رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ ہسپتال میں مریض اپنے اپنے بستروں میں آرام سے سو رہے تھے۔ اسسٹنٹ ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھا۔ وہ اپنے خیمے میں لیمپ جلائے کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کہ یکایک کچھ فاصلے پر اس نے آہٹ سی سنی۔ فوراً وہ چوکنا ہو گیا۔ اس نے کان لگا کر آہٹ دوبارہ سننے کی کوشش کی، مگر پھر کوئی آواز نہ پا کر اطمینان سے کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو گیا۔ اسی اثنا میں ہسپتال کے دوسرے خیمے سے کسی مریض کے کراہنے کی آواز آئی۔ڈاکٹر نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور مریض کو دیکھنے کے ارادے سے اٹھا۔ دروازہ کھول کر جونہی وہ باہر نکلنا چاہتا تھا کہ اس کی نگاہ دس گز دور کھڑے ایک شیر پر پڑی۔ شیر کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں اور وہ چپ چاپ کھڑا ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔ ایک ثانیے تک انسان اور آدم خور ایک دوسرے کو تکتے رہے اور اس سے پہلے کہ ڈاکٹر دروازہ بند کر سکے۔ شیر نے جست لگائی اور ڈاکٹر کی طرف لپکا۔ ڈاکٹر گھبرا کر پیچھے ہٹا اور میز سے ٹکرا گیا۔ میز کے اوپر دواؤں سے بھرا ہوا بکس رکھا ہوا تھا۔ میز الٹ گئی اور بکس میں رکھی ہوئی شیشے کی بوتلیں اور شیشیاں ایک پُرشور آواز کے ساتھ فرش پر گر پڑیں۔ اس آواز نے شیر کو بد حواس کر دیا۔ اس نے گھبرا کر دوسری طرف چھلانگ لگائی اور ملحقہ خیمے کے اندر چلا گیا۔ یہاں آٹھ مریض تھے۔ شیر ان کے اوپر جا گرا۔ اس کے پنجوں سے دو مریض شدید زخمی ہوئے۔ تیسرے مریض کو شیر نے منہ میں دبایا اور باڑ کی طرف چھلانگ لگا دی اور خاردار جھاڑیوں کو چیرتا ہوا اپنا شکار لے کر صاف نکل گیا۔
دوسرے روز مجھے اس حادثے کی اطلاع ملی اور میں نے فوراً ہسپتال کو اس مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے تمام مریضوں کو نئے ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ میں نے مصلحتاً پرانے خیمے وہیں رہنے دیے، کیوں کہ مجھے امید تھی کہ رات کو کسی وقت شیر پھر اِدھر کا رخ کرے گا اور میں اسے رائفل کا نشانہ بنا لوں گا۔ چناچہ رات کو ڈاکٹر کے خیمے میں تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کے بعد دفعتاً میں نے شیر کے دھاڑنے اور بہت سے مزدوروں کے چیخنے اور کنستر پیٹنے کی آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں اس طرف سے آ رہی تھیں۔ جدھر ہسپتال نئی جگہ پر منتقل کیا گیا تھا۔
صبح پتہ چلا کہ ہسپتال کے بہشتی کو شیر اٹھا کر لے گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت آگ کا الاؤ روشن تھا اور کئی مزدور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ شیر نے چُپکے چُپکے خیمے کے چاروں طرف باڑ کا معائنہ کیا۔ ایک جگہ باڑ کچھ نیچی اور کمزور تھی۔ اس نے وہیں سے چھلانگ لگائی اور خیمے کے اندر آن کودا۔ باڑ کے قریب ہی ہسپتال کا بہشتی خرّاٹے لے رہا تھا۔ شیر جونہی خیمے میں داخل ہوا اس کی نظر بہشتی پر پڑی۔ شیر نے بہشتی کو منہ میں دبایا اور باہر جانے کا ارادہ کیا، لیکن دوسرے مزدوروں نے شور مچایا۔ شیر گھبرا کر مڑا۔ اسی اثنا میں بہشتی نے ہاتھ پیر مار کر شیر کے منہ سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا اور قریب ہی رکھے ہوئے لکڑی کے ایک بھاری صندوق کو پکڑ لیا تاکہ شیر اسے دوبارہ گھسیٹ نہ سکے، لیکن شیر نے فوراً اس کی ٹانگ منہ میں دبا لی اور زور سے جھٹکا دیا۔ بہشتی نے اب خیمے کا ایک رسّا پکڑ لیا۔ لیکن درندے کی بےپناہ قوّت کے سامنے یہ رسّا کیا وقعت رکھتا تھا۔ رسّا ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ بہشتی کے حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ ادھر شیر بھی غصّے میں گرج رہا تھا۔ دوسرے قلی اور مزدور دروازہ کھول کر فوراً باہر بھاگ گئے۔ شیر نے اس کے بعد اطمینان سے زخمی بہشتی کو منہ میں پکڑا اور چھلانگیں لگاتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔ شیر کی اس دلیری سے جو خوف و ہراس مزدوروں میں پھیلا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بعدِ ازاں میں نے بہشتی کے گوشت کے ریشے، نُچی ہوئی کھال کے ٹکڑے، بال اور کپڑوں کی دھجیاں خاردار باڑ میں اٹکی ہوئی پائیں۔ آدم خور بدنصیب بہشتی کو باڑ کے اندر سے گھسیٹ کر لے گیا تھا۔
خیمے سے چار سو گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کے پیچھے میں نے اور ڈاکٹر بروک نے بہشتی کی کھائی ہوئی لاش کے بچے کچھ اجزا دیکھے، کھوپڑی جبڑوں، ٹخنوں اور کولہے کی ہڈیاں اور دائیں ہتھیلی کا ایک حصّہ بھی جس میں دو انگلیاں باقی رہ گی تھیں۔ ان انگلیوں میں سے ایک میں چاندی کی انگوٹھی اٹکی ہوئی تھی اور اسی انگوٹھی سے ہم نے بہشتی کو شناخت کیا۔ دوبارہ ہسپتال یہاں سے ہٹا کر دوسری جگہ لے جایا گیا اور سارے مریض وہاں منتقل کر دیے گئے۔ اس کے چاروں طرف اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور اونچی باڑ لگائی گئی۔ پرانے ہسپتال کے قریب چند خالی خیمے چھوڑ دیے گئے جن میں سے ایک میں میں نے چند مویشی بندھوائے تاکہ شیر ان کی بُو پر آئے۔ اس کے بعد میں نے ایک خالی ویگن اِدھر منگوائی اور رات اس ویگن میں چھُپ کر شیر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی روز دوپہر کو معلوم ہوا کہ دونوں شیر نواحی علاقے میں مختلف مقامات پر گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ساؤ سے چار میل دور انہوں نے ایک قلی کو پکڑنے کی کوشش کی جو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا، لیکن قلی بہت پھرتیلا نکلا اور اس لئے اس کی جان بچ گئی۔ وہ دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور بہت دیر تک درخت پر بیٹھا رہا۔ شیروں نے شکار ہاتھ سے جاتا دیکھا تو ان کی جھلّاہٹ کی انتہا نہ رہی۔ وہ دوڑ دوڑ کر آتے اور جست لگا کر قلی کو پکڑنے کی کوشش کرتے، لیکن وہ ان کی پہنچ سے باہر تھا۔ آخر تھک ہار کر شیر وہاں سے چلے گئے۔ شیروں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ادھر سے ساؤ کے ٹریفک مینیجر کا گزر ہوا۔ وہ ریل میں بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کی نظر درخت پر بیٹھے ہوئے قلی پر پڑی۔ مینیجر نے گاڑی رکوائی اور قلی کو درخت سے اتار کر اپنے ساتھ لے گیا۔ ڈر کے مارے قلی کی گھگھی بندھی ہوئی تھی اور سارا جسم برف کی مانند سرد تھا۔ بہت دیر بعد اس کے حواس درست ہوئے۔
