار ستارے کی "سحابیت" (Coma)سورج سے بھی زیادہ بڑی تھی(تصویر نمبر ٩) ۔ قصہ مختصر یہ ہمارے نظام شمسی کا اس قت کا سب سے بڑا اجرام بن گیا تھا ۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یہ دم دار ستارہ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑا ۔ یہ دھماکا اب تک کسی بھی دم دار ستارےکے دھماکے سےبڑاا دھماکہ تھا۔ اس سے نکلنے والی دھول دس لاکھ میل پر پھیل گئی تھی۔ یہ بات ابھی صحیح طرح سے معلوم نہیں ہوسکی کہ کس چیز نے اس کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا مگر ایک نظریہ یہ ہے کہ شاید ہومز دم دارستارا کسی شہابیے سے ٹکرایا جس نے زبردست قسم کا طوفان خلاء میں برپا کردیا ۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شاید دم دار ستارا غیر متوازن ہوگیاتھا جس سےپھیلتی ہوئی گیسوں نے شاید ایک دھماکہ کردیاتھا اوراسی وجہ سے پورا کا پورا دم دار ستارا ریزہ ریزہ ہوگیا تھا ۔فی الوقت تو ہم اس حادثے کےبارے میں حتمی طور پر کچھ زیادہ نہیں جانتے۔

کوئی بھی دم دار تارا جو سورج سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے اس کے باوجود بھی اس کو نظام شمسی کے اندرونی حصّے میں آنے کی قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے۔اس کی پوری ارضیاتی ماہیت بدل جاتی ہے۔بڑے ٹکڑے، پہاڑوں کی چوٹیاں اور چٹانیں خلاء میں غائب ہوجاتی ہیں۔ایک ایسا اجرام فلکی جو ١٠ یا ٢٠ میل پر پھیلا ہو وہ ہزار ہا ٹن چٹانوں اور برف سے اپنے اس سفر میں محروم ہوجاتا ہے۔جیسے ہی وہ سورج سے دور ہوتا ہے اس کی سطح پر چلتی ہوئی ہلچل آہستہ پڑجاتی ہے۔ سورج سے دور جاتے ہوئے سفر پر ایک طرح سے دم دار ستارے اپنا انجن بند کر دیتے ہیں۔ یہ سرد ہونا شروع ہوجاتا ہے، سطح پر ہلچل دھیمی پڑ جاتی ہے ، فوارے بند ہوجاتے ہیں اوراس کی دم غائب ہوجاتی ہے اور بچ جانے والی چیز صرف برف اور دھول کی چھوٹی سی گیند ہی باقی رہتی ہے۔ یہ خلاء بسیط میں جاکر دوبارہ غنودگی میں چلا جاتا ہے۔مگر دم دار ستاروں کے لئے صرف سورج ہی ایک چیلنج نہیں ہوتا ان کو سیاروں کی ثقلی قوّت سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ زمین کی قوّت ثقل اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ ان دم دار ستاروں پر کچھ زیادہ اثر انداز ہوسکے مگر مشتری کا معاملہ ذرا الگ ہے وہ بہت بڑا سیارہ ہے جو زمین سے ٣٠٠ گنا زیادہ کمیت کا حامل ہے ۔ اگر کوئی دم دار تارا مشتری سے کچھ لاکھ میل دور سے بھی گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کا مدار بدلنے کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہےاور اس بات کا نتیجہ نہایت ہی بھیانک نکل سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (چوتھا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٩٩٤ء میں ایک دم دار تارا جس کا نام "شو میکر لیوی ٩ " (Shoemaker Levy 9)تھا مشتری کے بہت ہی قریب سے گزرا (تصویر نمبر ١٠ )۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ مشتری کی زبردست قوّت ثقل نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور اس کی باقیات سیدھی مشتری میں جاگریں ۔
تصویر نمبر ١٠ - Shoe Maker Levy 9 by Zonnee, on Flickr
بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ٹکراؤ نے مشتری پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا ہوگا اور مشتری اس کو بغیر ڈکار لئے ہضم کر گیا ہوگا مگر ایسا بالکل نہیں ہوا تھا۔دم دار ستارے کے ٢١ ٹکڑے مشتری کی فضاء میں داخل ہوئے تھے اس میں سے ہر ایک ٹکر نے اس قدر توانائی پیدا کی تھی جتنی کرۂ ارض پر موجود تمام جوہری ہتھیار مل کرتوانائی پیدا کر سکتے ہیں۔شو میکر لیوی ٩ دم دار تارا کوئی بہت زیادہ کمیت والا دم دار تارا نہیں تھا نہ ہی اس کی کثافت کچھ زیادہ تھی۔یہ تو" گڑیا کے بالوں" یا "قطنی مٹھائی "(Cotton Candy) جیسا تھا ۔ ہم اس کے حصّوں کو اپنی انگلیوں سے کھینچ کر الگ کرسکتے تھے۔مگر اس کے باوجود اس اتنی کمزور سی برفیلی چیزنے ناقابل بیان تباہی مچا دی تھی۔ اس تصادم نے گرد کے غبار وں کو ہزار ہا میل اوپر ہنکا دیا تھا اور مشتری کی فضاء پر گہرے دھبے بنا دیے تھے۔

سائنس دان اس واقعہ کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھے۔وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی سے کچھ بڑے اجرام کا مشتری سے ٹکراؤ اور اس سے پھیلتی ہوئی زبردست تباہی خود سے دیکھنے کے لئے بہت زیادہ پرجوش تھے۔اگرچہ نظری طور پر وہ جانتے تھے کہ اس ٹکر کا کیا نتیجہ ظاہر ہوگا مگر پھر بھی اس کو خود سے دیکھنا ان کے لئے بھی بہت ہی زیادہ حیران کن تھا۔

شو میکر لیوی ٩ کی اس ٹکر نے ماہرین فلکیات کو خواب غفلت سےجگا دیا اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر یہ ٹکر مشتری پر ہوسکتی ہے تو زمین پر بھی ہو سکتی تھی۔اگر کچھ میل پر پھیلا ہوا کوئی دم دار ستارا ہمارے سیارے سے ٹکرا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوگا۔ رگڑ کی موجیں زمین کو تباہ کردیں گی۔گرد آسمان سے برسے گی۔ اس حیات جس کو ہم ابھی تک جانتے ہیں اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اتنی تباہی پھیلانے کا باوجود یہ تصادم تخلیقی قوّت کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔

پوری کائنات میں ہر جگہ دم دار ستارے زبردست تباہی پھیلاتے ہیں۔ ان کی رفتاربندوق سے نکلی ہوئی گولی سےبھی ٥٠ گنا زیادہ تک ہوسکتی ہے۔ ہم ایک ایسے دم دار ستارے کی بات کر رہے ہیں جو ایک پہاڑ کے جتنا ہے۔لہٰذا یہ اجرام جس طرح کی توانائی پیدا کرے گا ہم اس کا تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر یہ ہمیشہ سے تباہی نہیں پھیلاتے ۔ ان کا ایک اور پہلو بھی ہے۔سائنس دان سمجھتے ہیں کہ یہ پورے جہانوں کو بھی تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں۔

ٹائٹن جو زحل کا سب سے بڑا چاند ہے نظام شمسی میں موجود واحد چاند ہے جس کا اپنا کثیف کرۂ فضائی ہے۔ مائع میتھین کی جھیلیں اور دریا اس کی سطح پر بہتے ہیں ۔ٹائٹن کی یہ صورت دم دار ستاروں کی وجہ سے ہی بنی ہے۔ریڈار سے حاصل کردہ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ اس کی سطح پرلاکھوں برس سے دم دارستارے برستے رہے ہیں ۔ہر ایک دم دار ستارا ٹکرانے کا بعد بخارات بن کر اڑجاتا تھا اور اپنے پیچھے مرکزے سے نکلنے والی گیس چھوڑ دیتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے وہاں نامیاتی کرۂ فضائی اور عجیب و غریب مائع میتھین کے دریا اور جھیلیں بنا دیں۔دم دار ستارے نے چٹان کے ایک عام سے ٹکڑے کو ایک حیرت انگیز جہاں کی شکل دے دی۔

یہ دم دار ستارے ہمارے نظام شمسی کے بہترین انجنیئر ہوتے ہیں۔دم دار ستارے کے تصادموں سے نہ صرف وہ کیمیائی عنصر ملتے ہیں جو ٹائٹن جیسے چاند کے کرۂ فضائی کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ شاید زمین جیسی دنیا کے ہوائی کرۂ کو بھی بناتے ہیں اگر دم دار ستارے جہانوں کو بناتے ہیں تو انہوں نے ہمارے جہاں کو بنانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟۔اس سوال کے جواب کی تلاش کے لئے ہمیں کسی دم دار ستارے کے کافی قریب جانا ہوگا۔ ہمیں ان میں سے کسی پر اترنا ہوگا۔٢٠٠٤ء میں "روزیٹا"(Rosetta) مشن شروع کیاگیا تھا اس مشن کا نام اس "پتھر کی لوح سیاہ"(Rosetta Stone) پر رکھا گیا تھا جو قدیمی زبان کو سمجھنے کی چابی سمجھی جاتی ہے ۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ دم دار ستارے ہمارے لئے نظام شمسی کو سمجھنے کی کنجی ثابت ہوں گے۔
تصویر نمبر ١١ - Rosetta-and-Philae by Zonnee, on Flickr
٢ ١ نومبر٢٠١٤ کا دن خلائی تلاش کی دنیامیں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا تھا۔تاریخ میں پہلی دفہ کسی خلائی گاڑی نے دم دار ستارے کی سطح کو چھوا تھا(تصویر نمبر ١١)۔ اس سے پہلے جتنے بھی مشن تھے وہ سب ان کے پاس سے گزرے تھےان خلائی کھوجیوں نےاس بات کو ہم پر عیاں کیا تھا کہ ان پر بہت ہی بڑے معمہ موجود ہیں جن کو سلجھانا ہوگا۔اب ہم ان معموں کو سلجھانے کے لئے دم دار ستارے پر قدم رکھنے جارہے ہیں ۔ سائنس دان خلائی گاڑی کو اس پر بھیج کر براہ راست اس کی اڑتی دھول کو خلاء میں دیکھ رہےتھے یہ ایک بے نظیر مشن تھا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

روزیٹا ایک کار کے جتنی ہے ۔یہ خلاء میں ٢٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی تھی۔وہ اس دم دار ستارے کی طرف رواں دواں تھی جس کا مرکزہ صرف ٣ میل جتنا ہی تھا اور یہ سورج کے گرد اپنا ایک چکر ٦۔٥ سال میں مکمل کرتا تھا۔ اس نے ایک روبوٹ کو اس کی سطح پر اتاردیا ہے جس کا مقصد بہت ہی باریکی سے اس دم دار ستارے کا مطالعہ کرناہے۔ اس نے دیکھناہے کہ اس کی سطح کیسی ہے۔اس نے وہاں کے نمونے جمع کرنےہیں ۔اس نے وہاں پر موجود زمین کو بھی دیکھناہے۔ وہ اس بات کی کھوج کرنے جارہاہے کہ دم دار ستارے کے اندر اصل میں کیا ہے ؟وہ کس سے بنا ہوا ہے؟ اور کس طرح سے تمام مادّہ اس میں ایک ساتھ ملا ہوا ہے۔ سائنس دان پر امیدہیں کہ وہ اس مشن سے ایک دم دار ستارے کے بارے میں ان تمام باتوں سے زیادہ معلوم کر لیں گے جتنی انہوں پچھلی کئی صدیوں میں حاصل کی ہیں۔

روزیٹا سے ہمیں کچھ بنیادی قسم کے جوابات بھی چاہئے تھے۔ سائنس دان یہ معلوم کرنا چاہتےتھے کہ کیا اس کی سطح سپنج کی طرح مسام دار ہے ؟ یا پھر وہ نلکیوں جیسی ساخت کی ہے؟یا پھروہ برف کے گولے جیسی ساخت کاہے؟ یہ تمام باتیں سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے کا موقع فراہم کریں گی کہ حرارت ان میں سے کیسےگزرتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ سطح کے کچھ حصّوں میں تو فوارے بنتے ہیں جبکہ کچھ حصّوں میں نہیں بن پاتے۔

مگر یہ تو صرف شروعات ہے۔روزیٹا پورے ایک سال تک اس پر رہتے ہوئے سورج کے گردچکر لگاتے ہوئے اس کا تجزیہ کرے گا۔ اس میں موجود جدید ٹیکنالوجی انسانی پانچ حسوں کی نقل کرسکتی ہے۔

روزیٹا پر موجود آلات چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں اس پر موجود الٹراساؤنڈ آلات وہ کام کرسکتے ہیں جو ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئےاپنے اس سفر میں وہ تمام معلومات ان سائنس دانوں تک پہنچائے گا جو اس پر وقوع پزیر ہوں گی مثلاً کہ کب یہ بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے اور کب یہ غنودگی میں چلا جاتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے لئے سب سے پہلے اسے وہاں پر پہنچنا ضروری ہے۔

سائنس دانوں کو روزیٹا کو وہاں تک پہنچانے کے لئے زبردست تکنیکی رکاوٹوں کو عبور کرناتھا ۔ روزیٹا کو اس ٹارگٹ پر اتارنا تھا جس کا رقبہ صرف ٣ میل کا ہے روزیٹا کو ٣٤ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے وہاں اترناتھا ۔ اس پر اترنا بہت زیادہ مشکل کام تھا کیونکہ وہاں قوّت ثقل نہ ہونے کے برابرتھی۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس کو سطح کی طرف کھینچ لے ۔ کیونکہ وہاں کوئی کرۂ فضائی بھی موجود نہیں ہے لہٰذا ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ پیراشوٹ کے ذریعہ وہاں پر اترا جائے۔ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈھ نکالا کہ نہ صرف وہاں پرخلائی گاڑی کو صحیح طریقے سے اترا جائے بلکہ اس کو سطح پر بھی ٹکایا جا سکے۔

ٹیکنیشنز کے پاس بھی بہت ہی اختراع پسندانہ حل موجودتھے انہوں نے خلائی گاڑی پر" شاک آبزرور" (Shock Observers)اور "برجھی جیسے آنکڑے" (Harpoons) لگا دیے۔ جب یہ سطح پر اترے گا تو اسی وقت برجھی کو بھی اس کی سطح پر مارے گا۔ اس برجھی کے سرے پر" دو شاخہ کانٹے" (Prongs)سے لگے ہوئے ہیں جوسطح سے ٹکراتے وقت کھل جائیں گے اوراس میں گھس کروہاں پھنس جائیں گے اور اس کو واپس اوپر جانے سے روکیں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں (پانچواں اورآخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزیٹا کوشش کرے گا کہ سائنس کی کچھ گہری گتھیوں کو سلجھا سکے۔ سائنس دان جاننا چاہتے ہیں کہ زمین پر دوسرے سیارےیا جگہوں جن کو ہم اب تک دیکھ چکے ہیں ان کی نسبت مائع پانی زیادہ کیوں ہے۔ زمین پر پانی کہاں سے آیا۔ ہمارے پاس ایک نظریہ ہے کہ دم دار ستاروں نے عرصہ دراز پہلے زمین پر پانی پہنچایا مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہم اس بات کو کیسے ثابت کریں۔ اس بات کو جانچنے کے لئے خلائی گاڑی وہاں سے پانی کے سالموں کا تجزیہ کر کے ان کو زمین پر موجود پانی کے سالموں سے ملائے گی۔ مگر سائنس دانوں کو اس مشن سے اس سے بھی زیادہ کی امید ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت ایک غیر معمولی دریافت کرنے کے قریب ہیں۔وہ پر امید ہیں کہ شاید وہ اس بات کا ثبوت حاصل کر لیں کہ زمین پر حیات کہیں دوسری دنیا سےدم دار ستاروں کے ذریعہ سے منتقل ہوئی ہے۔

