فرخ منظور
لائبریرین
آفت ہے شبِ غم کی سیاہی کا اثر بھی
دُھندلے سے نظر آتے ہیں انوارِ سَحَر بھی
دل ہی نہیں ، تصویر ہے غم کی مرا گھر بھی
حالات کا آئینہ ہیں دیوار بھی ، در بھی
ہاں، صدقِ طلب آپ ہی تمہیدِ کرم ہیں
نکلے جو دُعا دل سے تو کرتی ہے اثر بھی
ہم بھی ہیں طلب گار ، تری بزم سلامت
ساقی! ترے قربان ، کوئی جام اِدھر بھی
مانا کہ حیا آنکھ مِلانے نہیں دیتی
ممکن نہیں کیا ایک عنایت کی نظر بھی؟
اے دوست! کرم تو نہیں یہ وعدہ کرم کا
کہتا ہے اگر منہ سے کوئی بات تو کر بھی
صورت ہی نصیرؔ ایسی طرح دار مِلی ہے
ہم ہی نہیں ، تکتے ہیں اُنہیں شمس و قمر بھی
(پیر نصیر الدین نصیرؔ)
دُھندلے سے نظر آتے ہیں انوارِ سَحَر بھی
دل ہی نہیں ، تصویر ہے غم کی مرا گھر بھی
حالات کا آئینہ ہیں دیوار بھی ، در بھی
ہاں، صدقِ طلب آپ ہی تمہیدِ کرم ہیں
نکلے جو دُعا دل سے تو کرتی ہے اثر بھی
ہم بھی ہیں طلب گار ، تری بزم سلامت
ساقی! ترے قربان ، کوئی جام اِدھر بھی
مانا کہ حیا آنکھ مِلانے نہیں دیتی
ممکن نہیں کیا ایک عنایت کی نظر بھی؟
اے دوست! کرم تو نہیں یہ وعدہ کرم کا
کہتا ہے اگر منہ سے کوئی بات تو کر بھی
صورت ہی نصیرؔ ایسی طرح دار مِلی ہے
ہم ہی نہیں ، تکتے ہیں اُنہیں شمس و قمر بھی
(پیر نصیر الدین نصیرؔ)