بعدِ ازاں ان آدم خوروں کو ساؤ اسٹیشن پر لوگوں نے دیکھا۔ وہاں سے یہ بھاگے تو جنگل میں مزدوروں نے انہیں دیکھا۔ ڈاکٹر بروک اس وقت ہسپتال سے واپس آ رہا تھا۔ شیروں میں سے ایک نے ریل کے ساتھ ساتھ اس کا کچھ فاصلے تک تعاقب کیا اور پھر لوٹ گئے۔ پروگرام کے مطابق میں اور ڈاکٹر بروک رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ویگن کی طرف روانہ ہوئے۔ جو ہماری رہائش گاہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ اگرچہ رات کے وقت ہمارا یوں نکلنا سراسر حماقت تھی۔ تاہم ویگن تک ہم خیریت سے پہنچ گئے۔ دس بجے رات تک ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ چاروں طرف بھیانک سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم نے ویگن کے دروازے کا نچلا حصّہ بند کر رکھا تھا۔ اوپر کا آدھا حصّہ باہر جھانکنے کے لیے کھُلا چھوڑ دیا تھا۔ دفعتاً ایک آواز گونجی، جیسے کسی درخت کی شاخ ٹوٹی ہو۔ ہم دم بخود، دھڑکتے دلوں کے ساتھ کان لگا کر آہٹ سننے لگے۔ اس کے بعد ہمارے دائیں ہاتھ پر ایسی آواز آئی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں چل رہا ہو۔ اس کے بعد یوں معلوم ہوا جیسے کوئی بھاری جسم زور سے زمین پر گرا ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے چند خالی خیموں کی بےڈھنگی سی قطاریں کھڑی تھیں۔ جن کے گرد خاردار باڑیں لگی رہنے دی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک خیمے کے اندر بندھے ہوئے مویشیوں میں ہلچل مچی۔ ان کے بولنے اور اِدھر اُدھر بھاگنے کی آوازیں ہمارے کانوں تک صاف پہنچ رہی تھیں۔ اس کے بعد دفعتاً پھر پہلا سا سکوت طاری ہو گیا۔ اس موقعے پر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ شیر یقیناً اِدھر آ گئے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ میں ویگن سے نیچے اتر کر ایک جانب لیٹ جاؤں تاکہ جونہی شیر نمودار ہو اسے آسانی سے گولی ماری جا سکے، لیکن ڈاکٹر بروک مصر تھا کہ یہیں ٹھہر کر شیر کا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے اور اچھا ہی ہوا کہ میں نے اس کی بات مان لی، ورنہ اس رات میں ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ چند ہی سیکنڈ بعد شیر دھاڑتا ہوا نمودار ہوا اور بجلی کی مانند تڑپ کر ویگن کی طرف آیا۔ بیک وقت ہماری رائفلوں سے شعلے نکلے اور فائروں کی دھماکہ خیز آوازوں سے جنگل تھرّا اٹھا۔ اندھیرے میں ہم بس اتنا دیکھ پائے کہ فائر ہوتے ہی شیر زور سے گرجا اور چھلانگیں لگاتا ہوا غائب ہو گیا۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ ان مہیب درندوں سے کس طرح خلقِ خدا کو نجات دلائی جائے۔ ان آدم خوروں کو مارنے کی ترکیبیں سوچتے سوچتے میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ کئی کئی ماہ راتوں کو مسلسل جاگتے جاگتے میری صحت جواب دے گئی، لیکن میں نے ہمّت نہ ہاری۔ آخر ایک روز ایک نہایت ہی عمدہ ترکیب ذہن میں آئی۔ میں نے ریل کے سلیپر اور آہنی گارڈر جمع کیے اور پھر ایک بڑا سا پنجرہ بنایا کہ شیروں کو زندہ گرفتار کیا جا سکے۔ پنجرے کے دو حصّے تھے سامنے کا حصّہ شیروں کے لیے اور عقبی حصّہ مویشیوں یا آدمیوں کے لیے، تاکہ شیر ان کی بُو پر پنجرے میں داخل ہو اور جونہی اس کا بھاری بھرکم جسم کا بوجھ ایک کمانی دار تختے پر پڑے، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ فوراً گرے اور شیر کے باہر نکلنے کی راہ بند ہو جائے۔اس کے بعد میں نے پنجرے سے ذرا فاصلے پر ایک خیمہ نصب کرایا اور اس کے چاروں طرف کانٹوں کی مضبوط باڑ لگوائی اور ہر طرح کیل کانٹے سے لیس ہو کر رات کو اس خیمے میں بیٹھ گیا۔ آپ یقین جانیے کہ میں نے تین راتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دیں اور شیر نہ آیا۔ میں مصمّم ارادہ کر چکا تھا کہ خواہ ساری زندگی اس خیمے میں بسر کرنی پڑے۔ میں یہاں سے شیر کو مارے بغیر نہ ٹلوں گا۔ چوتھی رات حسب معمول کافی کے کئی گرم گرم پیالے پی کر شیر کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ نہ معلوم کب میری آنکھ لگ گئی اور اس اثنا میں وہ موذی شیر وہاں آ پہنچا۔ میرے اندازے کے مطابق پہلے تو وہ پنجرے کو ایک نئی چیز سمجھ کر اس کا معائنہ کرتا رہا۔ شیر کو قریب پا کر پنجرے کے دوسرے حصّے کے مویشیوں میں ہلچل مچی اور وہ بدحواس ہو کر چلّانے لگے۔ پھر شیر کی نگاہ میرے خیمے پر پڑی اور وہ فوراً باڑ کے اندر گھُس آیا۔ میں شاید اس وقت اطمینان سے خرّاٹے لے رہا تھا، لیکن شیر کی گرج سن کر میری آنکھ کھُل گئی، مگر اب بچنے کا موقع کہاں تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ شیر خیمے کی رسّیوں میں الجھ گیا۔ اس نے طیش میں آ کر دو تین جھٹکے دیے تو پورا خیمہ دھڑام سے ہم دونوں کے اوپر آن پڑا۔ میرے ہوش و حواس تو پہلے ہی گُم ہو چکے تھے۔ رائفل تک اُٹھانا بھول گیا اور اسی گرے ہوئے خیمے میں لپٹ گیا۔ شیر نے جھلّا کر خیمہ نوچنا شروع کر دیا۔ میں اس بھیانک موت کے تصوّر سے لرز رہا تھا کہ ابھی چند سیکنڈ بعد شیر مزے لے لے کر میری ہڈیاں چبا رہا ہوگا۔ اپنے بچاؤ کی کوئی ترکیب ذہن میں نہیں آتی تھی۔ میں خیمے کے اندر لپٹے ہوئے بستر کی مانند چھُپا ہوا تھا۔ شیر نے مجبور ہو کر اس بستر کو منہ میں پکڑا اور باڑ میں سے گھسیٹ کر باہر لے آیا اور اس کی یہی حرکت مجھے دوبارہ زندگی بخش دینے کا باعث بنی، ورنہ کانٹوں کی باڑ ایسے نازک وقت میں عبور کرنا میرے لیے ناممکن سی بات تھی۔