ہمارے سیارے پر حیات لگ بھگ ٣۔٥ ارب سال پہلے سے موجود ہے۔مگر ہم اس بات کو کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی اب تک سمجھ نہیں سکے ہیں۔ اب تک ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ حیات کی ابتداء زمین پر ہی ہوئی ہے۔ آتش فشانی گیسوں اور پانی کے بخارات نے سمندر اور کرۂ فضائی کو مل کر پنا یا۔بجلی کی کڑک نے شروعاتی زندگی کو تیلی دکھائی ۔ مگر اب سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں ان کے اندازے درست نہیں ہیں۔

تصویر نمبر ١٢ - halebopp by Zonnee, on Flickr
١٩٩٧ء میں ایک دم دار تارا جس کا نام ہیل بوپ (Hale Bopp)تھا نمودار ہوا جو اب تک کا دیکھا جانے والا سب سے بڑا اور روشن دم دار تارا تھا(تصویر نمبر ١٢)۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ پانی، گیسوں اور کاربن یعنی زندگی کے ان بنیادی اجزاء سے جن سے حیات شروع ہوسکتی ہے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس دریافت نے نئے سوالات کے دریچے کھول دیے۔سائنس دان یہ ہی سمجھتے رہے ہیں کہ حیات کی ابتداء زمین پر ہی ہوئی ہے اور شاید وہ یہ بات سوچنے میں بالکل صحیح تھے کہ پیچیدہ حیات کی ابتداء تو زمین پر ہی ہوئی ہے۔ مگر حیات کے بنیادی اجزاء کہاں سےآئے تھے؟ پانی جو ہمارےجسم میں سب سے زیادہ موجود ہے ، وہ نامیاتی سالمے جن کے اوپر پوری حیات کھڑی ہے یہ سب تو زمین کے اوپر اس کی پیدائش کے وقت موجود نہیں تھے۔ یہ سب کہیں اور سے ہی آئے تھے۔

ہیل بوپ نے اس بات کے امکانات روشن کردیے کہ حیات کی اصل دنیا کوئی غیر ارضیاتی جہاں ہی تھا ۔اس کے بعد سے سائنس دانوں نے اس بارے میں اور ثبوت تلاش کر لئے ہیں۔فلکی حیات داں دانتے لوریٹا (Astrobiologist Dante Lauretta) نے یہ بات دریافت کی کہ وائلڈ ٢ کی مٹی میں وہ معدنیات موجود تھے جو صرف حرارت اور مائع پانی کی موجودگی میں ہی بن سکتے تھے۔

سائنس دانوں کو وہاں سلفائڈ ملا،آئرن آکسائڈ ، کاربونیٹ معدنیات اور اس قسم کی چیزیں ملی ہیں جن کو سمندری حیات اپنے خول بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ مادّے نظام شمسی کی ابتداء میں بننے بہت ہی مشکل تھے۔ سائنس دانوں نےیہ بھی دریافت کیا کہ وائلڈ ٢ میں امینو ایسڈ بھی موجود تھے۔ یہ دریافت ناقابل یقین اور ہیجان انگیز تھی کیونکہ امینو ایسڈ پروٹین بنانے کی بنیادی اینٹیں ہیں اور پروٹین حیاتی سالموں کو بنانے کے لئے درکار ہوتے ہیں جو آگے جاکر زمین پر موجود زندگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔

ان تمام دریافتوں نے سائنس دانوں کی دم دار ستاروں کے بارے میں سوچ کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ہوسکتا ہے کہ دم دار ستاروں نے ہمارے سیارے کی تاریخ میں صف اول کا کردار ادا کیا ہو۔ہم نے ابھی تک ایک دم دار ستارے کے تجزیہ اور سٹارڈسٹ مشن سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر یہ جان لیا کہ دم دار ستارے کیمیا کی پیچیدہ تجربہ گاہیں ہیں جہاں حیات کے بنیادی اجزاء تیار ہوتے ہیں۔یہ مادّے سطح زمین پر موجود قدرتی عمل کے ذریعہ نہیں بن سکتے تھے۔یہ صرف نظام شمسی کے بیرونی حصّے سے ہی ہماری زمین پر کسی قاصد کے ذریعہ منتقل ہو سکتے تھے۔

یہ خیال ہی ہمیں بھونچکا کر دیتا ہے کہ زمین پر ہماری موجودگی کے ذمے دار یہ دم دار تارے ہوسکتے ہیں۔ مگر اس بات سے تمام سائنس دان متفق نہیں ہیں۔ کافی واقعاتی شا ہداتیں موجود ہیں کہ دم دار ستارے زندگی کے لئے بہت ضروری ہو سکتے ہیں ۔ مگر ہم اگر تفتیشی ٹیم کا حصّہ ہوتے جو دم دار ستاروں کی تحقیقات کر رہی ہوتی اور اس کا کام اس بات کو ثابت کرنا ہوتا کہ انہوں نے ہی زندگی کے بنیادی اجزاء زمین پر بہم پہنچائے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے پاس اس بات کے اطمینان بخش ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ وہاں پر موجود چیزوں کے زمین پر موجوداس زندگی سےجس کو ہم جانتے ہیں کوئی لینا دینا نہ ہو۔

سائنس دان پر امید ہیں کہ روزیٹا مشن کافی ساری گتھیوں کو سلجھا دے گا۔اگر ہم کوئی ارتباط وہاں پر موجود امینو ایسڈ اور زمین پر موجود امینو ایسڈ کے درمیان ڈھونڈ پائے تو یہ سائنس کی دنیا میں ایک زبردست دریافت ہوگی۔ زمین پر زندگی کی کہانی ٤۔٥ ارب سال پہلے شروع ہوئی ۔ جب ہمارا سیارہ زمین پیدا ہوا تھا اس وقت یہ بنجر اور زندگی کے لئے ایک نامہرباں جگہ تھی۔٧٠ کروڑ سال بعد نظام شمسی ایک شورش زدہ صورتحال سے گزرنے لگا۔ثقلی قوّت نے دم دار ستاروں کو ان کے مداروں سے نکل کر خلاء میں ہر جگہ ہنکا دیا اس میں سے کئی نظام شمسی کے اندورنی مدار کے قریب دھکیل دیے گئے ۔ جس میں سے کچھ نے زمین پر٣٠ کروڑ سال بعد برسات کی طرح برسنا شروع کردیا جس سے گیسوں اور نامیاتی مادّے کا اخراج ہونے شروع ہوا جن سے سمندر اور کرۂ فضائی وجود میں آیا اور آخر کار حیات نمودار ہوئی۔

یہ ایک ڈرامائی کہانی کی طرح ہے مگر کیا یہ کہانی درست ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ ہم چیزوں کو صحیح طور سے سمجھ رہے ہیں یا نہیں اگر ہم پرسرار چیزوں کی تحقیق کرتے رہیں گےاور اس بات کی تلاش کرتے رہیں گے کہ چیزوں کی شروعات کیسے ہوئی تویہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ یہ کہانی درست ہے کہ نہیں۔١٠٠ سال بعد ہمیں امید ہے کہ ہم جب تاریخ میں پیچھے دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اس قت میں جینا جب ہم ناقابل یقین دریافتوں کو پا رہے ہیں کتنا اچھا ہے۔ اس دوران ثبوتوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔ سائنس دان یہ بات قطی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ دم دار ستاروں نے وہ تمام بنیادی خام اجزاء زمین پر پہنچائے جس سے ہم نے ارتقاء پایا ۔ مگر یہ بات ممکن بھی ہوسکتی ہے اور ایسا سوچنا کہ ہم کہیں دور سے آئے ہیں ایک شاعرانہ خیال ہی ہے۔

تمام شد۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سیارچے"(Asteroids) کرۂ ارض کےازلی حریف ہیں وہ زمین پر ارب ہا برسوں سے حملہ آ ورہوتے رہے ہیں۔

ان کی تخلیق کا عمل صرف چند سیکنڈ ز پر ہی محیط ہوتا ہے۔٥٠ ہزار سال پہلے وہ دن اس دور میں جینے والے کسی بھی شخص کے لئے بھی بہت ہی بھیانک دن ہوگا۔

سیارچے دھاتوں سے بھرپور بڑے چٹانی "بٹے" (Boulders)اورمعدنیات کا بہت ہی قیمتی ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ برفیلی چھوٹی دنیائیں سیارہ زمین پر موجود تازے پانی سے بھی زیادہ پانی اپنے اندر ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔

آخر میں سیارچے ہی وہ پہلا قدم ہوں گے جن پر چڑھ کر ہم نظام شمسی کو چھوڑ دیں گے۔

سیارچوں نے ہی سیاروں کی تخلیق کی ہے۔ان کے بغیر ہماری دنیا موجود نہیں ہوتی ۔ ہماری موجودگی ان ہی کی مرہون منّت ہے۔ یہ وجود و فنا کو بانٹنے والے اجسام ہیں۔

رات کا آسمان ستاروں ، کہکشاؤں،سیاروں، اور سیارچوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ سیارچوں کا مطلب ہے ستاروں کے جیسا۔بہترین دوربینوں سے دیکھنے پر بھی یہ آسمان پر روشنی کے ایک نقطہ سے زیادہ کچھ نہیں لگتے۔ یہ کونیاتی چٹانی بٹے ہیں اور ان جیسے کھرب ہا اجسام جن کا حجم ایک کار سے لے کر عظیم الجثہ سینکڑوں میل پر پھیلے ہوئےحجم تک ہے موجود ہیں۔ یہ سب مل کراپنے وجود کی اپنی تخلیق کی کہانی سنا رہے ہیں۔

زمین ان سیارچوں کی مدد سے ٤۔٥ ارب سال پہلے اس وقت وجود میں آئی جب نظام شمسی ایک وسیع کونیاتی بھنور تھا۔ گرد ایک دوسرے سے جڑتی رہی اور سیارچے بناتی رہی۔ہمارے نظام شمسی میں یا یوں کہہ لیں کہ ہر نظام شمسی میں سیاروں سے پہلے بننے والی چیز بڑی چٹانیں ہی ہوتی ہیں جن کو ہم سیارچے کہتے ہیں۔اس وقت تک کوئی سیارہ نہیں بنا ہوتابس یہ سیارچے ہی ہوتے ہیں یہ چٹانوں اور پتھروں کے ٹکڑےسورج کے گرد گھومتے ہوئے بھنور سا بنا دیتے ہیں(تصویر نمبر ١)۔ اس وقت بننے والا نظام شمسی ایک بہت ہی عجیب و غریب سی جگہ ہوگی جہاں ایک گول جھولے کی طرح سیارچے اور اسی قسم کی چیزیں سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہوں گی ۔یہ ہر رنگ و نسل کےہوں گے اور جن کی تعداد کئی کھرب ہوگی۔
تصویر نمبر ١ - Birth of Asteriods by Zonnee, on Flickr
یہ قدیمی سیارچے ہی ہمارے نظام شمسی کو اس کی موجودہ ساخت ودیعت کریں گے اور اس سیارے کوبنائیں گے جس پر ہم مقیم ہیں۔ سیارچے خلاء میں موجود صرف چٹانوں کے ٹکڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ سیاروں کی بنیادی اینٹیں ہوتی ہیں۔ ارب ہا چھوٹے سیارچوں نے مل کر سیاروں کو بنا یا ہوگا۔اس وقت ان کی رفتار کئی ہزار میل فی گھنٹہ ہوگی جس سے چپک کر انہوں نے بہت سخت شکل اختیار کرلی ہوگی۔

یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک کار ریس کی طرح کا میلہ ہوگا۔ جس طرح تیز رفتار کاروں کے تصادم نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے کچھ حصّے تباہ ہوجاتے ہیں بالکل اسی طرح سیارچوں کی آپس کی ٹکر سے بھی ہوتا ہے۔ایک ساتھ رہنے کے لئے ان کو آپس میں ٹکرانا تو پڑتا ہی ہوگا۔ کار کی دوڑ میں جس طرح ہوتا ہے کہ وہ سب ایک ہی سمت میں تیزی سے دوڑتی ہیں بالکل اسی طرح سیارچے شروعاتی نظام شمسی میں کر رہے تھے۔ جب تصادم ہوتے تو وہ اتنے خطرناک نہیں ہوتے تھے ۔ کچلے جانے کا بعد بجائے وہ الگ ہوتے وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے تھے۔ یہ ہی عمل سیاروں کے بننے کا سبب تھا۔

ان سیارچوں کی خلاء میں رفتار یکساں تھی لہٰذا انہوں نے آپس میں جڑ کر بڑا ہونا شروع کیا اور اسی عمل کے نتیجے میں سیارے بننے کی شروعات ہوئی ہے۔ سیارچے چٹانوں کے ڈھیر میں بدلنے لگےجس طرح سے دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ جتنے زیادہ سیارچےآپس میں ٹکراتے اتنے زیادہ وہ بڑے ہوتے جاتےتھے ۔ گرد کے ذرّات کو جڑ کر براہ راست سیارے بننےکےعمل میں کئی ارب سال لگ جاتے مگر سیارچوں کی بدولت ان سیاروں کو بننے میں صرف کچھ لاکھ سال ہی لگے۔ جب چٹانی ڈھیر پہاڑ کے حجم کے ہوگئے تو قوّت ثقل نے اس عمل کو تیز کرنا شروع کردیا۔

قوّت ثقل کی اہمیت اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ کسی پہاڑی کے حجم کے جتنی چیز میں موجود ہو۔ اس وقت جب کسی سیارچے کا حجم کئی میل پر پھیلا ہوا ہو تو قوّت ثقل کی طاقت اتنی ہوتی ہے کہ وہ مادّے کو اپنے پاس کھینچ سکے۔اب فرض کریں کہ زمین موجود نہیں ہے اور صرف ایک چھوٹی سی پہاڑی موجود ہے اور ہم اس کی طرف دورخلاء میں سے تیرتے ہوئے جارہے ہیں تو اس کے پاس پہنچتے پہنچتے ہماری رفتار بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ ہم اس سے ٹکرا جائیں۔ اس کی قوّت ثقل ہم کو کھینچ لے گی۔وہ اس وقت تک کھینچتی رہے گی جب تک ہم اس پہاڑی سےجا کر نہ ٹکرا جائیں۔

