پنجابی میں بھی "رن" عورت کو ہی کہتے ہیں اور شاید اس لیے ہی سرائیکی کو پنجابی کا ایسا لہجہ کہتے ہیں جو اب خود ایک مکمل زبان بن گیا ہے۔
ویسے ہر قسم کا "رن" پڑتا دیکھا ہے چھوٹے غالب کے دھاگوں پر حسب توفیق اور حسب منشا لوگ مستفید ہوتے رہے ہیں ۔
یہ کیا بات ہوئی۔ بھیا کی اتنی معلوماتی پوسٹ کو صرف اک جملے کی وجہ سے پرمزاح قرار دے دیا۔ حالانکہ وہ تو نمک تھا جملے میںویسے سمجھ تو مجھے نہیں آئی۔۔ دیکھا دیکھی میں نے پرمزاح کی ریٹنگ دے دی
اچھا اچھا۔۔ وہ تو میں نے غالب بھائی کی دیکھا دیکھی کر دیا تھا۔۔ ہی ہی ہی ہییہ کیا بات ہوئی۔ بھیا کی اتنی معلوماتی پوسٹ کو صرف اک جملے کی وجہ سے پرمزاح قرار دے دیا۔ حالانکہ وہ تو نمک تھا جملے میں
تو اسکی پٹائی جو میں کر رہا تھا وہ نہیں دیکھیاچھا اچھا۔۔ وہ تو میں نے غالب بھائی کی دیکھا دیکھی کر دیا تھا۔۔ ہی ہی ہی ہی
اسی کو دیکھ کر کھسک لی تھی ناںتو اسکی پٹائی جو میں کر رہا تھا وہ نہیں دیکھی
اگر یہ کھسکنا تھا تو جس بات میں دخل اندازی کرتی ہوگی اسکا تو اللہ ہی حافظاسی کو دیکھ کر کھسک لی تھی ناں
دیکھا دیکھی کام مت کیا کرو۔ وہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگائیں گے تو تم بھی دیکھا دیکھی کنوئیں میں چھلانگ لگا دو گی؟ویسے سمجھ تو مجھے نہیں آئی۔۔ دیکھا دیکھی میں نے پرمزاح کی ریٹنگ دے دی
ہم تو کوئی دخل اندازی نہیں کرتے بھیا۔اگر یہ کھسکنا تھا تو جس بات میں دخل اندازی کرتی ہوگی اسکا تو اللہ ہی حافظ
ہر بار تو نہیں کرتی ایسے کام بھیادیکھا دیکھی کام مت کیا کرو۔ وہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگائیں گے تو تم بھی دیکھا دیکھی کنوئیں میں چھلانگ لگا دو گی؟
ویسے تو ہم خود پنجابی ہیں مگر سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ نہیں مانتے۔ حضرت علی ہجویری (رح) نے کشف المحجوب میں لاہور کو "یکے از مضافات ملتان" سے منسوب کیا ہے۔ اکثر صوفیاء کی شاعری بھی سرائیکی میں ہی ہے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ علاقائی زبان یہی تھی۔ مزید یہ کہ سنتے ہیں موئنجوڈارو کے دور میں بھی سرائیکی مکمل زبان تھی۔ اور اسکے تو اپنے آگے سات کے قریب مزید لہجے ہیں۔ لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ سرائیکی پنجابی کی لہجہ ہے۔
اس بات پر مزید روشنی تو سیدہ شگفتہ آپی ڈال سکتی ہیں۔ میں تو ایویں شاپر ڈبل کر رہا تھا۔
لاہور کی تاریخ کم از کم دو ہزار سال سے پرانی ہے اور یہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہاں سرائیکی نہیں بولی جاتی تھی۔ زیادہ تر صوفیا کی شاعری تو پنجابی میں ہے کچھ کی سرائیکی میں بھی ہوگی مگر بڑے بڑے صوفیا کی شاعری جو عموما کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے وہ پنجابی میں ہی ملتی ہے۔
لاہور کے اردگرد کی پنجابی کو معیاری پنجابی یا ماجی لہجہ کہتے ہیں جو لاہور ، امرتسر اور اس کے ساتھ والے علاقوں میں رائج ہے۔
سرائیکی لہجہ مغربی اور جنوب میں بولا جاتا ہے جو سندھ ، بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔
تیسرا مشہور لہجہ شمالی پنجاب میں بولا جاتا ہے جس میں ہندکو ، پہاڑی اور پوٹھواری شامل ہیں۔
سرائیکی سمیت اب ہندکو اور پوٹھواری بھی مکمل زبان کا دعوی کرتے ہیں۔
ایک اور جغرافیائی تقسیم پنجابی کے لہجوں کی یہ بھی ہے۔
چڑھدے
لہندے
بہت خوب علوی بھائی۔ مگر میں لاہور کی بات نہیں کر رہا۔ ملتان اور اسکے گردونواح ہی کی طرف میرا اشارہ تھا۔ جہاں تک لاہور کا تعلق ہے تو وہ حوالہ اس لیئے دیا کہ حضرت نے اپنی کتاب میں اس نام سے لکھا ہے اسے۔ اس سے ظاہر یہ ہوا کہ لاہور تھا تو صحیح مگر اوراق میں اسے وہ حثیئت حاصل نہ تھی جو کہ اس وقت ملتان کو تھی۔
جہاں تک ملتان کی تاریخ کا تعلق ہے تو وہ تو غالباً اتنی پرانی ہے کہ باقاعدہ تاریخ لکھنے کا آغاز نہ ہوا تھا ان دنوں ورنہ کوئی مؤرخ تو بتاتا کہ یہ شہر ظلمات کب سے آباد ہے۔
وہی صوفیا کی شاعری تو اک سرائیکی بیلٹ میں جتنے صوفیاء کرام اور شعراء کرام ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس کے مقابل کوئی نصف کلام بھی پنجابی زبان میں صوفیاءکرام کا ہوگا۔ باقی واللہ اعلم۔ میرا ارادہ بحث کا نہ ہے۔ کیوں کہ اک تو موضوع سخن پر معلومات کم ہیں ۔ اور دوسرا اس بحث کو طول دینے کا کوئی فائدہ نہیں نظر آتا۔ اور تیسرا چھوٹا غالب میرے پر چڑھ دوڑے گا کہ چل کاکا لسانیات اور تاریخ پر بحث کا شوق تھا تو کیا آمد نامہ ہی ملا تھا تجھے۔