حسنِ اتفاق سے چھولداری اس کے منہ سے چھُوٹ گئی اور وہ اپنے ہی زور میں دس پندرہ گز کے فاصلے پر جا گرا۔ میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اُٹھا اور دوڑ کر پنجرے کے اندر چلا گیا۔ کمانی دار تختے پر جونہی میرا بوجھ پڑا، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ گرا اور میرے اور شیر کے بیچ حائل ہو گیا۔ آدم خور اب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا، لیکن شکار کو یوں پنجے سے نکلتا دیکھ کر اس کے غیض و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ اچھل اچھل کر پنجرے کو الٹ دینے کی کوشش کرتا اور پنجرے کے اندر ہاتھ ڈال کر مجھے پکڑنا چاہتا تھا، لیکن میں اب ادھ موؤں کی طرح ایک گوشے میں پڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ صبح کاذب تک اس نے مجھے بار بار پکڑنے کی کوشش کی، آخر تھک ہار کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا تھا کہ کاش میرے پاس رائفل ہوتی تو میں اس شیر کو یہیں بھون کر رکھ دیتا۔ اس حادثے کے بعد بھی میں نے کئی راتیں وہاں اس امید پر گزاریں کہ شاید آدم خور پھر اِدھر آئے، لیکن وہ بہت زیادہ چالاک ثابت ہوا اور وہ دوبارہ نہ آیا۔
آہستہ آہستہ ان آدم خوروں نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی ریل ہیڈ کیمپ پر حملہ کرتے، جو دس بارہ میل دور تھا اور کبھی ساؤ اسٹیشن اور ساؤ کیمپ پر چڑھ آتے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ چاندنی راتوں میں وہ بہت کم انسانی شکار کرتے تھے۔ البتہ اندھیری راتوں میں وہ دو تین انسانوں کو ضرور ہڑپ کر جاتے۔
ان کے شکار کا طریقہ یہ تھا کہ ہمیشہ دونوں ساتھ ساتھ آتے۔ ایک آدم خور کیمپ کی باڑ کے باہر کھڑا ہو جاتا اور دوسرا جست لگا کر کیمپ میں آن دھمکتا۔ اس کے آتے ہی مزدوروں اور قلیوں میں حشر برپا ہو جاتا۔ سبھی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور ان کے سامنے آدم خور کسی موٹے تازے قلی کو پکڑ لیتا اور باڑ توڑ کر آسانی سے باہر نکل جاتا۔ جہاں اس کا ساتھی منتظر ہوتا۔ پھر وہ زیادہ دور جانے کی زحمت بھی گوارہ نہ کرتے اور وہیں بیٹھ کر شکار کو کھانا شروع کر دیتے۔ پانچ چھے فٹ موٹی خاردار باڑ کو یہ آدم خور یوں توڑ کر نکل جاتے تھے جیسے وہ تاش کے پتّوں سے بنی ہوئی دیوار ہو۔
آدم خوروں کی خبریں ساؤ سے نکل کر افریقہ کے دوسرے بڑے شہروں اور یورپ تک پہنچ چکی تھیں۔ کئی یورپین شکاری ان آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے آئے، لیکن سب کے سب ناکام رہے، بلکہ یوں کہیے کہ شیر کو مارنا تو درکنار اپنی جانیں بڑی مشکل سے بچائیں۔ اب یہ عالم تھا کہ جونہی سورج غروب ہوتا، کیمپوں میں ہو کا عالم طاری ہو جاتا۔ مزدور اور قلی اپنے خیموں کے بجائے درختوں پر چارپائیاں باندھ کر سونے لگے اور جب درختوں میں جگہ نہ رہی تو انہوں نے زمین میں گہرے گڑھے کھودے، ان کے اندر چارپائیاں ڈالیں اور بعدِ ازاں لکڑی کے موٹے موٹے اور بھاری تختوں سے ان گڑھوں کو ڈھانپ دیا۔ یہ گڑھے ان کے لیے بہت محفوظ ثابت ہوئے، کیونکہ شیر ان کے اندر داخل ہونے پر قادر نہ تھے۔ تاہم یہ موذی روزانہ کہیں نہ کہیں سے اپنی خوراک حاصل کر لیتے تھے۔ سرِ شام ہی جنگل ان کی گھن گرج سے ہلنے لگتا۔ گویا یہ اس بات کا اعلان ہوتا کہ شیر آدمی کے خون اور گوشت کی تلاش میں نکلنے والا ہے۔ ان آوازوں کو سن کر ہر شخص کا کلیجہ بیٹھنے لگتا اور موت کے سائے اُسے اپنے چاروں طرف پھلتے ہوئے محسوس ہوتے۔ رات بھر کیمپوں میں پہرےدار نعرے لگاتے رہتے۔
"بھائیو! خبردار رہو۔۔۔۔۔ شیطان آتا ہے۔۔۔۔۔ بھائیو! خبردار رہو۔۔۔۔۔"
لیکن یہ نعرے بازی شیروں کے لئے قطعاً بےکار تھی۔ وہ سنسناتی ہوئی گولیوں، آگ کے الاؤ، خاردار باڑوں اور سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی سے بھی خوف نہ کھاتے۔ کیمپوں میں آن کُودتے اور ایک دو "بھائیوں" کو منہ میں دبا کر بھاگ جاتے۔ ایک رات جب کہ میں اپنے کیمپ میں موجود تھا، ان آدم خوروں نے ریلوے اسٹیشن کے کسی آدمی کو پکڑا اور میرے خیمے کے قریب ہی اُسے کھانے لگے۔ ہڈیاں چبانے اور گوشت بھنبھوڑنے کی آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں، لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ باہر اتنا اندھیرا تھا کہ دس گز کے فاصلے کی چیز بھی نظر نہ آتی تھی اور اس عالم میں شیروں کو للکارنا خود موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ میرے علاوہ چند دوسرے لوگوں نے بھی یہ آوازیں سنیں اور انہوں نے مجھ سے میرے ہی خیمے میں آ جانے کی اجازت مانگی۔ وہ سب کے سب میرے خیمے میں آ گئے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنے پیچھے ایک بیمار قلی کو تنہا چھوڑ آئے ہیں۔ میں نے اس فعل پر انہیں لعنت ملامت کی اور خود چند آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں گیا تاکہ اسے بھی لے آوں، لیکن افسوس میں نے وہاں اس کی لاش پائی، اس کے دل کی حرکت شیروں کے خوف اور تنہائی سے بند ہوگئی تھی۔
مزدوروں کے تیور تو ان شیروں کی ابتدائی سرگرمیوں کے باعث پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے، لیکن جب یہ معاملہ حد سے گزر گیا اور ساٹھ ستّر آدمی اسی طرح ہلاک ہو گئے تو ان کا ایک وفد میرے پاس آیا اور کہا، "ہم ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں آئے ہیں۔ ہمیں شیروں کا لقمہ بننا منظور نہیں۔ اس لیے اب ہم یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ ہمیں اس روپے کا کیا فائدہ جو جان ضائع کرنے پر حاصل ہو۔"