بڑے سیارچہ خلاء میں ایک طرح سے بڑے پہاڑ ہی کی طرح ہوتے ہیں۔شروعاتی نظام شمسی میں یہ بکثرت پائے جاتے تھے۔ان کی قوّت ثقل دوسرے سیارچوں کو اپنے پاس کھینچتی تھی۔جتنا بڑا سیارچہ ہوگا اتنا ہی زیادہ مادّہ وہ کھینچ سکے گا اور اتنی تیزی سے اس کی نشونما ہوگی۔

اس وقت چیزیں بہت تیزی کے ساتھ وقوع پزیر ہور ہی ہوں گی۔ سیارچے بہت تیزی کے ساتھ مادّے کو کھینچ کر بڑے ہورہے ہوں گے۔

شروعاتی خلائی پہاڑیوں نے اس وقت تک سیارچوں کو کھینچنا جاری رکھا تھا جب تک ان کو وہ میسر تھے اس وقت انہوں نے نوزائیدہ سیاروں کی شکل اختیار کر لی تھی۔ان ہی میں سے ایک سیارہ زمین بنا۔

سارے سیارےیہاں تک کہ ہماری زمین بھی اپنی ابتداء میں ایک سیارچہ ہی تھے۔

یہ ہی ایک طریقہ ہے جس سے تمام چٹانی سیارے وجود میں آئے۔عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ سب بڑے ہوتے ہوئے سیارچے ہی تھے۔ مگر مریخ سے آگے تھوڑی دوری پر کچھ معمول سے ہٹ کرکوئی چیز وقوع پذیرہوگئی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی چٹانی سیارہ اس سے آگے موجود نہیں تھا۔وہاں صرف ارب ہا چٹانی بٹے جو کبھی ایک ساتھ نہیں جڑ سکے موجود ہیں جس کو" سیارچوں کی پٹی" (Asteroid Belt)کہتے ہیں۔یہاں سےآگے چٹانی سیاروں کی پیدائش کا عمل مشتری کی وجہ سے رک گیاتھا۔مشتری وہاں پر موجود ان سیارچوں سے پہلے ہی بن چکا تھا۔

مشتری ایک دیوہیکل سیارہ ہے۔اس کی ثقلی قوّت ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے۔

4.5 ارب سال پہلے مشتری کی قوّت ثقل نے تباہی مچادی۔ اس نے سیارچوں کو ہر سمت میں ہنکا دیا تھا۔بڑے چٹانی بٹے اپنے مداروں سے نکل کر بے ربط مداروں میں چلے گئے۔کاروں کی دوڑ ختم ہوگئی اور گھڑ دوڑ شروع ہوگئی تھی ۔ مشتری کی دخل اندازی نے نظام شمسی میں گھڑ دوڑ شروع کردی۔
تصویر نمبر ٢ - Asteriod Collision - HST by Zonnee, on Flickr
سیارچے آپس میں ٹکراتے ہوئے ہر سمت میں جانے لگے۔ہر سمت میں چٹانیں زبردست افراتفری میں متصادم ہونے لگیں۔ مگراس بار ان چٹانوں نے واپس جڑنا شروع نہیں کیا۔اب انہوں نے ٹوٹ کر سیارچوں کی پٹی بنا دی تھی۔اس پٹی پر خطرناک ٹکراؤ آج بھی جاری ہیں۔٢٠١٠ میں ہبل دوربین نے بہت تیز رفتار سیارچوں کے تصادموں کو تصویر کشی کی(تصویر نمبر ٢)۔ سیارچے تخلیق و فنا دونوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر کچھ آرام سے ٹکراتے تومزید نئے سیارے بن جاتے ۔ خطرناک طریقے سے ٹکرا کر تو صرف سیارچوں کی پٹی ہی بن سکتی تھی ۔ سیارچوں کی پٹی ارب ہا چٹانوں اور چٹانی بٹوں سے مزین ان سیاروں کا قبرستان بن گیا ہے جو "حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے ہی مرجھا گئے" کے مصداق کبھی سیارے بن ہی نہیں سکے۔ سیارچوں کی پٹی ایک ایسا دیس ہے جو خطرات اور نئے امکانات سے بھرا ہو ا ہے یہ ایک ایسا جہاں ہے جو اپنے کھوجے جانے کا منتظر ہے۔

سیارچے بھی اس قدر متنوع فیہ ہیں جتنے سیارےیا چاند ہوسکتے ہیں۔ان میں سے کچھ دھاتی ہیں،کچھ چٹانی ہیں جبکہ کچھ برف پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے کچھ کے تو اپنے چاند بھی ہیں۔ یہ ہر قسم کی شکل اور مختلف حجم کے ہوتے ہیں۔ بٹوں سے لے کر چھوٹے جہانوں تک یہ ہرشکل میں پائے جاتے ہیں۔ ماوراء نظام ہائے شمسی کے اپنے سیارچوں کی پٹیاں موجود ہیں۔"اپسیلون اریڈانی"(Epsilon Eridani) ستارہ ہم سے صرف ١٠ نوری سال دو رہے۔ اس کے ایک کے بجائے دو سیارچوں کی پٹیاں ہیں(تصویر نمبر ٣)۔ایک اور ستارے کی سیارچوں کی پٹی ہم سے ٢٥ گنا زیادہ بڑی ہے۔اگر ہم وہاں پر موجود کسی سیارے پر موجود ہوتے تو ہمیں یہ پٹی رات کو آسمان میں ایک بڑی لکیر کی طرح ملکی وے سے بھی زیادہ روشن نظر آتی۔
تصویر نمبر ٣ Epsilon Eridani Asteriod Belts - Artists Conspt by Zonnee, on Flickr
سیارچوں کی یہ پٹیاں ملبے کا وہ ڈھیر ہیں جو سیاروں کے بننے کے بعد بچ گئی ہیں۔لہٰذا یہ ہمیں اپنے نظام شمسی کے اولین دور کےمتعلق بتا تے ہیں۔ ہماری سیارچوں کی پٹی ہر قسم کے سیارچوں سے بھری ہوئی ہے۔ جہاں لاکھوں سیارچے اپنی اپنی کہانی سنا نے کو بیتاب ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے ان کو بمشکل ہی دیکھا ہے۔ یہ صورتحال اب تبدیل ہونے والی ہے۔سیارچوں کی پٹی کی طرف جانے والا پہلا مشن جس کا نام "ڈان کھوجی"(Dawn Probe) ہے اپنے تکمیل کے مراحل پورے کرکے روانہ ہوچکا ہے۔ اس کا مقصد اس پراسرار سلطنت کو کھنگالنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دانوں کو امید ہے کے اس ایک مشن سے ہمیں ان کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات حاصل ہو جائیں گی جتنی ان کو دریافت کرنے سے اب تک ہوئی ہیں۔

جولائی ٢٠١١ میں ڈان اپنے پہلے ہدف تک پہنچ گیا اور اس نے وہاں سے کچھ تصاویر بھیجیں(تصویر نمبر ٤)۔ویسٹا سیارچوں کی پٹی میں دوسرا سب سے بڑا سیارچہ ہے یہ سیارہ بنتے بنتے رہ گیا۔ مشتری کی زبردست قوّت ثقل نے اس کو مزید بڑھنے سے روک دیا۔ آج تو یہ ایک چھوٹا سا جہاں ہے۔ سیارچوں کی پٹی سے متعلق ایک غلط فہمی جو بہت عام ہے وہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں پر موجودساری چیزیں بہت چھوٹی ہیں۔ مگر وہاں پر موجود کچھ بڑے سیارچوں کو صحیح طور سے تو ہم" چھوٹے سیارے"(Minor Planets) ہی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کئی میل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ویسٹا پر موجود ایک پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سے تین گنا زیادہ بڑا ہے(تصویر نمبر ٥)۔
تصویر نمبر ٥ - Vesta-Mountain by Zonnee, on Flickr
ڈان کھوجی نے حیرت کے نئے جہاں وا کردئیے تھے۔سائنس دانوں کے لئے یہ بہت ہیجان انگیز چیز تھی وہ ایک بالکل نئی دنیا دیکھ رہے تھے۔

ویسٹا تو زمین کے اس دور کی تصویر ہے جب وہ امریکی ریاست ایریزونا کے جتنی تھی۔اس کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسےکہ زمین کو بنتے ہوئے رحم مادر میں اس وقت دیکھ رہے ہوں جب اس کی عمر کچھ لاکھوں سال ہی کی تھی۔

ڈان کھوجی نے اس بات کا پتا لگالیا تھا کہ ویسٹا کا قلب لوہے پر مشتمل زمین کے قلب جیسا ہی ہے یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ جب زمین نوجوان تھی تو اس کا قلب بھی ایسا ہی تھا۔ یہ ششدر کردینے والی دنیا ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم کرۂ ارض کے ماضی میں جھانک کر اس کو سمجھ سکیں۔ سائنس دانوں کو وہاں وہ چیزیں دیکھنے کا موقع ملا جس کی وہ توقع نہیں کررہے تھے اور ان چیزوں کو دیکھ کر وہ بہت خوش اور حیران رہ گئے تھے ۔

ویسٹا کے سفر کے بعد ڈان کھوجی سیارچوں کی پٹی کے باہری حصّے کی طرف نکلا تاکہ اس قدیمی برفیلی دنیا کو کھنگال سکے جو ویسٹا سے چار گنا بڑی تھی۔یہاں پر ڈان کھوجی کا مقصد زمین کے ماضی کی ایک اور پہیلی کہ زمین پر سمندر کیسے بنے ؟کو سلجھانا تھا۔سیارچوں کی پٹی قدیمی ، خطرناک اور زمین سے دسیوں کروڑ میل دور ہے ۔ مگر سارے سیارچہ وہاں اس پٹی پر ٹکے نہیں رہتے۔ وہ پورے نظام شمسی میں گھومتے رہتے ہیں۔چاند کی سطح اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح سے ماضی میں ان سیارچوں نے اس پر زبردست برسنا شروع کیا تھا۔ اس بات کا ثبوت ہم ہر رات کواس وقت دیکھتے ہیں جب چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے ۔ چاند کی سطح کو دیکھنے سے پتا لگتا ہے کہ گڑھوں سے بھرپور بنجر زمین ان سیارچوں کی بارش سے ہونے والی بربادی کی کہانی سنا رہی ہوتی ہے جو خلاء سے نمودار ہو کر اس پربرسے اور اس کی سطح کو بگاڑ دیا۔دسیوں لاکھوں گڑھے چاند کی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں جس میں نظام شمسی کا اب تک کا دریافت ہونے والا سب سے بڑا گڑھا جو ١٥٠٠ میل پر پھیلا ہوا ہے شامل ہے (تصویر نمبر ٦)اور اس گڑھے میں بھی خود ہزار ہا چھوٹے گڑھے موجود ہیں۔ سیارچوں کے ایک طوفان نے چاند پر آج سے ٤ ارب سال پہلے دھاوا بول دیا تھا۔ اگر ایسا چاند پر ہوسکتا ہے تو پھر زمین پر کیوں نہیں ہوسکتا؟
تصویر نمبر ٦ - Moon-Aitken by Zonnee, on Flickr
زمین چاند سے کافی بڑا اور زیادہ ضخامت والا خلاء میں نشانہ ہوسکتا ہے۔ چاند کے ہر ایک گڑھے کے مقابلے میں زمین پر ٥٠ یا ٦٠ گڑھے ہونے چاہئے تھے۔

ماضی کے یہ ٹکراؤ بہت دہشتناک ہوں گے۔ ہر کچھ ہفتوں کو چھوڑ کر ایک دیوہیکل اجرام فلکی دور دراز خلاء میں سے زمین کی طرح لپک رہا ہوگا اور زمین کی سطح پر سوراخ کرتا ہوا ایک پھانک سی بنا دیتا ہوگا۔

سائنس دانوں نے اس کو"ماضی بعید کی بھاری بمباری" (Late Heavy Bombardment)کا نام دیا ہے۔٢٠ کروڑ سال تک آگ کی گیندوں کی بارش آسمان سے ہوتی رہی ہوگی۔ان ٹکروں سے زمین پر زلزلے آئے ہوں گے جو زمین کی معلوم تاریخ میں سب سے زیادہ خطرناک زلزلوں سے بھی بڑے زلزلے ہوں گے۔١٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی زبردست رفتار کے طوفانوں نے زمین کے ابتدائی کرۂ فضائی کو اڑا کر رکھ دیا ہوگا۔ مگر ان سیارچوں نے زمین کو ایک نئی چیز سے بھی روشناس کرایا ۔ ان سیارچوں میں سے کچھ میں برف یعنی جما ہوا پانی بھی تھا جو گرتے ہوئے پگھل کر پانی بن گیا تھا۔ ہر سیارچہ نے اس میں تھوڑا تھوڑا کر کے اضافہ کیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا سیارچے زمین پر اتنا پانی لے کر آئے جس سے اس کا دو تہائی حصّہ ڈھک گیا تھا۔ سائنس دان اس بات کی تلاش میں ہیں کہ زمین پر پانی کہاں سے آیا۔کیونکہ ان کے مطابق زمین اپنی پیدائش کے وقت بہت گرم اور سوکھی ہوئی تھی۔

ناسا کے اس کھوجی ڈان کا مقصد اب اس سوال کا جواب ڈھونڈھناہے ۔ سیارچوں کی یہ پٹی اب بھی برفیلے سیارچوں سے بھری ہوئی ہے جو اس کے ٹھنڈے اور دور دراز والے حصّہ میں موجود ہیں۔٢٠١٥ء ڈان خلائی گاڑی نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارچے" سیریز"(Ceres) پر پہنچے گا (تصویر نمبر ٧)۔
Asteroid Ceres with twin jets of steam by Zonnee, on Flickr
سیریزکی کمیت سیارچوں کی پٹی کی کمیت کا ایک تہائی ہے اور یہ کسی بھی دریافت شدہ سیارچے سے چار گنا زیادہ بڑا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ خالص برف کا بنا ہوا ہو۔ سیریز کا اندرونی حصّہ چٹانی ہیں جبکہ اس کی سطح زیادہ تر برف کی ہے۔ یہ سورج سے کافی دور ،ٹھنڈ اور متوازن بھی ہے۔ سیریز صرف ٦٠٠ میل چوڑا ہی ہے مگر اس کے باوجود اس میں زمین پر موجود تازہ پانی سے زیادہ جمی ہوئی برف ہوسکتی ہے۔ ڈان مشن اس بات کا جواب یقینا حاصل کر لے گا کہ اگر سیریز واقعی میں اتنی برف رکھتا ہے تو زمین پر پانی کہاں سے آیا۔جب ٤ ارب سال پہلے زمین پر سیارچوں کی بارش ہورہی تھی تو کچھ سیریز جیسے کچھ ضخیم برفیلے اجسام زمین پر پانی کی کافی مقدار لے کر آئے ہوں گے۔

