آقا عبدالرشید دیلمی

الف نظامی

لائبریرین
برصغیر پاک و ہند میں خط نستعلیق کے امام و مجتہد
آقا عبدالرشید دیلمی
از خورشید عالم گوہر قلم
شاہجہان آگرہ میں تخت نشین تھا اور دربار شاہی جاری تھا۔ وزراء امراء اور دیگر عمائدینِ سلطنت مودب بیٹھے تھے۔ اس شاہی ماحول میں ایک حاجب بادشاہ کے روبرو حاضر ہوا اور نہایت ادب سے سلام کرتے ہوئے عرض کیا:
ایک سائل ایران سے حاضر ہوا ہے اور اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ، وہ خود کو خطاط ایران میر عماد الحسنی کا بھانجا بتاتا ہے اور حاضری کا خواہش مند ہے۔
بادشاہ نے ایک نظر دربار پر ڈالی اور رعب شاہی سے حاجب پر نظر ڈالی اور کہا:
ہاں ابھی انہیں ہمارے ہاں عزت و احترام سے لے آو۔
بادشاہ کے چہرے پر اشتیاق جھلکنے لگا تھا۔ چناچہ جیسے ہی عبدالرشید دیلمی دربار میں داخل ہوئے تو بادشاہ نے انہیں خوش آمدید کہا اور اپنے پاس بٹھایا۔ یہ عزت افزائی غیر معمولی تھی۔ اہل دربار چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
بادشاہ نے درباریوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور فرمانے لگے
اے اہل دربار و عمائدین سلطنت یہ مہمان کوئی معمولی نہیں۔عالم اسلام میں نستعلیق کے امام حضرت میر عماد الحسنی کے بھانجے ہیں اور خود بھی نستعلیق کے امام ہیں۔
یہ سن کر دربار میں سناٹا چھاگیا۔
بادشاہ نے آنے کا سبب پوچھا تو عبدالرشید دیلمی نے پہلے سے تحریر کردہ ایک مختصر عرضداشت پیش کی جس میں پناہ کی درخواست تھی کیونکہ میر عماد الحسنی کو قتل کروانے کے بعد بھی ایران کے بادشاہ عباس شاہ بزرگ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہورہا تھا۔ اس لئے عبدالرشید دیلمی جان بچا کر شاہجہان کے بغرض امان آئے۔ بادشاہ نے اس عرضداشت کو پذیرائی بخشی اور تمام اہل دربار کو مخاطب کرکے کہا کہ "کیا ہی اچھا ہوتا کہ عباس بزرگ میر عماد الحسنی کو ہمارے حوالے کردیتا اور ہم اسے سونے میں تول کر ان کے وزن کے برابر سونا عباس بزرگ کو دے دیتے"
اسی دن سے "سونے میں تولنے" والی کہاوت مشہور ہوگئی جو دراصل شاہجہان کا جملہ ایک نامور خطاط کے بارے میں تھا۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل اسلام میں خطاطوں کی کتنی قدر و منزلت تھی جو بدقسمتی سے انگریز دور میں اور انگریزی نصاب کی بدولت برباد ہوئی۔
چناچہ شاہجہان نے عبدالرشید دیلمی کے ذمہ شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کا فریضہ عائد کیا تاکہ یہ فن فروغ پائے۔لیکن عبدالرشید دیلمی کی غریب پروری اور نیک فطرت کے باعث عام لوگوں نے بھی بھرپور استفادہ کیا۔آگرہ میں اور پھر لاہور میں خطاطوں کی جماعت شاہی قلعہ کا رخ کرتی تھی جہاں رعب شاہی کے باوجود جناب دیلمی سے بھرپور تربیت حاصل کرتے تھے۔
یوں تو مغلیہ خاندان کی کثیر تعداد ان سے فیض یاب ہوئی جن میں خود شاہجہان نے بھی ان سے تربیت حاصل کی ، مگر زیادہ مشہور ہونے والوں میں شہزادی زیب النساء ، اورنگ زیب عالمگیر ، بہادر شاہ ظفر ، داراشکوہ ، محمد اشرف ، سعیدائے اشرف عبدالرحمن اور میر حاجی بہت معروف ہیں۔ آقا عبد الرشید دیلمی کو برصغیر پاک و ہند میں خط نستعلیق کا محرک و مجتہد سمجھا جاتا ہے۔
وہ مشق بہت زیادہ کرتے تھےاور بڑھاپے میں متواتر مشق کرتے رہتے تھے۔ ان کا قول ہے کہ "جو بھی لکھو مشق سمجھ کر لکھو"
ان کے تحریر کردہ قطعات و فن پارے امراء اپنے گھروں میں لگانا باعث فخر سمجھتے تھے اور اس زمانے میں ایک ہزار اشرفی میں ایک فن پارہ بھی بمشکل ملتا تھا۔ افسوس کہ ان کے تحریر کردہ فن پارے بکثرت انگریزی دور میں برطانیہ پہنچا دیے گئے ۔اور تو اور لارڈ ماونٹ بیٹن کے دہلی میں درائنگ روم میں بھی ان کا تحریر کردہ فن پارہ آویزاں تھا جس کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔
انہیں آج تک تمام خوشنویس آقا عبدالرشید اور استاد عبدالرشید کہتے ہیں۔آقا کا خطاب انہیں مغلیہ دربار سے ملا تھا۔ شہزادی زیب النساء نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ:
"حسن و نزاکت ، پاکیزگی و لطافت آقا عبدالرشید دیلمی کے خط میں بکمال نظر آتے ہیں"
داراشکوہ نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
" آقا عبدالرشید دیلمی کے قلم میں جو پاکیزگی اور حسن ہے وہ قیامت تک اہل فن کے لئے روشنی کا مینار بنا رہے گا"
1671 ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کے مطابق وہ لاہور میں اور بعض کے مطابق وہ آگرہ میں دفن ہیں۔
ان کی وفات پر شہزادی زیب النساء نے خود بھی ان کے بارے میں نظم کہی تھی اور فرمائش کرکے سعیدائے اشرف سے بھی ان کی مدح میں ایک نظم لکھوائی تھی۔
پیارے بچو! آپ کو اب ان شخصیتوں کو فراموش کرنے کا حساب لینا ہے ۔ آپ جب بڑے ہو کر اپنی مسندوں پر ہوں گے تب یہ اہل فن آپ سے اپنا حق مانگتے نظر آئیں گے جو آپ کو دینا ہوگا۔
*ماہنامہ پھول جولائی 2008 سے لیا گیا
 
Top