میں نے ان لوگوں کو دلاسہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ لوگ کسی طرح نہ مانے اور سو سو اور دو دو سو کے قافلوں کی صورت میں ساؤ سے بذریعہ ریل ممباسہ جانے لگے۔ ایک مرتبہ جب ریلوے نے انہیں لے جانے سے انکار کر دیا تو وہ سب پٹری پر لیٹ گئے اور ریل روک کر زبردستی اس میں چڑھ گئے۔ ان حالات میں بھلا ریلوے لائن اور پلوں کی تعمیر کا کام کیسے جاری رہ سکتا تھا۔ تین مہینے تک کام بالکل رکا رہا۔ اس اثنا میں میں نے منّت سماجت کر کے بقیہ مزدوروں کو اس شرط پر روک لیا کہ ان کے لیے ٹن کی چادروں سے چھوٹے چھوٹے کوارٹر بنا دیے جائیں گے۔ تاکہ شیر ان میں داخل نہ ہو سکیں۔ ٹن کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹب نما کوارٹر پانی کی بلند ٹنکیوں پر بنائے گئے تھے اور ہر کوارٹر میں چار مزدور سوتے تھے۔ اس کے علاوہ اونچے اور مضبوط درختوں پر بھی مزدور اپنی چارپائیاں باندھ کر سوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک درخت پر بہت ساری چارپائیاں باندھی گئی تھیں اور رات جب آدم خور ان درختوں کے اردگرد پھر رہے تھے کہ زور سے ہوا چلی اور کئی چارپائیاں شاخوں سمیت ٹوٹ کر نیچے گر پڑیں۔ اس وقت جو ہنگامہ ہوا اور مزدور جس طرح حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّائے، وہ آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ بھوکے شیروں نے فوراً دو قلیوں کو پکڑ لیا اور کیمپ سے باہر بھاگے۔ اس کے بعد جمعدار نے بندوق سے ان کی طرف کئی فائر کیے، لیکن آدم خور اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہلے جب تک انہوں نے قلیوں کے خون اور گوشت سے اپنا پیٹ نہ بھر لیا۔
مزدوروں کے کام کاج چھوڑنے سے ایک ہفتہ پہلے میں نے ڈسٹرک آفیسر مسٹر وائٹ ہیڈ کو خط لکھا تھا کہ اگر ممکن ہو تو وہ آئیں اور ان موذی شیروں کو مارنے میں میری مدد کریں اور اگر وہ اپنے ساتھ مقامی پولیس کے چند جوان بھی لا سکیں تو بہت ہی اچھی بات ہوگی۔ مسٹر وائٹ کا جواب توقع کے خلاف جلد موصول ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ دوسری تاریخ کو شام کے چھے بجے ساؤ کے اسٹیشن پر پہنچ رہے ہیں۔
میں نے مسٹر وائٹ کی آمد کے روز شام کے وقت اپنے ایک ملازم لڑکے کو اسٹیشن کی طرف روانہ کیا تاکہ مسٹر وائٹ کے ساتھ جو سامان زائد ہو، وہ لڑکا اٹھا لائے۔ کوئی پون گھنٹے بعد یہ حبشی لڑکا حواس باختہ اور پسینے میں تر بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ اس کا جسم سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ لڑکا کہنے لگا، "صاحب! اسٹیشن تو سنسان پڑا ہے۔ نہ وہاں کوئی گاڑی ہے اور نہ کوئی آدمی۔ ایک بہت بڑا شیر اسٹیشن کے اندر گھوم رہا ہے۔"
لڑکے کی کہانی پر مجھے یقین نہ آیاکہ اس بےوقوف نے راستے میں کوئی اور جانور دیکھ لیا اور ڈر کر واپس بھاگ آیا۔ چلو خیر مسٹر وائٹ خود ہی آ جائیں گے۔ وہ مانے ہوئے شکاری اور دلیر آدمی ہیں۔ میں نے اطمینان سے کھانا کھایا۔ جب میں کھانا کھا رہا تھا، اس وقت سٹیشن کی جانب سے گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی اس لیے کہ شیروں کو ڈرانے کے لیے اسٹیشن کے لوگ گولیاں چلایا ہی کرتے تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اپنی رائفل سنبھالی اور ایک بلند مچان پر جا بیٹھا۔
سورج غروب ہونے میں اگرچہ دس منٹ باقی تھے، لیکن جنگل کے اندر شام کا اندھرا تیزی سے پھیل رہا تھا اور ہر شے ڈراؤنی معلوم دے رہی تھی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ جنگل کی بھیانک خاموشی تھی۔ یکایک تھوڑے فاصلے پر اونچی اونچی گھاس کے پیچھے میں نے ہڈیاں چبانے کی آواز سنائیں۔ میرے کان ان آوازوں سے خوب مانوس تھے۔ میں سمجھ گیا کہ شیر اپنا شکار کھا رہا ہے، لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ شیر نے یہ شکار اتنے چُپکے سے کس طرح حاصل کر لیا، کیوں کہ اس مرتبہ نہ تو شیر کے گرجنے اور دھاڑنے کی آواز سنی گئی تھی اور نہ آدمیوں کے چیخنے چلّانے کا کوئی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ شیر نے کسی مقامی باشندے کو جنگل میں سے پکڑ لیا ہو۔ چند منٹ میں کان لگائے ہڈیاں چبانے، گوشت بھنبھوڑنے اور چر چر کی آوازیں سنتا رہا۔ پھر میں نے اس آواز پر ہی اپنی رائفل کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ اس کے جواب میں شیر کی ایک زبردست گرج سنائی دی۔ پھر وہ اسی طرح دھاڑتا ہوا بہت دور چلا گیا۔ میں وہیں مچان پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے کب خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹنے لگا۔
میری آنکھ منہ اندھیرے کھلی اور فوراً مجھے اس شیر کا خیال آیا جو رات نہ معلوم کہاں سے شکار لایا اور جس پر میں نے اندازے سے گولی چلائی تھی۔ مچان سے اتر کر میں اپنے تجسّس کی تسکین کے لیے اس مقام پر گیا جہاں شیر ہڈیاں چبا رہا تھا۔ ابھی میں بمشکل ایک فرلانگ دور ہی گیا تھا کہ درختوں کے درمیان میں سے ایک پریشان صورت اور نہایت خستہ حال، جیسے برسوں کا مریض ہو، ایک یورپین آدمی کو دیکھا جو آہستہ آہستہ میری طرف چلا آ رہا تھا۔ جب وہ قریب آیا تو یہ دیکھ کر پیروں تلے زمین نکل گئی کہ وہ تو مسٹر وائٹ ہیں۔ انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا اور ہم دونوں رک کر ایک دوسرے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ آخرکار میں نے اس طلسمِ حیرت کو توڑا، "خدا کی پناہ! مسٹر وہائٹ! آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور رات کہاں غائب رہے؟"
"کرنل صاحب! آپ نے میرے استقبال کا انتظام خوب کیا۔ وہ تو یوں کہیے کہ زندگی کے چند روز باقی تھے۔ ورنہ اس ظالم نے کسر نہ چھوڑی۔" مسٹر وائٹ نے مُسکرا کر کہا۔
"مسٹر وائٹ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟" میں نے تعجّب سے کہا۔
مجھے اب ان کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا۔
"ارے صاحب! کہنا کیا ہے۔ آپ کے آدم خور دوست نے ہم سے کہا کہ آج رات یہیں رک جاؤ۔ صبح تک اگر ہم نے تمہیں نہیں کھایا تو پھر تم کرنل کے پاس چلے جانا۔"
یہ کہہ کر مسٹر وائٹ مڑے اور اپنی پشت میری نظروں کے سامنے کردی۔
"لیجیے میری بات کی صداقت پر اب آپ کو کوئی شک نہ گزرے گا۔"
دہشت سے میرا رُواں رُواں کھڑا ہو گیا۔ مسٹر وائٹ کی پشت گردن سے لے کر آخری حصّے تک لہو لہان تھی۔ شیر کے پنجوں کے چار گہرے نشانات تھے، جن میں سے خون رِس رِس کر جم گیا تھا۔ میں مسٹر وائٹ کو وہاں سے اپنے خیمے میں لے گیا۔ گرم پانی سے ان کے زخم صاف کیے اور دوائیں لگا کر پٹّی باندھی، کپڑے مہیّا کیے اور کھانا کھلا کر انہیں سُلا دیا، کیوں کہ بےچارے ایک تو زخمی اور دوسرے رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فوراً ہی انہیں نیند آ گئی۔