پانی ، برف کی شکل میں آسمان سے ہی آیا ہوگا تاکہ زمین پر وہ یہ زبردست سمندر بنا سکے۔ اور صرف یہ سمندروں کی بات نہیں ہے، زمین پر موجود دریا، برف کے تودے اور بادل سب کچھ آسمان ہی سے نازل ہوا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ ڈان مشن سیریز پر سے کچھ اور اہم انکشافات کرسکے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ وہاں برف کے نیچے کوئی سمندر تلاش کر لے ۔ ایک اندرونی پانی کی سطح جو" بونے سیارے" (Dwarf Planet)کی قلب کی گرمی سے پگھل گئی ہوگی۔ حیات پانی پر انحصار کرتی ہے۔ ہم جہاں پانی پاتے ہیں وہاں زندگی کی رمق بھی مل سکتی ہے۔اگر وہاں پر مائع پانی کا سمندر سطح کے نیچے موجود ہو سکتا ہے تو پھر وہاں حیات کے ہونے یا نہ ہونے کا بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔

"ماوراء ارض زندگی"(Extraterrestrial Life) سیارچوں کی پٹی سے بھی شروع ہو سکتی ہے سیریز اس حیات کا گھر ہوسکتا ہے جو سمندر کی سطح کے نیچے پنپتی ہو۔اگر سیارچے جیسے کہ سیریز حیات کو سہارا دے سکتے ہیں تو یہ اس چیز کو سمجھنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں کہ زندگی زمین پر کیسے شروع ہوئی تھی۔ ٤ ارب سال پہلے سیارچوں نے زمین پر برسنا شروع کیا تھا اور وہ زمین پر پانی اور شاید حیات بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔سیارچوں کی پٹی سے لے کر زمین کے نئے سمندروں تک - ابتدائی جاندار، جو آخرکار زمین پر موجود تمام جانداروں میں بدل گئے - انہوں نے زمیں کو زندگی کا کنارہ بنا دیا۔ ہمارے اولین آباؤ اجداد شاید سیارچوں کی پٹی سے ہی آئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ چھوٹے سے جہاں پورے نظام شمسی میں زندگی پیدا کرنے کی جگہیں ہوں ۔ اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے ستاروں کے گرد بھی ایسا ہی ہوتا ہو۔

سیارچے شاید زندگی اور موت دونوں کو پوری کائنات میں لے کر آتے ہیں ۔مگر ایک دفہ زندگی شروع ہوگئی تو یہ اس کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ سیارچے ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ تخلیق و فناان میں لپٹی ہوئی ہے ۔ کرۂ ارض خلائی بمباری کی عین زد میں ہے ۔

حالیہ دور میں سائنس دانوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ ہم کائناتی بموں کے بالکل عین نشانے پر ہیں۔ خلانوردوں خوداس تجربے سے گزرے ہیں۔ جب اپالو ٩ مشن پر موجود ایک خلانورد خلاء میں گئے تو جیسے ہی وہ خلائی جہاز سے باہر کی جانب نکلے تو وہ آسمان سے آتے ہوئے ایک سیارچہ کے ٹکڑے سے بال بال بچے اگر وہ ان سے ٹکرا جاتا تو ان کے خلائی سوٹ میں سوراخ کر دیتا۔ زمین کے اس پاس زیادہ تر اجسام بہت چھوٹے ہیں مگر ان کی رفتار ہزار ہا میل فی گھنٹہ ہے ۔ خلائی سوٹ بہت مظبوط ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھاری بھی بہت ہوتے ہیں مگر ابھی تک کسی سیارچے نے اس میں سوراخ نہیں کیا ۔ زمین میں بھی ان چھوٹے سیارچوں سے بچنے کی ایک حفاظتی تہ جسے ہم کرۂ فضائی کہتے ہیں موجود ہے۔ جب کوئی سیارچہ کرۂ فضائی سے ٹکراتا ہے تو وہ جل جاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (تیسرا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خلاء نورداپنے ماضی کی یاد کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہایک رات جب وہ خلاء سے زمین کے اندھیرے حصّے کی طرف دیکھ رہے تھے تو ان کو وہاں کبھی کبھار روشنی کے جھماکے نظر آتے تھے جو بعد میں جا کر ان کو سمجھ میں آئے کہ وہ تو ٹوٹتے ہوئے تارے دیکھ رہے ہیں۔

زیادہ تر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر وہ رات میں گھاس پر لیٹے ہوئے آسمان پر دیکھیں تو ان کو ہر گھنٹے میں کئی ٹوٹتے تارے نظر آئیں گے ۔
تصویر نمبر ٨ - Arizona Crater by Zonnee, on Flickr
ان میں سے اکثریت کی تعداد ریت کے ذروں جتنی ہوتی ہے۔یہ ہوا میں ہی جل جاتے ہیں مگر بڑی چٹانیں کرۂ فضائی کاسینا چاک کرتی ہوئے سیدھی زمین سےجاٹکراتی ہیں۔ اس بات کا ثبوت ایک شہابی گڑھا امریکی ریاست ایریزونا میں موجود ہے(تصویر نمبر ٨) جو کسی سیارچے نے ١٥٠ فٹ تک کا چھید بنا دیا ہے۔اس کو دیکھ کر اس زبردست طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس نے اس کو کھودا ہوگا اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں پر موجود مٹی اوپر نیچے ہوگئی اور کچھ چٹانیں تو بالکل ہی الٹی ہوگئیں ہیں۔

اس قسم کے دسیوں لاکھوں ٹکراؤ زمین کے ماضی میں ہوئے ہوں گے اور شاید مستقبل میں بھی اس سے زیادہ ہوں۔کسی شہر کا تصّور کریں جہاں کوئی شہابی گڑھا موجود ہو۔ وہاں کوئی آسمانی گیند بہت تیزی سے آئی ہوگی اس کی رفتار ٨ میل فی سیکنڈ ہوگی لہٰذا وہ زمین سے ٹکرا نے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ اس آگ کی گیند کی حرارت سطح کو گرم کردے گی۔مگر زیادہ نقصان ٹکر کے بعد ہوگا۔ایک دفہ جب یہ زمین سے ٹکرا جائے تو یہ بہت ہی کم وقت میں گڑھا بنا دے گی۔بہت ہی کم وقت میں بہت زیادہ مقدار میں توانائی خارج ہوگی جس کے بہت ہی زیادہ تباہ کن اثرات ہوں گے۔ سیارچہ زمین سے ٹکرا کر ختم ہوتے ہوئے ایک زبردست صدماتی موج پیدا کرے گا جس کے نتیجے میں کسی بھی طاقتورطوفانی آندھی کی رفتار سے چھ گنا زیادہ تیز ہوائیں پیداہوں گی۔

اس تصادم کے بعد اس میں سے ایک جھکڑ نکلے گا جو کئی میل پر پھیلاہوا ہوگا اور بہت زبردست دھول بھی نکلے گی جو عمارتوں اور گھروں کو تباہ کردے گی۔ اگر خدانخوستہ وہ شہابی ٹکڑاجس نے ایریزونا میں شگاف بنایا ہے آج کسی شہر سے ٹکرائے توپورے کے پورے شہر کو تباہ کر دے گا۔مگر یہ شہابی گڑھا والا سیارچہ بہت چھوٹا تھا۔ یہ کسی بہت بڑے سیارچہ کا ایک ٹکڑا تھا۔جو بھی کچھ وہاں ایریزونا میں ٹکرایا تھا وہ کوئی بڑی چیز نہیں تھا۔ شاید وہ ٥٠ گز لمبا ہی تھا جو فٹ بال کے میدان جتنا بھی بڑا نہیں تھا۔

خلاء میں دسیوں لاکھوں سیارچے ایریزونا میں ٹکرانے والے شہابی سیارچے کے ٹکڑے سے کہیں زیادہ بڑے موجود ہیں۔وہ اس سےبھی زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں پورے کے پورے ملک تباہ کرسکتے ہیں یا شاید اس سےبھی زیادہ۔ کوئی بھی سیارچہ جو آدھے میل لمبا ہو پوری کی پوری انسانی تہذیب کودنیا سے ختم کرسکتا ہے۔یہ ہم اس لئے جانتے ہیں کیونکہ یہ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے۔

اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے اس بات کے ثبوت ہر جگہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت وہ ہمارے پیروں کے نیچے بھی موجود ہوں۔
تصویر نمبر ٩ - KT Boundary by Zonnee, on Flickr
کچھ جگہوں پر تو ان کو ڈھونڈھنا بہت ہی آسان ہے۔جیسے کہ امریکی ریاست" کولوراڈو" (Colorado)میں ایک ہلکے رنگ کی چٹان جس کو" کے ٹی سرحد" (KT Boundary)کہتے ہیں موجود ہے(تصویر نمبر ٩)۔ اس کو سرحد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے دو زمانوں کے بیچ میں ایک نشانی لگائی ہوئی ہے۔ہر وہ چیز جو اس کے ٹی سرحد کے نیچے موجود ہے وہ ڈائنو سارس کے دور کی ہے اور ہر وہ چیز جو اس کے اوپر ہے وہ اس کے بعد کے زمانے کی ہے۔لہٰذا یہ اس دور کی یادگار ہے جب ڈائنو سارس ختم ہوئے تھے۔ اس تہہ میں ایک عنصر جس کا نام" اریڈیم"(Iridium) ہے کافی تعداد میں پایا جاتا ہے۔یہ زمین کی سطح پر کمیاب جبکہ سیارچوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی بڑا سیارچہ زمین سے ٹکرایا ہوگا تو اس نے ہر جگہ مٹی دھول کو پھیلایا ہوگا اور اس سیارچے میں موجود اریڈیم ایک تہہ کی شکل میں تمام زمین پر بیٹھ گئی ہوگی اور بالکل ایسا ہی ہم یہاں پر دیکھتے ہیں جو ایک سیارچے کی ٹکر کا واضح نشان ہے۔

وہ صبح یقیناً ایک عام سی ہی صبح ہوگی جب وہ سیارچہ اس زمین سے ٹکرایا ہوگا جو کروڑں سال سے ویسی ہی ڈائنوسارس کی زمین رہی ہوگی۔اس دن آسمان پر کوئی چیز نظر آئی ہوگی جو بہت زیادہ روشن اور گرم ہوگی۔ وہ سیارچہ ٦ میل لمبا ہوگا جو کرۂ ارض پر مکمل تباہی پھیلانا کا اہل ہوگا۔ وہ سیارچہ جو یہاں آکر ٹکرایا اور جس نے زمین پر یہ تہ بنائی ہے وہ بہت زیادہ ضخیم اور بہت تیزی کے ساتھ حرکت کر رہا ہوگا لہٰذا اس میں جو توانائی پیدا ہوئی ہوگی اس نے بہت ہی زبردست دھماکہ کیا ہوگا۔اس کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے ٥ ارب جوہری بموں کی طاقت کے برابر ہوگی۔ زمین سےبڑے بڑے چٹانی ٹکڑے فضاء میں بلند ہوئے ہوں گے اور پھر واپس اس کی سطح پر آگ کے گولوں کی شکل میں برسے ہوں گے۔ بےقابو آگ نے پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوگا۔

کے ٹی سرحد میں ایک کالک کی بھی تہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اس حادثے میں ایک عالمگیر آگ بھی لگی ہوگی جس نے اس ٹکر کے بعد ہر چیز میں آگ لگا دی ہوگی ۔زمین اندھیرے میں ڈوب گئی ہوگی اور زبردست پیمانے پر اس وقت موجود حیات ختم ہوگئی ہوگی۔ ہم اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ ساری قدرتی آفات ایک ساتھ پوری دنیا پر نازل ہوجائیں تو اس وقت زمین کا جو حال ہوگا وہی حال اس ٹکر میں ہوا ہوگا۔ یہ دن زمین کے لئے روز محشر جیسا ہوگا۔

یہ سیارچے خلاء میں موجودزمین اور اس میں موجود حیات کے لئےایک طرح سےبہت ہی خطرناک دھمکی ہیں ۔ اتنا بڑا سیارچہ زمین سے پھر ٹکرا سکتا ہے اور پھر وہی عمل دہرا سکتا ہے جو ڈائنو سارس کے دور کے ساتھ ہوا تھا۔خدانخوستہ ایسا پھر سے ہوا تو اس وقت حیات زمین پر صرف رینگنے والے کیڑوں جیسے لال بیگ کی صورت میں ہی باقی رہے گی ۔ یہ ہی وہ واحد جاندارہوں گے جو اس حادثہ میں زندہ بچ سکیں گے ۔ اس قسم کا ٹکراؤ آج سے کافی عرصہ بعد مستقبل بعید میں متوقع ہے۔سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ہوگا کیا انسانیت کو وہ آخری وقت ہوگا یا ہم قدرت کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سیارچوں نے ہماری دنیا کو اس کی موجودہ شکل دی وہ زمین پر پانی بھی لے کر آئے انہوں نے زمین پر سے ڈائنو سارس کو ختم کر کے نئے جانداروں کے لئے جگہ بنائی۔مگر سیارچے ہماری لئے ایک طرح سے خطرہ بھی ہیں۔ ہم یہ بات بہت ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں سیارچوں کا زمین سے ایسا ٹکراؤ ہونا ناگزیر ہے لہٰذا سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا ہوگا کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟بڑے شہابیے ٹکراؤ ٦ سے ١٠ کروڑ سال میں وقوع پزیر ہوتے ہیں۔لہٰذا اگلا ٹکراؤ جلد ہی ہوگا۔
تصویر نمبر ١٠ - Arecibo Puerto Rico - Telescope by Zonnee, on Flickr
اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں تیار ہونا پڑے گا ۔ ہمیں سیارچوں کو ڈھونڈھ کر اس بات کا پتا لگانا ہوگا کہ ان میں سے کون سا زمین کی طرف آرہا ہے۔خوش قسمتی سے ڈائنو سارس اور ہم انسانوں میں کافی فرق ہے۔ہمارے پاس دوربین ہے اور ہمیں ان کا آنے سے پہلے پتا لگ سکتا ہے۔ سیارچے سیاروں اور ستاروں سے بہت زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ان کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ ان کا پیچھا کرنے کے لئے ہمیں ایک دیوہیکل دوربین کی ضرورت ہے جیسی دوربین "آریسیبورصدگاہ"(Arecibo Observatory) جو" پورٹو ریکو"(Puerto Rico) میں موجود ہے(تصویر نمبر ١٠)۔یہ جگہ انسانیت کے لئے سب سے بہترین جگہ ہے جہاں سے ان سیارچوں کے ٹکراؤ سے ہم اپنی بہترین حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔یہ ایک وسیع پیالے جو ہزار فٹ پر پھیلا ہوا ہےپر مشتمل ہے۔ اور یہ دنیا کی نہ صرف سب سے بڑی دوربین ہے بلکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ریڈار ڈش بھی ہے۔ جس طرح سے کوئی بھی ریڈار ہوا میں موجود تمام ہوائی جہازوں کا حساب کتاب رکھتا ہے اسی طرح یہ دوربین خلاء میں موجود زمین کے قریب اجرام کا ریکارڈ رکھتا ہے یہ اس قدر طاقتور ہے کہ یہ ان اجرام کا سراغ کئی لاکھوں میل دور سے لگا سکتا ہے۔ دوربین سے بڑھ کر ریڈار کسی بھی چیز کا فاصلہ براہ راست اور بالکل درست لگا سکتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں پر موجود ہے۔یہ طریقہ سیارچوں کے سراغ لگانے کے لئے بالکل ٹھیک ہے۔
تصویر نمبر ١١ - apophis by Zonnee, on Flickr
٢٠٠٤ء میں ماہرین فلکیات نے ایک اسٹیڈیم کے جتنا سیارچہ زمین کی طرح بڑھتے دیکھا جس کا نام مصری تباہی کے دیوتا" آپوفس" (Apophis)کے نام پر رکھا(تصویر نمبر ١١)۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ ١٣ اپریل ٢٠٢٩ بروز جمعے کے دن زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔آپوفس دور حاضر میں زمین کے قریب پہلا اجرام ہے جس سے ماہرین فلکیات پہلی بار سہمے ہوئے ہیں۔ اس بات کا امکان کہ کچھ بہت ہی تباہ کن ہو سکتا ہے ٣٠ میں سے ١ کا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (چوتھا اورآخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریسیبونے خلاء میں موجود اب تک کے سب سے بڑے خطرے کا سراغ لگاکر اپنی اہمیت جتا دی ہے۔ آپوفس پورے ملک کے ملک برباد کر سکتا ہے۔مگر اس سیارچے کا راستہ اب بھی غیر یقینی ہے۔یہ زمین سے ٹکرا بھی سکتا ہے اور اس سے دور سے بھی گزر سکتا ہے۔ صرف آریسیبو ہی ہمیں یہ بات یقینی طور پر بتا سکتی ہے۔

آریسیبو دوربین ہی اس قابل تھی کہ وہ اس غیر یقینی صورتحال کو ٩٨%کم کرکے صحیح اندازہ لگا سکے۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الحال تو اس کے ٹکرانے کا ٢٠٢٩ میں کوئی چانس نہیں ہے۔

وہ زمین کے قریب سے چاند سے بھی نزدیک فاصلے سے گزرے گا۔بلکہ ہمارے کچھ مصنوعی سیارچوں سے بھی قریب سے اس کا گزر ہوگا۔ ہمارے پاس سیارچوں کا سراغ لگانے کے لئے بہت طاقتور آلات موجود ہیں۔مستقبل میں کبھی شاید ہم کسی ایسے سیارچہ کا بھی پتا لگا لیں جو زمین سے ٹکرائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنا بچاؤ اس ٹکراؤ سے کیسے کریں گے۔ سب سے زبردست حکمت عملی تو یہ ہوگی کہ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں تباہ کرے ہم اس کو تباہ کردیں۔ مگر یہ کام خطرات سے بھرپور ہوگا۔

ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ اس طرح سے تباہ ہو جس میں اس کے ٢،٣، یا ٥ ٹکڑے ہوجائیں جس سے یہ پوری دنیا کو اپنا نشانہ بنا سکے اور بہت سارے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ سیارچے کو پھاڑنے سے اس اکیلا سیارچے کے ٹکرانے سے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے یہ زمین کی طرف آنے سے اپنا راستہ بدل لے۔ جب کوئی سیارچہ زمین کی طرف رخ کرتا ہے تو مستقبل میں ان دونوں کا راستہ ایک دوسرے کو قطع کرسکتا ہے۔ اور وہ دونوں ایک نقطہ پرایک ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ تھوڑی دیرکے لئے فرض کریں کہ زمین ایک ریل گاڑی ہے جبکہ سیارچہ ایک کارہے اور دونوں ریلوے لائن پر ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ اگر وہ دونوں ایک وقت میں ایک مخصوص جگہ پہنچیں گے تو ٹکراؤ لازمی ہوگا۔ اس ٹکر سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ نہیں ہوگا کہ آپ اس کار کی سمت ریلوے لائن سے سے بدل دیں بلکہ یہ ہوگا کہ آپ کسی ایک چیز کی رفتار کو آہستہ یا تیز کرلیں۔

اگر وہ کار اپنی رفتار بڑھا کر ریل کےآنے سے پہلے وہاں سے گزر جائےیا پھر اپنی رفتار کو آہستہ کر کے ریل کے گزرنے کا انتظار کر لے اور پھر اس جگہ کو کراس کرلے تو دونوں کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ صحیح سلامت رہیں گے۔ سیارچے سے بھی ہم یہ ہی چاہتے ہیں تا کہ یہ بات یقینی بنا سکیں کہ اس ایک جگہ سے گزرتے ہوئے زمین اور سیارچہ ایک ساتھ نہ پہنچ جائیں۔ کار کی رفتار کو آہستہ کرکے ہم اس تصادم کو روک سکتے ہیں۔ یہ ہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تصادم سے بچا جاسکتا ہے۔
تصویر نمبر ١٢ - Asteriod Tractor by Zonnee, on Flickr
مگر مصیبت یہ ہے کہ سیارچوں کے بریک نہیں ہوتے کہ ان کو دبا کر آہستہ کیا جاسکے۔ ہمیں ان کی رفتار کو آہستہ کرنے کے لئے کچھ دوسرے طریقوں کا استعمال کرنا ہوگا۔ ایک طریقہ تو یہ ہےکہ اس کے لئے اسی سیارچے کی ثقلی قوّت کو استعمال کیا جائے۔ چھوٹے سیارچے کے لئے ہمیں ایک بڑا خلائی جہاز درکار ہوگا جو اس سیارچے کے قریب ہو۔ خلائی جہاز کو اس سیارچے کی سطح سے اوپر منڈلاتے رہنا ہوگا(تصویر نمبر ١٢)۔ ہم اس خلائی جہاز سے دھکیلنے کی قوّت پیدا کریں گے تاکہ وہ اس کی سطح پر گر نہ جائے اور ایک طرح سے خلائی جہاز اسے ثقلی قوّت سے پرے دھکیل دے۔ قوّت ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اس سیارچے کو زمین کے راستے سے کھینچا جا سکتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ قوّت ثقل اس سیارچے کی رفتار کو اتنا آہستہ کردے گی کہ یہ زمین سے نہ ٹکرائے۔

سیارچے ہمارے مستقبل پر ایک دوسری طرح سے بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ہم ان کو مہلک ہتھیارے سے ایک انتہائی قیمتی اثاثے میں بھی بدل سکتے ہیں۔سیارچے تخلیق کی طاقت ہوتے ہیں۔ انہوں نے سیارے بنائے وہ ہی زمین پر پانی لے کر آئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی تباہی بھی مچاتے ہیں۔سیارچے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ عطیہ خداوندی بھی ہیں۔ شروع میں وہ زندگی کے لئے بنیادی سامان کے کر آئے۔ بعد میں وہ حیات کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔ سیارچے تباہی اور بربادی بھی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر زندگی کو ان سے ہمیشہ خطرہ نہیں ہوتا ۔
تصویر نمبر ١٣ - Asteroid-mining-illus-2 by Zonnee, on Flickr
ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہم تکنیکی طور پر اتنا آگے پہنچ جائیں گے کہ ہم کوئی ایسی چیزان سیارچوں پر بھیج سکیں جو ان کا راستہ بدل سکےیا ان کو تباہ کر سکے۔ہمارے پاس ابھی تو اس کو اپنے راستے سے ہٹانے کی تکنیک موجود ہے۔ ہم ان کوتباہی کے بجائے اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم وہاں کان کنی کر سکتے ہیں(تصویر نمبر ١٣)۔ ان سیارچوں میں سے کئی حیران کن معدنیات سے بھرپور ہیں۔کئی طرح سے سیارچے خلاء میں سونے کی کانیں ہیں۔ بلکہ وہ صرف سونے کی کانیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں زنک، ایلومینیم اور پلاٹینم بھی موجود ہیں۔صرف ایک اوسط حجم کا سیارچہ ہی ہزار ہا ارب ہا ڈالر مالیت کی معدنیات کا خزانہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کام کے لئے تو پہلے ہمیں وہاں پہنچنا ہوگا۔

١٥ اپریل ٢٠١٠ میں امریکی صدر اباما نے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیاجس میں انہوں نے بتایا کہ ٢٠٢٥ تک ایک نئے طرح کے خلائی جہازبنانے کی امید کی جارہی ہے جس کا مقصد خلاء میں لمبا سفر طے کرنا ہوگا اور جو خلائی جہاز کے عملے کو لے کر چاند سے دور خلاء میں لے کر جائے گا۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ مشن خلانوردوں کو سیارچوں تک لے جانا شروع کرے گا۔

سب سے آسان سیارچہ جس پر انسان پہنچ سکتا ہے وہی سیارچہ ہے جس کا زمین سے ٹکرانے کا خطرہ ہے۔ جیسے ہی یہ ہمارے پاس سے گزرے گا ویسے ہی ہم اپنا خلائی جہاز اس کی طرف روانہ کردیں گے۔باوجود اس کے کہ یہ سیارچہ ہمارے بہت قریب سے گزرے اس پر کان کنی کرنا ابھی تو دیوانے کی بڑ ہی ثابت ہوگی۔ سیارچوں کی پٹی پر کان کنی نہ کرنے کی وجہ اس پر آنے والی لاگت ہے ۔ اسی لئے ہم ابھی تو خلائی جہاز پر خود سے خرچہ کر رہے ہیں۔کسی سیارچے کو دور خلاء سے لانے میں زبردست پیسہ ، ایندھن اور مہارت درکار ہوگی۔

مگر ہوسکتا ہے کہ ہمیں وہ معدنیات زمین پر لانا نہ پڑیں۔ہم سیارچوں پر موجود وسائل سے خلاء میں رہنے کی چیزیں بنا سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی خلائی اسٹیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے وہ وہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔ ہمیں وہاں پر کسی قسم کی حفاظتی چھت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ہمیں وہاں صرف مٹی میں سوراخ کرکے ان چٹانی چیزوں کو تابکاری اور چھوٹے شہابی ٹکڑوں سے بچنے کے لئے بطور حفاظتی چھت استعمال کرنا ہوگا۔ سیارچے ایک طرح سے بنے بنائے خلائی ا سٹیشن ہیں۔

ہلکی قوّت ثقل وہاں آنے اور جانے میں مدد دے گی۔ وہاں پر وافر مقدار میں پانی اور وہ تعمیراتی سامان موجود ہے جو کسی کالونی بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

لہٰذا اس دن جب ہمیں سیارچوں کی پٹی پر انسانی بسیرا ڈالنا ہوگا تو بس ہمیں وہاں شہر تعمیر کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہم کو اس پٹی میں ہی قیمتی دھاتیں مل جائیں گی۔
تصویر نمبر١٤ - Colonization of Asteriods - Artists Conspt by Zonnee, on Flickr
ایک شہروں پر مشتمل وسیع جتھا فیتے کی طرح خلاء میں ارب ہا میل پر پھیلا ہوا بن جائے گا(تصویر نمبر١٤ )۔ اور یہ صرف شہر ہی نہیں ہوں گے بلکہ یہ تو خلائی جہاز بنانے کے کارخانے ہوں گے۔ شاید سیارچے اصل میں ہمیں وہ دھاتیں مہیا کرسکیں جس سے ہم اپنے خلائی جہاز بنا سکیں۔

تو ہو سکتا ہے کہ مریخ اور مشتری کے درمیان کہیں پر ہمارے مستقبل کے خلاء جہاز بنانے کے کارخانے موجود ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ سیارچے ہمیں نظام شمسی سے باہر نکلنے کے لئے پہلا قدم رکھنے کی جگہ فراہم کر سکیں۔ سیارچوں نے زمین کو بنایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حیات کو بھی وہی زمین پر لائے ہوں۔ اور مستقبل میں یہ انسانیت کی زمین پر سے فرار میں بھی مدد کرسکیں تاکہ وہ کہکشاں میں دوسری جگہ بسیرا ڈال سکے۔ ایک طرح سے سیارچے ہمیں دور خلاء میں بھیج سکتے ہیں۔ چاہئے ہمیں اپنی حفاظت کرنی ہو یااپنے مسکن کو بڑھانا ہو ۔تمام کائنات میں موجود جدید تہذیبیں دوسرے ستاروں پر پہنچنے کے لئے سیارچوں کوپہلے قدم کے طور پر استعمال کر رہی ہوں گی اور ان کی پیروی میں انسانیت بھی پیچھے نہیں رہے گی۔

تمام شد۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (پہلاحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری دنیا ایک تواتر سے جاری رہنے والے تصادموں اور تباہی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ قیامت خیزسیاروی تصادم ، لاکھوں وحشی کونیاتی حملے اور کائنات میں موجودسب سےخطرناک دھماکے یعنی کہ سپرنووا یہ سب حشر کا سماں برپا کرنے والے ہنگامے زمین کوبننے سے پہلے ہی ریزہ ریزہ کر سکتے تھے اور آج ہمارے سیارہ زمین کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ یہ ساری حشر سامانیاں ہمارے جسموں کے ایٹموں تک کو خلاء میں بکھیر دینے کی طاقت رکھتی ہیں اس کے باوجود اس تمام ہنگامے نے ہمارے حیرت انگیز سیارہ کو جنم دےدیا۔ زمین ایک حیرت آفریں اوربہت ہی خاص جگہ ہے۔اس کی تخلیق کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز اس قرینے سے وقوع پزیر ہوئی ہے جیسے کہ اس کو ہونا چاہئے تھا شروع سے لے کر آخر تک ہر چیز ایک انتہائی نازک توازن پر ٹکی ہوئی ہے۔زمین کی اس زبردست تخلیق کو دیکھ کر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں کہیں اور بھی کسی دوسری جگہ کوئی سیارہ زمین کی طرح وجود پا سکتا ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو پھر کائنات زمین جیسی دنیاؤں سے بھری ہوئی ہوگی جہاں زندگی اپنی جہت میں رواں دواں ہوگی۔ کرۂ ارض ایک غیر معمولی سیارہ ہے۔ زندگی کے لئےضروری ہربنیادی چیز یہاں موجود ہے-- کھرب ہا مخلوقات ، پودے اور ہم انسانوں جیسے ذی شعور مخلوق۔

"رسٹی شوئیکارٹ"(Rusty Schweickart) ایک امریکی خلانورد ہیں جو زمین کو" انٹرنیشنل سپیس ا سٹیشن"(International Space Station) سے دیکھنے کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں "جب ہم خلاء سے زمین کو دیکھتے ہیں تو حیات کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ سب کچھ یہاں اسی سیارے پر نیچے موجود ہے۔ خلاء میں ہر ٩٠ منٹس میں زمین کے گرد ایک چکر لگاتے ہوئے جب ہم اس خوبصورت سیارے کو دیکھتے ہیں تو اس نیلے سیارے کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔"(تصویر نمبر ١)
تصویر نمبر ١ - Space_Station_over_Earth by Zonnee, on Flickr
یہ بات توہم سب جانتے ہیں کہ زمین ہمارے نظام شمسی میں ایک فقید المثال سیارہ ہے مگرجو بات ہم اب تک نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ کیا کائنات میں بھی یہ ایک بے نظیر سیارہ ہے یا نہیں۔ ہمارے لئے ان عوامل کا جاننا بہت ضروری ہے جنہوں نے زمین کی خلقت کا انتظام کیا اس بات کو جانے اور سمجھے بغیر ہم دوسرے ستاروں کے گرد ان عوامل کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ اگر ہم نے ان عوامل کو کہیں اور کچھ دوسرے ستاروں کے گرد پا لیا تو یہ اس بات کا عندیہ ہوگا کہ کائنات میں موجود مختلف جگہوں پر زمین جیسے دوسرے جہاں بھی جنم لے سکتے ہیں۔ یہ سوال انسان کو کافی عرصے سے تنگ کررہا ہے کہ کیا دوسرے سیارے بھی دیگر ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں یا نہیں؟ اس بات کی تلاش کے لئے ہمیں وقت کے پہیے کو پیچھے گھومانا ہوگا اور اس بات کی چھان بین کرنی ہوگی کہ زمین کا جنم کیسے ہوا۔