تیسرے پہر ان کی آنکھ کھُلی اور انہوں نے اپنی رام کہانی یوں بیان کی:
"کرنل صاحب! قصّہ یوں ہوا کہ ہماری گاڑی اتفاق سے ساؤ اسٹیشن پر بہت تاخیر سے پہنچی۔ پروگرام کے مطابق مجھے شام کے چھے بجے آپ کے پاس پہنچ جانا چاہیے تھا، لیکن گاڑی رات کے نو، سوا نو بجے پہنچی۔ میرے ساتھ میرا حبشی ملازم عبداللہ بھی تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں رائفل تھی۔ اسٹیشن سے نکل کر ہم پیدل ہی چل پڑے۔ ابھی ہم نے بمشکل آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ یکایک ہمارے عقب سے ایک شیر آیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔ اس نے اپنا پنجہ میری پشت پر مارا، وہ تو یوں کہو میں ذرا آگے جھُک گیا تھا۔ ورنہ وہ موذی تو میری کمر نوچ کر لے جاتا۔ عبداللہ نے فوراً لالٹین رکھ کر رائفل سے شیر پر کئی فائر کیے، لیکن وہ اِدھر اُدھر اچھل کر وار خالی کرتا رہا۔ کوئی گولی اسے نہ لگی۔ البتہ فائروں سے ڈر کر وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ میں نے جھپٹ کر عبداللہ کے ہاتھ سے رائفل چھینی اور شیر پر فائر کرنا ہی چاہتا تھا کہ وہ ظالم بجلی کی مانند آیا اور عبداللہ کو اٹھا کر لے گیا۔ عبداللہ کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اس کے آخری الفاظ یہ تھے۔
"آقا۔۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔۔"
تھوڑے فاصلے پر شیر رکا اور عبداللہ کو چھیر پھاڑ کر وہیں کھانے میں مشغول ہو گیا۔ میں اگرچہ خود زخمی تھا لیکن میں نے اندازاً اس سمت میں کئی فائر کیے، لیکن شیر نے ذرا پروا نہ کی اور مسلسل ہڈیاں چباتا رہا۔ میں مجبوراً ایک درخت پر چڑھ گیا اور ساری رات وہیں بیٹھا رہا اور صبح اتر کر آپ ہی کے پاس آ رہا تھا کہ آپ مجھے مل گئے۔"
مسٹر وائٹ کی کہانی نہایت دردناک تھی۔ اُنہیں اپنے وفادار حبشی ملازم عبداللہ کے یوں مارے جانے کا بڑا صدمہ تھا۔ اس کی دو بیویاں اور دو بچے تھے، یہ خبر سن کر ان بدنصیبوں پر کیا قیامت نہ گزرے گی۔
مسٹر وائٹ کی اس کہانی سے یہ معمّہ بھی حل ہو گیا کہ رات کو میں نے مچان پر بیٹھے بیٹھے جو آواز سنی تھی، وہی آواز تھی جب شیر عبداللہ کو ہڑپ کر رہا تھا۔ چند روز میں مسٹر وائٹ کے زخم بھر آئے اور جلد اُن کی کھوئی ہوئی قوّت بحال ہو گئی۔ انہی دنوں ممباسہ سے سپرڈینٹ مسٹر لی کوہر بھی اپنے سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر ان آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ساؤ پہنچ گئے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے جوش و خروش سے کام شروع کر دیا۔ جگہ جگہ سپاہیوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ میں نے شیر پکڑنے کا جو آہنی پنجرہ بنایا تھا۔ اس کا معائنہ کیا گیا اور طے ہوا کہ شیر ہلاک کرنے کی یہی تدبیر ہے کہ اس کو پنجرے میں پھنسا لیا جائے۔ شام ہوتے ہی ہم سب اپنی اپنی مچانوں پر بیٹھ گئے۔ پنجرے کے عقبی حصّے میں اس مرتبہ مویشیوں کے بجائے دو سپاہیوں کو رائفلوں، کارتوس کے ایک ڈبے اور لالٹین کے ساتھ بند کیا گیا اور مسٹر لی کوہر نے ان سپاہیوں کو سختی سے حکم دیا کہ شیر جونہی پنجرے میں قید ہو جائے وہ اس پر گولیوں کی بارش کر دیں۔
اب سب لوگ اپنی اپنی مچانوں میں چھُپے ہوئے نہایت بےصبری سے آدم خوروں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک ایک منٹ صدیوں میں تبدیل ہو گیا تھا۔ شاید وقت ٹھہر گیا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم ایک دوسرےک سے بات چیت بھی نہ کر سکتے تھے کہ شاید شیر خبردار ہو جائے اور اِدھر کا رُخ ہی نہ کرے۔ مسٹر وائٹ کو میں نے اپنے ہی ساتھ بٹھایا تھا۔ رات کے گیارہ بجے ہوں گے کہ دور جنگل میں شیر کے گرجنے اور دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ ہمارے دل دھک دھک کرنے لگے۔ خونخوار درندہ آج شکار جلد نہ ملنے پر کسی قدر مشتعل معلوم ہوتا تھا۔ چند منٹ تک وہ دھاڑتا رہا، پھر خاموش ہو گیا۔ ہم گُپ اندھرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شیر کا سراغ پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی حیص بیص میں دو گھنٹے اور گزر گئے۔ شیر کی آواز دوبارہ سنائی نہ دی۔ جنگل پر موت کا سکوت طاری تھا۔
دفعتاً ایک پُرشور آواز کے ساتھ پنجرے کا آہنی دروازہ گرا اور ہم سب اپنی اپنی جگہ اچھل پڑے۔ اس کے ساتھ ہی شیر کے گرجنے اور پنجرے کے ہلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ فوراً ہی مچانوں پر لالٹینیں روشن ہوئیں اور ان کی مدھم روشنی میں ہم نے دیکھا کہ آدم خور پنجرے کے اندر پھنس چکا ہے۔ وہ سلاخوں کے اندر غیض و غضب سے اچھل رہا تھا اور اتنی قوّت سے دھاڑ رہا تھا کہ دل دہل جاتا تھا، لیکن تعجّب اس امر پر تھا کہ دوسرے حصّے میں موجود سپاہی کیوں اس پر فائر نہیں کرتے۔ کئی منٹ اسی طرح گزر گئے اور فائر کی کوئی آواز نہ آئی۔ مسٹر لی کوہر حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّائے اور سپاہیوں کو فائر کا حکم دیا۔ آفیسر کی آواز سنی تو بےچارے سپاہیوں کی جان میں جان آئی۔ آدم خور کو اپنے اس قدر قریب پا کر ان پر اس قدر دہشت طاری ہو گئی تھی کہ رائفلیں ان کے ہاتھوں میں کانپ رہی تھیں۔ اب جو انہوں نے فائر شروع کے تو بالکل اندھا دھند۔ شیر کو تو کوئی گولی نہ لگی، البتہ ہمارے دائیں بائیں گولیاں شائیں شائیں کرتی ہوئی نکلتیں اور درختوں کی شاخوں میں پیوست ہو جاتیں۔ شیر نے اس دوران پنجرے کو ہلا ڈالا، پھر پوری قوّت لگا کر اس نے لوہے کی سلاخیں لچکا ڈالیں اور ان کے درمیان میں سے صاف نکل گیا اور یہ سارا کھیل ان بےوقوف اور بزدل سپاہیوں کی باعث کِرکِرا ہو گیا۔ یہ احمق اگر ذرا ہوش سے کام لیتے تو شیر کے جسم سے رائفلوں کی نال لگا کر تین چار فائروں میں ہی اسے ڈھیر کر سکتے تھے۔ اس ناکامی کا مسٹر لی کوہر اور مسٹر وائٹ پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ دوسرے روز ہی اپنے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور ایک بار پھر میں تنہا رہ گیا۔