وقت کے دھارے کو پیچھے کر کے اب ہم ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میں کھڑے ہیں۔ جہاں ہم گرد کےان گنت چھوٹے چھوٹے ذرّات کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے دوسرے گرد کے ذرّات کے ساتھ مل کر زمین کی تشکیل کرنی ہے۔ یہ تمام گرد کے ذرّات اس ستارے کی پیدائش کا حصّہ ہیں جن سے ابھی نظام شمسی نے جنم لینا ہے۔ سیاروں کی پیدائش کے لئے سب سے پہلے ایک ایسا دور شروع ہونا لازمی ہے جس میں گرد کے بادل ہمارے سیارے سمیت ہزار ہا شیرخوار سیاروں میں تبدیل ہوکر نظام شمسی کا حصّہ بنیں ۔ بالکل یہ ہی عمل ہم سے ٧ ہزار نوری سال کے فاصلے پر" عقابی سحابیے" (Eagle Nebulae)میں چل رہا ہے۔ ہمارا اپنا نظام شمسی بھی اسی طرح کے گرد و غبار کے بادلوں میں ہی بنا تھا۔

اس سحابیے میں گیس کے تین ستون موجود ہیں جن کو "تخلیق کے ستونوں "(Pillars of Creation) کا نام دیا گیا ہے اور جودسیوں کھرب ہا میل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ سحابیہ ایک بہت بڑی ساخت ہے۔

بادل دیکھنے میں بہت کثیف لگتے ہیں مگر اصل میں یہ بہت ہی غیر گنجان ہیں ۔

یہاں پر موجود پہاڑ جتنا بادل لے کر اگر ہم اس کو دبائیں اور بھینچیں تو وہ بادل دب کر ایک چھوٹا سا چٹانی پتھر ہی بناپائے گا۔

گیس اور بادلوں کو دبا کر کثیف ستاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھالنے کے لئے کسی بے حد طاقتور واقعہ کارونما ہونا لازمی ہے۔ ٢٠٠٧ء میں سپٹزر خلائی دوربین نے اس بات کی شہادت حاصل کرلی کہ ایک پھٹتے ہوئے ستارے نے ایک گیس کی وسیع دیوار کو ان ستونوں کی جانب روانہ کیا(تصویر نمبر ٢)۔
تصویر نمبر ٢ - spitzer_pillarA_02 by Zonnee, on Flickr
ایک گرم مادّے کی موج ،تخلیق کے ستونوں تک جارہی ہے جو ایک پھٹ کر مرتے ہوئے ستارے یعنی کہ سپرنووا کی صدماتی موج تھی۔

سپرنووا اس زور سے چمکتے ہیں کہ تھوڑے عرصے کے لئے پوری کہکشاں کی روشنی کو بھی چھپا دیتے ہیں۔زبردست گرم پلازما خلاء میں ایک دھماکے کے ساتھ نکل ٧ کروڑ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ پڑتا ہے ۔ایک زبردست صدماتی موج تیزی سے تخلیق کے ستونوں تک جاتی دکھائی دے رہی ہے اور جب یہ موج ان ستونوں سےٹکرائی گی تویہ ان کو ختم کرکے نئے جہاں بھی بنادے گی۔ سپرنووا کی صدماتی موجیں ستونوں سے جاکرٹکرائیں گی ، جس سے ہلکی گیس اور گرد کے بادل دب کر کثیف جھنڈ میں بدل جائیں گے جس میں سے ہر ایک نیا ستارہ ، نیا نظام شمسی خلق ہوگا۔ سالموں کے بادل سپرنووا کے دھماکے سے بھینچ کر ستارے اور سیارے بناتے ہیں۔

اب ہمیں واپس ٤۔٥ ارب سال والے دور میں چلنا ہوگا جب ہمارا نظام شمسی بھی اسی طرح سے جنم لے رہا تھا۔اس وقت ایک سپرنووا نے کثیف بادلوں کو دبا کر ایک قرص کی شکل دے دی تھی۔ ایک پتلے سے سحابیہ نے گیس اور گردکے بھنور کی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک نئے نظام شمسی بنانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ ہمارے سورج اور اس کے گرد بننے والے سیاروں کے لئے ایک ستارے اپنی جان قربان کردی تھی۔ یہ اس خلاف قیاس لمبے عمل کی پہلی کڑی تھی جس میں ہماری دنیا کو بننا تھا۔ زمین کو اپنی اس موجودہ حالت میں بننے کے لئے فلکیاتی بے جوڑ امکانات کو شکست فاشت دینا تھا۔ بہت سارے عوامل کو بالکل ٹھیک اسی ترتیب سے ایسے ہی وقوع پزیر ہونا تھا جس سے اس سیارے نے جنم لینا تھا جس کا نام زمین ہے۔ اس سیارے کو اپنے ستارے سےبالکل مناسب فاصلے پرپیدا ہونا چاہئے تھا، اس کا حجم، اور اس کے گرد گھومنے والے چاند کا حجم اور اس طرح کے دیگر بے شمار عوامل کو بالکل ٹھیک طریقے سے وقوع پزیر ہونا تھا۔ زمین پر زندگی کے لئے تمام شرائط کا پورا ہونا ضروری تھا۔

ہمارے جیسے بے عیب جہاں کی تخلیق کے لئے کافی سارے ترپ کے پتے درکار تھے۔ کسی طرح سے ہمارے نظام شمسی کا چھکا لگ گیا۔ مگر سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایسا کائنات میں کہیں اور بھی ہو سکتا ہے؟

کائنات میں رونماء ہونے والے ایک خطرناک واقعہ نے ہمارے سیارے کی پیدائش کے لئے لبلبی دبا دی تھی۔ ایک بکھرے ہوئے بادل نے دب کر ایک کثیف گرد کے بھنور کو بنا دیا تھا۔ اس گرد میں سے کچھ نے زمین کا حصّہ بننا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے گرد کے ذرّات نے مل کر کیسے اتنے بڑے جہاں بنا دیے؟۔ سپرنووا نے ایک ایسی بندوق کی لبلبی دبا دی تھی جس نے ان عوامل کو یکے بعد دیگرے شروع کردیا جس کے نتیجے میں آخرکار ہمارا نظام شمسی اورہماری دنیا وجود میں آئی۔ اس بادل کے مرکز میں ایک گرم گیس کا گولا بننے لگاتھا جس نے آگے جاکر ہمارا سورج بننا تھا۔ اس گرم گیس کے گولےکے گردگھومنے والی مٹی نے سیاروں کا حصّہ بننا تھا مگر اس سے پہلے ان ذرّات کو آپس میں جڑنا تھا۔

اب ہمارے پاس ایک دلچسپ پہیلی موجود ہے۔ یہ ٹکیہ اب گیس اور گرد کے ذرّات پر مشتمل ہے جن کا حجم سگریٹ کے دھوئیں کے ذرّات جتنا ہی ہے جو ظاہر ہے کہ بہت ہی چھوٹی سی چیز ہوتی ہے ۔ مگر پھر کسی طرح سے ان چھوٹی سی چیزوں نے مل کر اس زمین کو بنایا جس کو ہم آج دیکھتے ہیں۔

قوّت ثقل ایک زبردست کشش رکھنے والی طاقت ہے۔ اس نے کہکشاؤں اور نظام ہائے شمسی کی بناوٹ میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن گرد کے یہ ذرّات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ قوّت ثقل کے بل بوتے پر یہ ایک دوسرے کو کھینچ نہیں سکتے ۔ اس کے باوجود یہ کسی طرح سے ایک دوسرے سے جڑ کر جتھوں کی صورت میں جمع ہوئے اور نوزائیدہ سیاروں کی شکل میں ڈھل گئے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قوّت ثقل یہاں کارفرما نہیں تھی تو پھر وہ کونسی طاقت تھی جس نے ان گرد کے ذرّات کو آپس میں جڑنے پر مجبور کیا۔ جرمنی میں سائنس دان اسی گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ وہ ایک بڑے مینار کے اندر اس بات کی نقل کررہے ہیں کہ خلاء میں گرد کے ذرّے کس طرح سے برتاؤ کرتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (دوسراحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر وہ کشش ثقل کی غیر موجودگی میں تجربات کر رہے ہیں۔ پورا تجربہ کشش ثقل کی مکمل غیر موجودگی میں ہوگا۔ اس تجربے میں سائنس دانوں نے خلاء کی اتنی اچھی نقل بنائی ہےکہ اس سے اچھی خلاء کی نقل زمین پر کرنا ممکن نہیں ہے۔

محققین نے گرد ایک ڈبے میں ڈال کر اس کو ایک پھینکنے والے کیپسول میں بند کردیا۔ پھر اس کیپسول کو مینارکے فرش پرموجود ایک بہت ہی طاقتور منجنیق میں ڈال دیا ۔ یہ منجنیق اس صلاحیت کی حامل ہے کہ اس کیپسول کو صفر سے لے کر ١٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک ایک چوتھائی سیکنڈ میں پھینک دے ۔ ٤٠٠ فٹ اوپر کیپسول مینار کے سب سے اونچے حصّہ میں پہنچ کر نیچے گرنا شروع کرتاہے۔ایک پولیسٹرین گیندوں کا ٣٠ فٹ گہرا ڈرم اس نیچےگرتے ہوئے کیپسول کو توڑ دیتا ہے۔ یہ سب کشش ثقل کی غیر موجودگی میں صرف ١٠ سیکنڈ میں انجام پزیر ہوتا ہے جو سائنس دانوں کے خیال میں اتنا وقت ہے جس میں گرد کے ذرّات آپس میں چپک سکتے ہیں۔

کیپسول کے چھوڑے جانے کے اگلے لمحے ہی گردبے وزنی کی حالت میں آگئی ۔ذرّات نےاسی طرح جتھوں کی شکل اختیار کرنا شروع کردی جس طرح سے شروعاتی نظام شمسی میں کی ہوگی۔

اس تجربے میں جو قوّت ان گرد کے ذرّات کو آپس میں باندھ رہی تھی وہ قوّت ثقل نہیں تھی کیونکہ قوّت ثقل اتنے چھوٹے پیمانے پر اس طرح سے کام نہیں کرسکتی ہے۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ جس طاقت نہیں انھیں آپس میں باندھ کر رکھا ہے وہ " برق سکونی کی قوّت"(Electrostatic Force) ہے۔

سردیوں میں جب کبھی آپ اپنے کپڑے الماری سے نکلتے ہیں تو وہ اکثر آپ سے چپک جاتے ہیں یہ اسی برق سکونی قوّت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ یہاں پر بھی اسی قوّت کا اثر ہے جو ایک گرد کے ذرّے کو دوسرے گرد کے ذرّے سے چپکا دیتے ہیں۔

اس تجربے میں اب گرد کے ذرّات نے روئیں جیسی گیندوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔

گرد کے ذرّات پر موجود چھوٹے سے برق سکونی بار نےذرّات کے آپس میں ٹکرانے پر ان کو جوڑ دیا تھا جس سے گرد کے خرگوش کی شکل جیسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں۔

ان گردکے خرگوشوں نے ہی آگے چل کر سیاروں کوبنانا تھا۔ انہوں نےسوئی کی نوک کے جتنے حصّے سے بننا شروع کیا اور بڑھتے گئے۔ گرد اب جھنڈ کی صورت میں تھی مگر اب بھی یہ گرد ہی کی گیندیں تھیں۔ ان گرد کی گیندوں کو چٹانوں کی صورت اختیار کرنے کے لئے ایک بالکل نئے عمل یعنی "کونیاتی برق کے طوفان" (Cosmic Electric Storm)سے گزرنا تھا۔ خلاء کے بادل اسی طرح سے بار دار ہوجاتے ہیں جیسے کہ زمین پر موجود بادل ہوتے ہیں جس سے بجلی کی زبردست کڑک پیدا ہوتی ہے۔ گرد کی گیندیں ٹھوس چٹان کی شکل ایک زبردست توانائی سے بھرپور حادثے جیسے کہ بجلی کی کڑک میں ہی بن سکتی ہیں۔ "برقی کڑک" (Electric Bolt)نے گرد کی گیندوں کو آپس میں پیس کر ان کا درجہ حرارت ٣ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ درجہ تک پہنچا دیا جس سے وہ کچھ ہی منٹوں میں ٹھنڈی ہو کر ٹھوس چٹانوں کی صورت میں ڈھل گئیں۔ شہابیے آج بھی ان قدیمی گیندوں کو اپنے اندر لے کر گھوم رہے ہیں یہ چھوٹے کرۂ کبھی سیاروں کی بنیادی اینٹیں ہوا کرتے تھے۔ زمین بنانے کے لئے ان چھوٹے چٹانی پتھروں کو آپس میں ٹکراکر جوڑنا اور بڑھنا ضروری تھا۔ چٹانوں نے حادثاتی تصادموں کے نتیجے میں بڑھنا شروع کیا مگر اس عمل میں کافی سارا وقت درکار تھا۔ آخر کار ان نوزائیدہ سیاروں نے بننا شروع کردیا جن کا شروعاتی حجم چند میل پر پھیلے ہوئے سیارچوں کے جتنا تھا۔ شیرخوار دنیا اب ایک شہر کے چھوٹے سے حصّے ہی جتنی تھی اور ایک نئی قوّت یعنی کہ قوّت ثقل کو کمان سونپنے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔

اس وقت کوئی اکیلا سیارچہ ثقلی قوّت کے زور پر کسی دوسرےپڑوسی سیارچے کوکھینچ سکتا تھا۔ لہٰذا کوئی بھی دو سیارچے جو ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے قوّت ثقل کے زیر اثر آپس میں ٹکرا جاتے۔

ایک دفہ جب قوّت ثقل نے مورچہ سنبھال لیا تو پھر اس عمل میں پہیےلگ گئے کیونکہ بجائے حادثاتی طور پر ٹکرانے کے اب ان سیارچوں نے خود سے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا۔

قوّت ثقل نے چٹانوں کو آپس میں کھینچنا شروع کیا اور ان کو جوڑ کر بڑے سے بڑے" روڑوں کی قطار" (Piles of Rubble)بنانی شروع کردی۔ اس عمل نے جس نےگرد کے ذرّوں سے گرد کی گیندیں بنانے میں ایک لمبا عرصہ لگا دیا تھا اب اچانک ایڑھ لگا دی جس سے سیاروں کے بننے کے عمل میں پر لگ گئے اور انہوں نے تیزی سے پروان چڑھنا شروع کردیا۔