مسٹر وائٹ اور مسٹر لی کوہر کے واپس جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کا ذکر ہے کہ میں کسی کام سے باہر نکلا تو کیا دیکھا ایک حبشی باشندہ سر پر پاؤں رکھے بےتحاشا میری جانب دوڑتا چلا آتا تھا اور حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنی زبان میں کچھ کہتا بھی جاتا تھا۔ معلوم ہوا کہ دریا کے نزدیک ایک مقام پر شیر نے اس پر حملہ کیا۔ یہ گدھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ کسی نہ کسی طرح یہ خود تو بچ کر آ گیا، مگر شیر نے گدھے کو وہیں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ خبر دلچسپ تھی۔ میں فوراً اپنی رائفل کندھے سے ٹکا کر اس کے ساتھ اُدھر چل دیا۔ شیر وہاں موجود تھا اور غالباً نہایت بھوکا ہونے کی باعث گدھے کے بدمزہ گوشت ہی پر قناعت کر رہا تھا، میں نہایت احتیاط سے پھُونک پھُونک کر قدم آگے بڑھا رہا تھا، لیکن میرے رہنما حبشی نے اپنی حماقت سے ایک جگہ سوکھی شاخوں پر پیر رکھ دیا۔ آہٹ ہوئی تو شیر چونکنا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے اپنے قریب خطرے کی بُو سونگھ لی تھی۔ وہ غرّاتا ہوا جنگل میں گھُس گیا۔ میں واپس آیا۔ کیمپ سے چار پانچ سو قلی جمع کیے۔ جمعداروں سے کہا کہ خالی کنستر، ڈھول، باجے، ٹن غرض یہ کہ جو شے بھی مل سکے لے آؤ۔ جب یہ سامان مہیّا ہو گیا تو میں نے ان سب کو ہدایت کی کہ کنستر اور ڈھول پیٹتے ہوئے اور خوب شور مچاتے ہوئے ایک نصف دائرے کی شکل میں آہستہ آہستہ جنگل کی طرف چلو اور میں خود اسی جگہ جا کر چھُپ گیا، جہاں شیر نے گدھے کو ہلاک کیا تھا۔ قلیوں کے ہنگامے سے جنگل میں ایک قیامت برپا ہو گئی۔ چند منٹ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ آدم خور مضطرب ہو کر جنگل سے نکلا۔ وہ تعجّب اور خوف سے اِدھر اُدھر دیکھتا۔ غالباً اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا شور و غُل اور ہنگامہ نہ سنا تھا۔ وہ چند قدم چلتا اور پھر رُک کر اپنے اردگرد دیکھنے لگتا۔ آخر وہ مجھ سے اتنا قریب آ گیا کہ میں اس کی کھال میں چبھے ہوئے کانٹے بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ آدم خور نے مجھے نہیں دیکھا۔ اس کی پوری توجّہ اس ہنگامے پر مرکوز تھی۔ میں نے رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ آدم خور کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ وہ فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور دھاڑتا ہوا میری جانب آیا۔ میں نے فوراً دو فائر اور کیے اور دونوں گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ وہ وہیں قلابازی کھا کر ڈھیر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو میری موت یقینی تھی۔ شیر کے ہلاک ہوتے ہی قلیوں اور مزدوروں میں مسرّت کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی۔ پہلے تو وہ شیر کے گِرد رقص کرتے رہے، پھر انہوں نے مجھے کندھے پر اٹھا لیا اور پورا جنگل "شاباش" اور "زندہ باد" کے نعروں سے گونجنے لگا اور اس طرح ساؤ کا پہلا آدم خور جس کی لمبائی ٩ فٹ ١ انچ تھی اور جس نے ڈیڑھ سو افراد کو اپنا لقمہ بنایا تھا، کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔ آدم خور کے مارے جانے کی خبر بہت جلد سارے ملک میں پھیل گی۔ دوستوں اور دوسرے شکاریوں کی طرف سے مبارکباد کے پیغاموں اور تاروں کا تانتا بندھ گیا، لیکن سچ پوچھیے تو مجھے اتنی خوشی نہ تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس کا ساتھی دوسرا آدم خور ابھی تک زندہ سلامت ہے اور جب تک اس کا بھی قصّہ پاک نہیں کیا جاتا، آرام سے بیٹھنا ممکن نہ ہوگا۔
پہلے آدم خور کی لاش کئی دن تک کیمپ میں رکھی گئی۔ ہزارہا لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے تھے۔ مرنے کے بعد بھی لوگوں پر اس کا دبدبہ اور دہشت قائم تھی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اسے "بدروح" سمجھ کر قریب آنے سے خوف کھاتے اور دور دور ہی کھڑے دیکھتے رہتے اور بلاشبہ وہ شیر تھا بھی بڑا خوفناک۔ ظالم کا قد ساڑھے تین فٹ سے بھی کہیں اونچا تھا اور وزنی اتنا تھا کہ جنگل سے پورے آٹھ آدمی اسے دو بانسوں پر لاد کر لائے تھے۔ ایک ڈیڑھ ہفتے تک ساؤ کے کیمپ میں بالکل امن و امان رہا، مزدور اور قلی بھی اطمینان سے اپنا کام کرنے لگے اور کسی آدمی کے غائب ہونے کی کوئی واردات ان دنوں پیش نہ آئی۔ مجھے بھی خیال ہوا شاید دوسرا آدم خور اپنے ساتھی کا برا حشر دیکھ کر کسی اور طرف بھاگ گیا ہوگا، لیکن چند ہی روز بعد پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے مجھے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔
ایک رات آدم خور ایک انسپکٹر کے بنگلے کے برآمدے میں گھُس آیا۔ بنگلہ زمین سے کئی فٹ اونچا بنا ہوا تھا اور برآمدے تک پہنچنے کے لیے سات آٹھ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں اور اس کے چاروں طرف لوہے کا خاردار تار بھی لگا ہوا تھا، لیکن شیر ایک ہی جست لگا کر اس تار کو عبور کر کے سیڑھیوں کے راستے برآمدے میں آ گیا۔ رات کا سنّاٹا ہر سُو پھیلا ہوا تھا۔ شیر نے انسانی شکار کو تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر سونگھا۔ گڑبڑ ہوئی تو انسپکٹر کی آنکھ کھُل گئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شیر برآمدے میں پھر رہا ہے۔ وہ سمجھا کہ کوئی شرابی قلی نشے میں بہک کر برآمدے میں سونے کے لیے آ گیا ہے۔ وہ وہیں سے چلّایا، "برآمدے میں کون ہے؟ دفع ہوجاؤ یہاں سے بدمعاش۔ ورنہ تمہاری اچھی طرح مرمّت کروں گا۔"
انسپکٹر فطری طور پر کچھ آرام طلب اور کاہل آدمی تھا اور اسی عادت نے اس رات اس کی جان بچائی۔ آرام دہ بستر سے اٹھنا اور کمرے کا دروازہ کھول کر برآمدے میں آنا اس کے لیے بڑا مشکل تھا۔ پس وہ وہیں سے "شرابی قلی" کو گالیاں بکتا رہا۔ وہیں برآمدے میں انسپکٹر صاحب کی چند بکریاں بھی بندھی ہوئی تھیں۔ شیر نے پہلے ان کی طرف رُخ نہ کیا، لیکن جب اسے کھانے کے لیے آدمی کا گوشت نہ ملا تو اس نے دو بکریاں اٹھائیں اور جنگل میں چلا گیا۔
دوسرے روز مجھے انسپکٹر کی زبانی اس حادثے کا علم ہوا۔ وہ غریب صبح جب اٹھا تو برآمدے میں بکریوں کا خون پھیلا ہوا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات برآمدے میں اور برآمدے سے باہر باڑ کے نزدیک آئے تو وہ دہشت زدہ ہو کر بغیر ناشتہ کیے میرے پاس آیا۔ پورا قصّہ سنا کر کہنے لگا، "کرنل صاحب! میرے باپ کی توبہ ہے جو میں اس بنگلے میں ایک رات بھی رہوں۔ مجھے تو آپ اپنے ساتھ ہی رکھیے۔"
میں نے انسپکٹر کو دلاسہ دے کر اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ کیا اور خود اسی شام کو سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی انسپکٹر کے بنگلے کے نزدیک ایک خالی ڈبے میں بیٹھ گیا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر شیر کے پھنسانے کے لیے تین موٹی بکریاں ڈھائی سو پونڈ وزنی لوہے کی پٹری کے ایک ٹکڑے سے باندھ دی گئیں۔ ساری رات میں گھپ اندھیرے میں شیر کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ بکریوں نے چیخ کر سارا جنگل سر پر اٹھا رکھا تھا۔ صبح کاذب کے وقت جب میں انتظار کی یہ تکلیف دہ کیفیت ختم کرنے ہی والا تھا کہ شیر کی دھاڑ سنائی دی، پھر بکریاں زور سے چلّائیں اور ایک دم خاموشی چھا گئی۔ میں اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکنے لگا، لیکن شیر دکھائی نہ دیا۔ میں نے اندازے سے کام لیتے ہوئے اس جانب دو تین فائر جھونک دیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ شیر کو کوئی گولی نہ لگی۔ البتہ ایک بکری میری رائفل کا نشانہ بنی اور اس عالمِ فانی سے عالمِ جادوانی کو سدھار گئی، لیکن شیر اتنا قوی نکلا کہ آہنی ٹکڑے سمیت بکریوں کو گھسیٹ کر ایک میل دور جنگل میں لے گیا۔
سورج کی روشنی جنگل میں پھیلتے ہی میں نے کیمپ سے چار پانچ آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور آدم خور کی کھوج میں نکلا۔ شیر بکریوں کو جس راہ سے گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ اس کا سراغ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو شیر جھاڑیوں میں چھُپا بکریوں کو ہڑپ کر رہا تھا۔ ہمارے قدموں کی آہٹ سن کر اظہار ناراضی کے لیے وہ آہستہ سے غرّایا۔ ہم سب جس جگہ تھے وہیں رک گئے اور یہ اچھا ہی ہوا کہ شیر نے غرّا کر ہمیں پہلے خبردار کر دیا ورنہ ہم اور نزدیک چلے جاتے تو ضرور ہم میں سے ایک نہ ایک اس کے ہاتھوں مارا جاتا۔ میں نے جھاڑیوں میں فائر کرنے کے لیے رائفل سیدھی ہی کی تھی کہ آدم خور دفعتاً دھاڑتا ہوا جھاڑیوں میں سے نکلا اور ہم سب بدحواس ہو کر اردگرد کے درختوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگے۔ میرے ساتھ میرے مددگار انجینئر مسٹر ونکلر بھی تھے۔ ان پر تو اتنی دہشت طاری تھی کہ وہیں گُم سُم کھڑے رہے۔ شیر غالباً خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔ اس لیے اس نے ونکلر کی طرف توجہ نہ کی اور مسلسل دھاڑتا ہوا جنگل کی دوسری جانب بھاگ گیا۔ شیر کے چلے جانے کے بعد ونکلر کی جان میں جان آئی اور وہاں سے دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ہم سب درختوں سے اتر کر ان جھاڑیوں میں گھُسے جہاں شیر چھُپا ہوا تھا۔ بکریوں کی لاشیں موجود تھیں اور شیر کو ابھی بہت کم گوشت کھانے کا موقع ملا تھا کہ ہم پہنچ گئے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر بھوکا ہے اور وہ کسی نہ کسی وقت اِدھر آ کر ضرور اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرے گا۔ میں نے جلد جلد وہاں سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر مچان بندھوائی اور اپنے ذاتی ملازم مہینا کو یہ ہدایت دے کر کہ جونہی شیر کی آمد کا کھٹکا ہو، فوراً مجھے جگا دے۔ میں وہیں مچان پر لیٹ کر سو گیا۔ تیسرے پہر تک میں بےخبر سوتا رہا، پھر مہینا نے آہستہ آہستہ سے میرا شانہ ہلایا اور آہستہ سے کان میں کہا، "صاحب! شیر آ رہا ہے۔"
میں فوراً اٹھا اور غور سے ان جھاڑیوں کی طرف دیکھنے لگا، جہاں بکریاں مری پڑیں تھیں۔ بلا شبہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں اور درندہ چُپکے چُپکے ان میں گھُسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں دم سادھے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ آدم خور نے ایک مرتبہ جھاڑیوں سے سر نکال کر اردگرد کا جائزہ لیا، پھر اس کا آدھا جسم باہر نکلا اور فوراً ہی میری رائفل سے بیک وقت دو فائر ہوئے اور گولیاں شیر کے کندھے پر لگیں ایک مہیب دھاڑ کے ساتھ شیر جھاڑی سے نکل کر باہر آیا اور میرے سامنے سے ہو کر دوبارہ جنگل میں گھُس گیا۔ اس کے فرار ہونے کے بعد میں اور مہینا دونوں مچان میں سے اترے اور اس مقام تک گئے جہاں شیر زخمی ہوا تھا۔ تازہ تازہ خون جھاڑیوں میں دور تک پھیلتا چلا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ شیر بری طرح زخمی ہوا تھا۔ خون کے بڑے بڑے دھبے جابجا بکھرے ہوئے تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کا تعاقب کر کے معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے، لیکن شام سر پر آ گئی تھی اور جنگل کے اندھیرے میں زخمی آدم خور کا تعاقب کرنا آسان مرحلہ نہ تھا۔ میں نے یہ قصّہ کل پر اٹھا رکھا اور ملازم کے ساتھ کیمپ میں آ گیا۔
دوسرے روز جب میں نے جنگل میں شیر کا سراغ لگانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ سر گلفورڈ مالزورتھ تشریف لا رہے ہیں۔ سر گلفورڈ بڑے نامی گرامی انجینئر تھے اور کام کا معائنہ کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور ان کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ سر گلفورڈ آئے اور جب دوپہر کے کھانے پر ہماری بات چیت ہوئی تو میں نے دوسرے آدم خور کے زخمی ہونے کا قصّہ سنایا۔ وہ سن کر ہنسے اور کہنے لگے، "کرنل صاحب! مجھے تو شک ہے کہ ابھی پہلا آدم خور بھی نہیں مرا۔ دوسرے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔"
میں ان کے طنزیہ فقرے کا مطلب سمجھ گیا۔ وہ دراصل مجھے اناڑی سمجھ کر مذاق اڑا رہے تھے۔ میں ہنس کر خاموش ہو گیا۔