مگر سیارے صرف حد سے بڑی چٹانیں ہی نہیں ہوتے۔ اس وقت تک یہ چٹانیں گلٹیوں سے بھری غیر فعال تھیں۔یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ زمین نے کرۂ کی شکل لے کر اپنے آپ کو زندگی سے کیسے بھر دیا تھا؟شروعاتی نظام شمسی سیاروں کے بننے کا کارخانہ تھا۔ گرد چپک کر چٹانوں کو بنا رہی تھی ۔ چٹانیں سیارچوں کو تشکیل دے رہی تھیں۔ مگر زیادہ تر سیارچے زمین جیسے تو بالکل نہیں تھے۔

جب ہم سیارچوں کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بگڑی ہوئی مونگ پھلی کی شکل جیسے نظر آتے ہیں (تصویر نمبر ٣)یا پھر دبے ہوئے پلپلے آ لو جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ ان لمبوتری شکل والے اجسام پر بڑے شگاف بھی موجود ہیں۔
تصویر نمبر ٣ - Itokawa -Asteroid_Peanut-Shaped by Zonnee, on Flickr
ابھی تک نوزائیدہ زمین ارب ہا بدشکل خلائی بٹوں میں سے ایک تھی۔ سیارہ بننے کے لئے پہلے اسے کرۂ کی شکل اختیار کرنی تھی۔ یہ عمل اس وقت ہی شروع ہوسکتا تھا جب اس کا پھیلاؤ سینکڑوں میل پر محیط ہو تاکہ اس کی اپنی ثقلی قوّت اس کی بناوٹ کو تبدیل کردے۔ ایک دفہ اگر کافی مادّہ اور کمیت جمع ہوجائے تو ثقلی قوّت اس قدر توانا ہوجاتی ہےکہ کوئی بھی عظیم الجثہ پہاڑاس کی طاقت سے ٹوٹ سکتا ہے۔

قوّت ثقل اس قدر توانا ہوسکتی ہے کہ وہ چٹانوں کو توڑ کر ان کو ایک ایسے سیال کے طور پر استعمال کرے جس سے وہ چیز کرۂ کی شکل میں آجائے۔

بڑی بڑی چٹانوں نے ٹوٹ کر گرنا شروع کیا۔شروعاتی سیارہ ارض کی زبردست ثقلی قوّت نے ان کو سب سے پر اثر ساخت - وسیع ، گول چٹانی گیند کی شکل میں ڈھالنا شروع کردیا۔مگر زمین کی یہ بناوٹ بھی جلد ہی بدلنے والی تھی۔ ناہموار روڑوں کی قطار نے ایک چھوٹی سی دنیا کی شکل لے لی تھی جس کی ساخت جلد بدلنے والی تھی۔کونیاتی چٹانیں اور بٹے خلاء میں سے اب بھی نازل ہورہے تھے۔ ہر تصادم درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔

زبردست قسم کی توانائی نہایت تیزی سے حرکت کرتے ہوئے اجسام میں جمع ہورہی تھی۔ اور جب وہ چیز زمین سے ٹکراتی تووہ ساری حرکی توانائی اس میں موجود ساری توانائی اس مادّہ میں منتقل ہوجاتی جس سے مادّہ گرم ہو کر پگھل جاتا اسی پگھلی ہوئی حالت میںزمین کافی عرصے تک رہی۔

نوجوان سیارہ اب ٹھوس چٹان کے بجائے پگھلتا ہوا کھولتا ہوا مادّہ تھا یہ مادّہ بالکل کسی کارخانے کے بلاسٹ فرنس سے نکلنے والے مادّے کےجیسا ہی تھا۔

حیران کن طور پر اس سارے عمل نے زمین پر زندگی کی شروعات کو ممکن بنایا۔

جس طرح بھٹی میں پسے ہوئے لوہے کی کچ دھات، دیگردھاتیں اور پتھروں کا مکسچر ڈالا جاتا ہے جہاں بھٹی میں موجودحرارت لوہے کی کچ دھات اور باقی سب چیزوں کو پگھلا دیتی ہے بالکل اسی طرح شروعاتی زمین میں بھی ہواتھا ۔

بھٹی میں درجہ حرارت ٢٧٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے جو لوہے تک کو پگھلا ڈالتا ہے۔

آج سے لگ بھگ ٤۔٥ ارب سال پہلے زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی ٢٧٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ ہی تھا۔ ذرا ایک پگھلے ہوئے سیارے کا تصّور کریں تو آپ کو دور گرجتے ہوئے آتش فشاں لاوا اگلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہمنظر ہمارے ذہن میں "دانتے" کی(Dante) نظم "انفرنو" (Inferno)کے کسی باب کا نقشہ کھینچ دیتا ہے۔

لوہا اور دیگر دھاتیں چٹانوں سے بھاری ہوتی ہیں۔ لہٰذا پگھلی ہوئی دھاتیں چٹانوں سے الگ ہوکر نیچے بیٹھ گئیں۔یہ بہت ہی حیرت انگیز عمل تھا جس نے ارب ہا سال پہلےپہل زمین کے پہلے قشر کو بنایا جس پر ہم عام زندگی میں چلتے ہیں۔پگھلی ہوئی چٹانیں ٹھنڈی ہو کر زمین کی سطح پر آگئیں جہاں انہوں نے اس کی اوپری پرت بنائی۔ جبکہ پگھلا ہوا لوہا نیچے چلا گیااور زمین کے اندر یہ اس کے قلب تک جا پہنچا ۔ زمین کی چٹانی سطح کے اوپر ہم رہتے ہیں مگر زمین کے پگھلے ہوئے لوہے پر مشتمل قلب کے بغیر ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکتا تھا۔ اس سارےعمل نے لوہے کو دوسری معدنیات سے علیحدہ کردیا تھا۔ جب لوہا قلب میں پہنچا تو اس نے وہاں جاکر آخر کار زمین کے مقناطیسی میدان بنائے جن کی وجہ سے ہم آج تک زندہ ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (تیسراحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پگھلا ہوا لوہا قلب کے اندر گھومنے لگا جس سے زبردست طاقتور مقناطیسی میدان زمین کے گرد وجود میں آگئے جو خلائی تابکاری کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر ہمارے کام آتے ہیں۔ مگر ابھی بھی نوزائیدہ زمین کافی چھوٹی تھی اتنی چھوٹی کے آج کا ہمارا چاند ماما بھی اس سے بڑا تھا۔ اس نئے بنے ہوئے جہاں نے نا صرف ابھی اور بڑا ہونا تھا بلکہ اس کو اپنا وجود بچا کر ٹکڑوں میں بٹنے سے بھی بچنا تھا۔ ہزار ہا چھوٹے سیارے نظام شمسی میں گھوم رہے تھے جن میں سے کچھ بن بلائے مہمان کی طرح سیدھے زمین کی طرف چلے آرہے تھے۔

نظام شمسی کی عمر ابھی صرف ایک لاکھ سال ہی کی تھی۔ نوجوان زمین اب ایک سیارے جیسی دکھنے لگی تھی۔ یہ ایک کرۂ کی شکل اختیار کر گیاتھا جس کا قلب لوہے پر مشتمل تھا اور اس کی سطح چٹانی تھی۔ اس کے باوجود ہمارا نونہال سیارہ صرف چند میل پر ہی پھیلا ہوا تھا۔اس کو ابھی اپنی دور حاضر والی موجودہ شکل میں آنے کے لئے کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔ اس کو ابھی ٤ ہزار گنا زیادہ اور ضخیم ہونا تھا اور مقابلہ بہت زیادہ سخت تھا۔ ہزار ہا چھوٹے سیارے نظام شمسی میں آوارہ گردی کر رہے تھے جو اکثر ٢٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی سے بھی ٹکرا جاتے تھے۔

ہم اس دور کے ان قدیمی تصادموں کے ثبوت زمین پر اب بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے کہ امریکی ریاست ایرزونا میں موجود ایک شہابی گڑھا اس بات کی نشانی ہے۔سائنس دانوں کی دلچسپی اس شہابی گڑھے میں اتنی نہیں ہے جو صرف ٥٠ ہزار سال پرانا ہے بلکہ اس سیارچے کی باقیات میں ہے جس نے زمین کی سطح میں چھید کرکے اس شگاف کو ڈالا ہے ۔وہ سیارچہ ٤۔٥ ارب سال پرانا ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ایک سیارچہ شروعاتی نظام شمسی میں بہت ہی خطرناک اور شدید قسم کے حادثے میں بچ نکلا ہوگا۔یہ سیارچہ خلاء میں ارب ہا سال سے آوارہ گردی کرتارہا ہوگا اور پھر کسی وقت زمین کی طرف آ نکلا ہوگا اور پھر اس کی زمین سے ٹکر ہوگئی ہوگی۔ ماہرین کا مقصد اس سیارچے کا ٹکرا تلاش کرنا تھا ، جو اس دور کا باقی بچ جانے والا ملبہ ہو سکتا تھا جب سیارے ارتقاء پذیر ہورہے تھے۔

یہ شہابی گڑھا ایک ایسی ٹکر کا نشان ہے جو ٥٠ ہزار سال یا اس سے بھی پہلےوقوع پزیر ہوا ہوگا اور اس ٹکر میں بہت سے ٹکڑے زمین کی سطح سے باہر نکل گئے ہوں گے۔

ماہرین کومکمل یقین ہے اصل سیارچہ لوہے سے بھرپور ہوگا لہٰذا اس سیارچے کی باقیات کے ثبوتوں کی تلاش کے دوران انہوں نےمیٹل ڈٹیکٹر ز کی مدد لی جس نے کئی گھنٹوں کی زبردست محنت اور کڑی مشقت کے بعد اس بات کی تصدیق کردی کہ ان کا خیال صحیح تھا۔ ان جدیدمیٹل ڈٹیکٹرز ہونے کے باوجود شہابیوں کو ڈھونڈھ نکالنا ایک مشکل کام تھا ۔ ان شہابی ٹکڑوں کی کھوج کےشروع میں ماہرین کو بہت سے غلط سگنل ملے کبھی کوئی لوہا کا بولٹ مل جاتا تو کبھی لوہے کی تارمل جاتی۔

کئی گھنٹوں کی تلاش اور کئی فالتو چیزوں کے ملنے کے بعد آخر کارقسمت نے یاوری کی اور ان ماہرین کو شہابیے کا ثبوت مل ہی گیا۔یہ شہابیہ ٩٠% لوہے اور ١٠% نکل پر مشتمل تھا جو صرف ایک چھوٹے سیارے کے قلب میں ہی بن سکتا تھا۔ یہ چھوٹا سیارہ جہاں کہیں سے بھی آیا تھا اس زبردست حادثے میں کچلا گیا ہوگا۔ شروعاتی نظام شمسی میں ایک طوفان بدتمیزی مچی ہوئی تھی چھوٹے سیارے دوسرے چھوٹے سیاروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے جس سے کچھ کے پرخچے اڑ گئے تھے اور صرف ان کے قلب ہی باقی بچ گئے تھے۔ یہ واقعی نہایت فتنہ انگیز دور تھا۔

پورے کے پورے جہاں ان تصادموں میں سکڑ کر صرف چٹان اور دھاتوں کے ٹکڑے ہی رہ گئے تھے۔ ابتدائی نظام شمسی میں اس قسم کے واقعات بہت ہی عام تھے۔ نوزائیدہ زمین کا وجود خطرے میں تھا۔ اس دور کا نام "دیوتاؤں کی لڑائی "(Titanomachia) رکھا گیا ہے۔ سارے چٹانی سیارے جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے اس دور سے گزرے ہیں۔ کبھی کبھار وہ پورے کے پورے پاش پاش ہوجاتے تھے تو کبھی کوئی ایک دوسرے کو ہضم کرلیتا تھا۔

بڑے سیارے ایک طرح سے شدید جنگ جیتنے میں مصروف تھے اس بات کا مقابلہ جاری تھا کہ ان میں سےکون سب سے زیادہ اپنے پڑوسی سیارچوں کو ہضم کرتا ہے۔

یہ جنگ ٣ کروڑ سال تک جاری رہی۔ آخر کار ہزاروں چھوٹے سیاروں نے مل کر کچھ بڑے سیارے بنائے جن کے نام تھے، عطارد، زہرہ، زمین، مریخ اور تھیا ۔ پانچویں سیارے تھیا نے بننے کے بعد ہماری زمین کی طرف دور لگادی جس سے ہماری زمین کا اس دور کا آخری ٹکراؤ ہوا ۔ تھیا کا حجم مریخ کے جتنا تھا یہ اتنا بڑا تھا کہ زمین کو تباہ کر سکتا تھا۔ اگر ایسی کوئی چیز ہماری زمین سے سیدھی جاکر ٹکراتی تو وہ زمین کو ریزہ ریزہ کردیتی اور آج سیارہ زمین کا وجود نہیں ہوتا۔

اگر مریخ کے حجم کایہ سیارہ زمین سےبالکل سیدھا آکرٹکراتا تو شاید اس نظام شمسی میں ایک اور سیارچوں کی پٹی اس جگہ موجود ہوتی جہاں آج زمین ہے۔
تصویر نمبر ٤ - Theia and Earth Collision by Zonnee, on Flickr
مگر زمین کی خوش قسمتی تھی کہ بجائے سیدھی ٹکر کے تھیا زمین سے اچٹتا ہوا ٹکرایا(تصویر نمبر ٤)۔ یہ ٹکراؤ زمین کی تاریخ کا سب سے شدید اور خطرناک تصادم تھا۔ اس ٹکر نے زمین کو دوبارہ پگھلی ہوئی حالت میں پہنچا کر ایک ایسی جگہ میں تبدیل کردیا تھا جہاں ایک ٦٠٠ میل گہرا وسیع میگما موجود تھا۔ زمین اس حادثے میں بمشکل بچ پائی تھی۔ اور اس حادثے نے ہمارے جہاں کو مکمل طور پر بدل دیا تھا۔ اتنا مادّہ خلاء میں بکھر گیا تھا جو ایک پورے امریکہ جتنا چوڑا چٹانی پہاڑ جس کی اونچائی ١٠ ہزار میل کی ہو بنا سکتا تھا۔ اس تصادم میں کافی ساری توانائی پیدا ہوئی اور بہت سارا ہنگامہ مچا۔ کافی سارے مادے کی مقدار خلاء میں زمین کے مدار میں جا پہنچی اس دھول نے زمین کے گرد زبردست حلقے بنا دیے(تصویر نمبر ٥) پھر انہوں نے مل کر زمین کے گرد دو چٹانی اجسام بنا لئے جو زمین کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔
تصویر نمبر ٥ - Earth moon formation by Zonnee, on Flickr
٤ ارب سال پہلے کوئی سیارہ مریخ جتنی چیز زمین سے ٹکرائی جس میں کافی سارا مادّہ خلاء میں چلا گیا اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس حادثے میں صرف ایک نہیں بلکہ دو چاند بن گئے تھے (تصویر نمبر ٦)۔ دسیوں لاکھوں سال زمین کے آسمان پر ان دو چاندوں کی حکمرانی رہی آخر کار وہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہوئے آپس میں ٹکرا گئے۔ دو نوں چاند وں کے انضمام سے ایک بڑا چاند وجود میں آیا جو آج ہمیں آسمان میں نظر آتا ہے۔
تصویر نمبر ٦ - Earth_with_two_moons by Zonnee, on Flickr
نظام شمسی میں ہمیں کسی بھی سیارے کے مقابلے میں اتنا بڑا چاند نظر نہیں آتا جتنا بڑا چاند ہماری کرۂ ارض کا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم ثنائی جہاں کے رہنے والے ہیں جہاں دو دنیائیں ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔

اتنے بڑے چاند کے بغیر ہمارا وجود اس دنیا میں قائم رہنا ناممکن تھا۔

چاند نے حیات کی بقاء کے لئے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اس نے زمین کے مدار کو پائیداری اور استحکام فراہم کیا ہے۔

چاند نے زمین کی محوری گردش کو ایک زاویہ پرگھومنے میں مدد کی ہے جس سے ہمارے موسموں کو ایک جیسا رہنے میں آسانی ملی ہے۔ زمین کی ایک ہی زاویہ پر محوری گردش کرتے ہوئے سورج کے گرد چکر لگانے کی وجہ سے باقاعدہ موسم وجود میں آئے جو حیات کی بقاء اور اس کے ارتقاء کے لئے لازمی تھے۔ زمین نہ ہی بہت زیادہ گرم ہے نہ ہی بہت زیادہ ٹھنڈی ہے اور اس کا سبب ہماری سورج سے مناسب دوری اور ہماراضخیم چندہ ماما ہیں۔

زمین برف اور بخارات سے ڈھکنے کے بجائے بہتے ہوئے مائع پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔مگر یہ بہتا ہوا پانی ضرور کہیں اور سے آیا ہے۔ نوزائیدہ دنیا تو بہت ہی زیادہ خشک تھی۔ پانی حاصل کرنے کے لئے ہماری زمین کو دوبارہ سے مصیبت جھیلنی تھی۔

یہ اس زمانے کی بات ہی جب سورج کو روشن ہوئے صرف ٥٠ کروڑ سال ہی ہوئے تھے۔آج سے ٤ ارب سال پہلے اس زمین پر جس پر حضرت انسان کو قدم رکھنا تھا وہاں اس کے پڑوس میں تازہ تازہ چاند بنا تھا اوروہ خود ایک صحرائے بے آب کی مانند تھی۔فلکیات کی دنیا میں یہ خیال سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے کہ جن عوامل کے تحت زمین وجود میں آئی تھی اس کے نتیجے میں زمین کو گرم اور خشک ہی پیدا ہونا تھا ۔ شروع میں یہاں پر پانی نہیں تھا۔ جیسے ہی سیارہ زمین وجود میں آئی تھی ویسے ہی سورج کی زبردست تپش نے پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیا تھا۔ سورج سے دور درجہ حرارت کافی ٹھنڈا تھا لہٰذانظام شمسی کے بیرونی حصّے میں برف اور پانی دم دار ستاروں اور سیارچوں میں جمع تھا جبکہ سورج سے قریب نوزائیدہ دنیا خشک تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس سے ایسی تبدیلی آگئی کہ اب ہماری دنیا میں ایسا حیرت انگیز اور شاندارمسلسل رواں دواں پانی کا چکر موجود ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ زمین پر پانی کہیں باہر سے ہی آیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
How The Universe Works – Season 2 کی آخری قسط کا آخری حصّہ ملاحظہ کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (چوتھا اورآخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمیں ایک ایسا نظام شمسی چاہئے جہاں کافی سارا پانی موجود ہو تو اس کے لئے اس نظام میں موجود پانی کو باہری حصّے سے اندرونی حصّے کی طرف لانا ہوگا اور یہ کام دمدار ستاروں اور سیارچوں کی مدد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

دم دار تارے اور برفیلے سیارچوں میں پانی کی زبردست مقدار محفوظ تھی مگر وہ اس وقت نوزائیدہ زمین سے کروڑں میل دوری پر تھے ۔ اس وقت کچھ ایساواقعہ رونما ہواہوگا جس نے نظام شمسی اور زمین پر کافی کچھ تبدیل کردیاتھا۔ اس واقع میں سیارچوں اور دم دار تاروں کوکسی چیز نے پورے نظام شمسی میں اچھال دیا تھا۔ مشتری ، زحل،نیپچون اور یورینس نےمل کر نظام شمسی میں بھونچال مچا دیا تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب نظام شمسی بہت زیادہ جوان تھا۔ لہٰذا جس طرح نوجوانی میں لڑکے لڑکیاں اپنی من مانی کرتے ہوئے ہلا گلا کرتے ہیں بالکل اسی طرح سے ان سیاروں نے بھی کیا۔

نوزائیدہ سیاروں کو اپنے مداروں میں ابھی پائیدار استحکام نہیں ملا تھا۔ ان کے بدلتے مداروں کی وجہ سے مشتری اور زحل ایک پیچیدہ سےعمل میں محو رقص ہوگئے تھے۔ جب بھی زحل سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا تو مشتری سورج کے گرد دو چکر مکمل کرتا تھا۔ لہٰذا وہ ہمیشہ ایک مخصوص جگہ پرپہنچ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے موجود ہوتے تھا۔ ہر دفہ قوّت ثقل انہیں ایک ہی سمت میں دھکیل دیتی تھی۔ پہلے انہوں نے اپنے مداروں کو اور پھر بعد میں پورے نظام شمسی کواتھل پتھل کردیا۔ پورا نظام درہم برہم ہوگیا ۔

سیاروں کی طوفان بدتمیزی شروع ہوچکی تھی۔ اس تمام افراتفری کے دوران نیپچون اور یورینس نے اپنے مدار ایک دوسرے سے بدل لئے تھے۔ زحل اور آگے کی طرف دوڑ پڑا۔ ان دیوہیکل سیاروں نے ارب ہا سیارچوں اور دم دار تاروں کو نئے مداروں میں دھکیل دیا ۔ جن میں سے کئی نے زمین کا رخ کرلیا تھا ۔

سیارچے اور دم دار تارے پورے نظام شمسی میں پھیل گئے جس میں سے کچھ زمین اور چاند سے جا ٹکرائے ۔

کونیاتی میزائلوں نے زمین پر بمباری شروع کردی تھی ۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین کا ہر انچ حصّہ ان دمدار تاروں یا سیارچوں سے ہونے والے تصادموں کی زد میں آیا ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت زمین رہنے کی جگہ توبالکل نہیں ہوگی۔

یہ بمباری ایک ارب سال تک اس وقت تک چلی جب تک ان گیسی دیو سیاروں نے اپنے مداروں میں استحکام حاصل نہیں کرلیا تھا جس سے نظام شمسی میں بھی دوبارہ سکون ہوگیا تھا۔خود زمین پر بھی بنیادی تبدیلی رونما ہوگئی تھی ۔ ان دمدار ستاروں میں چٹانی پتھروں کے علاوہ جمع ہوا پانی برف کی صورت میں موجود تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ دم دار ستارے برف سے بنے ہوتے ہیں یہ برف کی گندی گیندوں کی مانند ہوتے ہیں جبکہ سیارچے بھی زمین پر برف اور پانی لانے کا سبب بنے ہیں۔ ہمارے بھرے ہوئے سمندر اسی کونیاتی طوفان کے مرہون منّت ہیں۔

جب آپ اگلی دفہ پانی پئیں تو یاد رکھیے گا کہ آپ دم دار ستارے یا سیارچے کا جوس پی رہے ہیں۔

پانی کی آمد وہ حتمی چیز تھی جس نے زمین کو رہنے کے قابل بنایا تھا۔ تباہی اور بربادی کے یکے بعد دیگرے شروع ہونے والے ہنگامہ خیز سلسلوں نے ایک ایسے جہاں کی تخلیق کی جو حیات کے لئے بالکل موزوں تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کائنات میں دوسرے ستاروں کے گرد کہیں اور بھی ہوا ہوگا ؟یا پھر ہم اکیلے ہی ہیں؟ ہم یہاں اس سیارے پر کیسے آئے ؟ کرۂ ارض خوش قسمتی سے غیر معمولی واقعات کے وقوع پزیرہونے کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔

٥ ارب سال پہلے ، اس بات کا امکان بہت ہی کم تھا کہ زمین جیسا سیارہ ایکایسے ستارے کے گرد بن جائے گا جو ملکی وے کہکشاں کےنہایت ہی عام سے بازو میں واقع ہوگا۔ کرۂ ارض کا وجود میں آنا اتنا ہی حیرت انگیز ہے جیسے کوئی دو پانسوں کو جن میں ہزار ہا اعداد موجود ہوں پھینک کر ایک ساتھ دو چھکے حاصل کرلے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ایسا ایک دفہ تو ہوچکا ہے ورنہ ہم یہاں یہ بات کرنے کو موجود نہیں ہوتے مگر اس بات کا کیا امکان ہے کہ ایسا کائنات میں کہیں اور بھی ہوا ہوگا اور وہاں اس سیارے پر بھی حیات موجود ہوگی اور وہاں وہ چیزیں بھی موجود ہوں گی جو کہ ہمارے سیارے پر حیات کے جاری و ساری رہنے کے لئے لازمی ہیں۔ ان بنیادی چیزوں میں مناسب درجہ حرارت، پائیدار چاند،ایک حفاظت کرنے والا مقناطیسی میدان، اور بالکل صحیح مقدار میں پانی شامل ہیں ۔ تمام عوامل کو بالکل ٹھیک اسی حالت میں ہی ہونا چاہئے جس حالت میں وہ اب موجود ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود حیران کن طور پر کائنات میں لاتعداد طور پر ہمارے جیسے جہاں موجود ہوں گے جو اس بات کے انتظار میں ہیں کہ کب ہم ان کو تلاش کرتے ہیں۔ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ ہم ایک دن کبھی بھی کیپلر خلائی دوربین کی مدد سے ایک ایسا سیارہ ضرورڈھونڈھ نکا ل لیں گے۔

جیف مرسی کیپلر خلائی دوربین کے مشن کو انویسٹیگیٹر ہیں وہ کیپلر مشن کے بارے میں بتاتے ہیں "اس دوربین کا ایک ہی مقصد ہے کہ زمین کے حجم کا زمین جیسا سیارہرات کو آسمان میں دکھائی دینے والے کسی دوسرے ستارے کی گرد ڈھونڈا جائے"۔

زمین جیسے سیارے کو ڈھونڈھنا فنی طور بہت مشکل ہے۔ کیپلر سے پہلے ماہرین فلکیات نے ٢٠ برسوں میں صرف ٥٠٠ کے قریب سیارے تلاش کیے۔جس میں سے زیادہ تر گیسی دیو تھے جو زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑے تھے۔ کیپلر کے بعد سے ان کی تعداد میں ایک دم سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔

کیپلر اب تک کچھ ہزار متوقع سیارے ڈھونڈ چکی ہے جن میں سے کئی تو متعدد سیارگان نظام کا حصّہ ہیں۔ کہیں ایک، تو کہیں دو،تو کہیں تین، یہاں تک کے ایک ستارے کے گرد چھ سیارے بھی چکر لگاتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ کیپلر ستاروں کے درمیان سیاروں کی نہ تھمنے والی تعداد کو ڈھونڈ رہی ہے۔

ابھی تک کیپلر نے زمین کے حجم سے دوگنا سیارہ اس جگہ پر ڈھونڈا ہے جہاں زندگی کے لئے بالکل مناسب درجہ حرارت موجود ہے۔ ابھی تو ہمیں نہیں معلوم کہ اس سیارے کی باقی خصوصیات زمین کی طرح ہیں کہ نہیں جیسے کہ مائع بہتے ہوئے پانی کا موجود ہونا وغیرہ۔ اگر یہ سیارہ، زمین کے جیسا نہ بھی ہو تو بھی دوسرے درجنوں سیارے ایسے موجود ہیں جو زمین کے جیسے ہو سکتے ہیں۔ کیپلر نے تو ابھی سیاروں کی بہت ہی کم تعداد کو ڈھونڈا ہے اس کی وجہ ہے کہ اس نے ابھی آسمان میں موجود کہکشاں کا بہت ہی چھوٹا سا حصّہ کھنگالا ہے ۔

ابھی تو یہ دوربین پورے آسمان کو دیکھ بھی نہیں رہی ہے یہ تو بس ابھی کہکشاں کے ایک چھوٹے سے حصّوں میں ستاروں کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہ اتنا چھوٹا حصّہ ہے کہ اگر ہم اوپر دیکھیں تو ہمارے انگھوٹے کے جتنا حصّہ ہی ہوگا۔

ہماری پوری کہکشاں میں لگ بھگ ٢ کھرب ستارے موجود ہیں جن میں سے اکثر کے گرد سیارے موجود ہیں۔

کیپلر اور دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے آدھے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی کم از کم ایک کھرب سیارے موجود ہوں گے۔ زمین کے جیسے عالم ہو سکتا ہے عنقا ہوں مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے سیارے موجود ضرور ہوں گے۔ ایسا کوئی بھی امکان کہ سیارہ زمین جیسا کوئی سیارہ ممکن ہو بہت ہی کم ہوگا مگر جب کائنات میں بے تحاشہ ستارے موجود ہیں تو ایسے سیارے کا بننا بھی ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ اور جب آپ کے پاس بہت زیادہ سیارے موجود ہوں گے تو کوئی نہ کوئی تو اس میں سے زمین کے جیسا بھی ہوگا۔ ہماری کہکشاں میں اس قدر سیارے ہیں کہ دس لاکھ میں ایک کا بھی امکان موجود ہو تو زمین کے جیسے ہزار ہا سیارے موجود ہوں گے۔

ہمارے کائنات میں کلی طور پر دسیوں کھرب کہکشائیں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کم و بیش ہماری کہکشاں ملکی وے جیسی ہے ۔لہٰذا ہماری کائنات میں سیاروں کی لامحدود تعداد موجود ہے۔

خلائی دنیائیں کائنات میں ہر جگہ موجود ہوں گی۔

اگرچہ کائنات میں موجود تمام سنساروں میں سے کوئی ایک سنساربھی ہم اپنے جیسا ابھی تک دریافت نہیں کرسکے ہیں ۔ لیکن اگر شماریات کی زبان میں بات کی جائے تو اس بات کا ١٠٠ فیصد امکان ہے کہ کائنات میں کھرب ہا سیارے زمین کے جیسے موجود ہوں گے۔

اور اتنی بڑی تعداد میں زمین جیسے سیاروں کی موجودگی میں اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ وہاں پر ذہین مخلوق بھی موجود ہوگی۔ ماہرین فلکیات و کونیات تو شرطیہ کہتے ہیں کہ زمین کے جیسی دنیائیں اس کائنات میں ضرور موجود ہوں گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کائنات میں کہیں پر ذہین بولنے والی مخلوق اپنے آپ سے سوال کر رہی ہوگی کہ "کیا کائنات میں ہمارے علاوہ کہیں اور بھی کوئی ذہین مخلوق موجود ہے؟"

زمین کے جنم کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ہم کائنات میں اکیلےہی موجود ہوں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہم اکیلے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ہم سے کتنی دور ہیں اور ہم کب ان سے مل رہے ہیں۔

تمام شد۔۔۔۔۔
 
Top