سر گلفورڈ دوسرے روز ممباسہ روانہ ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کے رخصت ہوجانے کے دس دن بعد تک دوسرے آدم خور کے بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اس نے کسی کیمپ پر حملہ کیا ہو یا کسی قلی کو اٹھا کر لے گیا ہو۔ اس کے یوں غائب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر کہیں جھاڑیوں میں مر چکا ہوگا۔ تاہم حفاظتی انتظامات بدستور جاری تھے اور مزدور درختوں یا گڑھوں کے اندر سویا کرتے تھے۔ اس طرح ایک ہفتہ اور گزر گیا۔ تب ان لوگوں اور مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خور کا قصّہ ہمیشہ کے لیے پاک ہو چکا ہے۔ آہستہ آہستہ مزدور اور کاریگر پھر پہلے کی طرح اطمینان اور لاپروائی سے اپنے کام پر آنے جانے لگے اور آدم خور کا ڈر گویا ان کے دلوں سے نکل گیا۔
٢٧ دسمبر ١٨٩٩ء کی وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں اپنے خیمے میں لیٹا خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہا تھا کہ یکایک خیمے سے باہر کچھ فاصلے پر قلیوں کے چیخنے چلّانے کی جگر خراش آوازوں نے مجھے بیدار کر دیا۔ اس کے بعد شیر کی گرجدار آواز نے میرا دل ہلا دیا۔ خدا کی پناہ! آدم خور پھر نمودار ہو چکا تھا۔ اس وقت خیمے سے باہر نکلنا خودکشی کے مترادف تھا۔ میں نے ایک سوراخ سے باہر جھانکا۔ گھُپ اندھیرے میں مجھے کچھ سجھائی نہ دیا۔ قلی مسلسل چیخ رہے تھے۔ میں نے جلدی سے اپنی رائفل اٹھائی اور تین چار ہوائی فائر کر دیے۔ فائر وں کے دھماکوں سے جنگل گونج اٹھا اور آدم خور ڈر کر ایک جانب بھاگ گیا۔ کیوں کہ اس کے بعد میں نے قلیوں کی آواز سنی نہ شیر کی۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ فائر عین وقت پر ہوئے تھے، ورنہ آدم خور ضرور کسی کو لے جاتا۔ قلیوں کی چیخ پکار اور فائروں نے اسے خوفزدہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ درختوں اور خیموں کے قریب خاردار باڑوں کے چاروں طرف اس کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔ شام ہوئی تو میں رائفل لے کر ایک درخت پر چڑھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور کل کی ناکامی کا بدلہ لینے ضرور آئے گا۔ خوش قسمتی سے اس رات آسمان پر بادل نہ تھے اور مہتاب سارے جنگل کو منوّر کر رہا تھا۔ آدم خور کا انتظار کرتے کرتے رات کے دو بج گئے۔ چاروں طرف ایک سوگوار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کوئی بڑی سی چمگاڈر آسمان پر پرواز کرتی ہوئی دکھائی دیتی یا پہریداروں کی آوازیں تھیں جو ہر پندرہ منٹ بعد بلند ہوتیں۔ میں نے پہریداروں کو ہدایت کردی تھی کہ شام ہی سے آوازیں دینا شروع کر دیں تاکہ آدم خور انسانوں کی آوازیں سنے اور بےچین ہو کر سیدھا اِدھر آئے۔ رات آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی اور مجھے نیند کے جھونکے آ رہے تھا۔ پھر میں وہیں درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔
نہ معلوم کتنی دیر تک غنودگی کے عالم میں گُم رہا کہ دفعتاً میرے حواس خود بیدار ہو گئے۔ میں نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ہر شے ساکن ساکن اور چُپ چاپ اپنی جگہ قائم تھی۔ تاہم میں نے اپنے اندر اضطراب اور بےچینی کی لہریں دوڑتی ہوئی محسوس کیں۔ یہ میری چھٹی حِس تھی جو مجھے بتاتی تھی کہ میرے نزدیک کوئی ذی روح موجود ہے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ درخت سے پندرہ گز دور گھنی جھاڑیوں پر چند منٹ تک نظریں جمائے رکھنے سے پتہ چلا کہ اس میں ہمارے پرانے دوست آدم خور صاحب چھُپے ہوئے غالباً میری نگرانی کر رہے ہیں اور کمال کی بات یہ تھی کہ ظالم اِن جھاڑیوں میں بھی ایسی احتیاط سے حرکت کرتا کہ جھاڑی ذرا نہ ہلتی تھیں۔ میں بھی مچان پر بےحِس و حرکت بیٹھا اس کی عیّاری کا جائزہ لیتا تھا، پھر میں نے اسے مزید دھوکہ دینے کے لیے اپنی آنکھیں جھوٹ موٹ موند لیں اور مصنوعی خرّاٹے لینے لگا۔ ایک آدھ منٹ بعد میں نیم باز نگاہوں سے دیکھ لیتا کہ وہ کتنا نزدیک آ گیا ہے۔ اعشاریہ ٣٠٣ بور کی بھری ہوئی رائفل میرے پاس تیّار تھی اور پھر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ آدم خور مجھ ہی کو اپنا لقمہ بنانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ میں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اس کی بلندی دس گیارہ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور شیر آسانی سے جست لگا کر اتنی بلندی پر وار کر سکتا تھا۔ خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی۔ شیر اب مجھ پر حملہ کرنے کے لیے قطعی مستعد تھا۔ وہ ایک دم جھاڑیوں کو چیرتا ہوا آیا اور چھلانگ لگا کر میری جانب لپکا، لیکن میں بھی غافل نہ تھا۔ فوراً میری رائفل سے شعلہ نکلا اور گولی شیر کے بائیں کندھے میں لگی۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ آدم خور پشت کے بل گرا، مگر دوسرے ہی لمحے وہ اٹھا اور اچھل کر مجھ پر حملہ کیا۔ اس کا پنجہ مچان سے دو انچ نیچے ایک شاخ پر پڑا اور شاخ تڑخ کر نیچے جا پڑی۔ آدم خور کی گرج اور دھاڑ نے مجھے بدحواس کر دیا۔ میں نے بدحواسی میں اس پر دو فائر اور کیے اور یہ دونوں گولیاں کارآمد ثابت ہوئیں۔ اس کا دایاں بازو تو بالکل ہی بےکار ہو چکا تھا۔ وہ تین ٹانگوں پر اچھلتا ہوا جھاڑیوں کی طرف بھاگا، لیکن اب بھاگنے کا موقع کہاں تھا۔ ظالم درندے کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ نڈھال ہو کر گر پڑا۔ اس اثنا میں کیمپ کے سینکڑوں مزدور اور قلی ہاتھوں میں ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے کر آ گئے۔ شیر تو پہلے ہی مر چکا تھا۔ انہوں نے غیض و غضب کے عالم میں مرے ہوئے شیر ہی پر ڈنڈے اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا۔ میں نے للکار کر انہیں روکا ورنہ شیر کی اس وقت تکّا بوٹی ہو گئی ہوتی۔ شیر کی لاش اٹھوا کر میں اپنے خیمے میں لے گیا۔ اس کے جسم سے چھے گولیاں برآمد ہوئیں۔ کھال تو کانٹوں نے پہلے ہی خراب کر دی تھی اور اس طرح نو ماہ کی جان توڑ کوشش کے بعد دونوں آدم خور ہلاک ہوئے جن کی ہیبت ناک یاد اتنے برس بعد آج بھی میرے دل میں روزِ اوّل کی طرح تازہ ہے۔
٭٭٭