فلک شیر
محفلین
سورج کے ساتھ ساتھ شام کے منتر ڈوب جاتے ہیں
گھنٹی بجتی تھی یتیم خانے میں
بھوکے بھٹکے بچوں کے لوٹ آنے کی
دور دور تک پھیلے کھیتوں پر،
دھویں میں لپٹے گاؤں پر،
برکھا سے بھیگی کچی ڈگر پر،
جانے کیسا بھید بھرا اندھیرا پھیل جاتا تھا
اور ایسے میں آواز آتی تھی، پِتا !
تمہارے پکارنے کی
میرا نام اس اندھیارے میں بج اٹھتا تھا
تمہارے سُروں میں
میں اب بھی ہوں
اب بھی ہے یہ روتا ہوا اندھیرا چاروں طرف
لیکن تمہاری آواز نہیں ہے
جو میرا نام بھر کر
اُسے شانت سُروں میں بجا دے
"دھکا دے کر کسی کو
آگے جانا پاپ ہے"
اس لیے تم بِھیڑ سے الگ ہو گئے
"بڑی خواہش ہی سب دکھوں کی قیمت ہے"
اسی لیے تم جہاں تھے، وہیں بیٹھ گئے
"صبر و اطمینان حاصل ایمان ہے"
"چہار سُو"
مان کر تم نے سب لُٹ جانے دیا
پِتا! اُن قدروں نے تمہیں
بے سہارا، بے آسرا اور دُکھی ہی بنایا
تم سے نہیں، مجھ سے کہتی ہے
موت کے سمے
تمہارے بجھے ہوئے چہرے پر پڑتی ظالم'
بھیانک پرچھائیں
"سادگی سے رہوں گا"
تم نے سوچا تھا
اس لیے ہر جشن پر تم دروازے پہ کھڑے رہے
"جھوٹ نہیں بولوں گا"
تم نے عہد کیا تھا
اس لیے ہر محفل میں تم تصویر کی طرح چپ رہے
تم نے جتنا خود کو معنی دیے
دوسروں نے اتنا ہی بے معنی سمجھا
کیسی مسخرگی ہے کہ
جھوٹ کے اس میلے میں
سچے تھے تم' اس لیے بیراگیوں کی طرح پڑے رہے
تمہارے لیے آخری سفر میں وہ نہیں آئے
جو تمہاری خدمتوں کی سیڑھیاں لگا کر
شہر کی اونچی عمارتوں میں بیٹھ گئے تھے
جنہوں نے تمہاری سادگی کے سِکوں سے
بھرے بازار، بھڑکیلی دکانیں کھول رکھی تھیں
جو تمہاری بھلمنساہٹ کو
اپنی فرم کا اشتہار بنا کر
ڈُگڈُگی کے ساتھ شہر میں بانٹ رہے تھے
پِتا! تمہارے آخری سفر میں وہ نہیں آئے
وہ نہیں آئے
گھنٹی بجتی تھی یتیم خانے میں
بھوکے بھٹکے بچوں کے لوٹ آنے کی
دور دور تک پھیلے کھیتوں پر،
دھویں میں لپٹے گاؤں پر،
برکھا سے بھیگی کچی ڈگر پر،
جانے کیسا بھید بھرا اندھیرا پھیل جاتا تھا
اور ایسے میں آواز آتی تھی، پِتا !
تمہارے پکارنے کی
میرا نام اس اندھیارے میں بج اٹھتا تھا
تمہارے سُروں میں
میں اب بھی ہوں
اب بھی ہے یہ روتا ہوا اندھیرا چاروں طرف
لیکن تمہاری آواز نہیں ہے
جو میرا نام بھر کر
اُسے شانت سُروں میں بجا دے
"دھکا دے کر کسی کو
آگے جانا پاپ ہے"
اس لیے تم بِھیڑ سے الگ ہو گئے
"بڑی خواہش ہی سب دکھوں کی قیمت ہے"
اسی لیے تم جہاں تھے، وہیں بیٹھ گئے
"صبر و اطمینان حاصل ایمان ہے"
"چہار سُو"
مان کر تم نے سب لُٹ جانے دیا
پِتا! اُن قدروں نے تمہیں
بے سہارا، بے آسرا اور دُکھی ہی بنایا
تم سے نہیں، مجھ سے کہتی ہے
موت کے سمے
تمہارے بجھے ہوئے چہرے پر پڑتی ظالم'
بھیانک پرچھائیں
"سادگی سے رہوں گا"
تم نے سوچا تھا
اس لیے ہر جشن پر تم دروازے پہ کھڑے رہے
"جھوٹ نہیں بولوں گا"
تم نے عہد کیا تھا
اس لیے ہر محفل میں تم تصویر کی طرح چپ رہے
تم نے جتنا خود کو معنی دیے
دوسروں نے اتنا ہی بے معنی سمجھا
کیسی مسخرگی ہے کہ
جھوٹ کے اس میلے میں
سچے تھے تم' اس لیے بیراگیوں کی طرح پڑے رہے
تمہارے لیے آخری سفر میں وہ نہیں آئے
جو تمہاری خدمتوں کی سیڑھیاں لگا کر
شہر کی اونچی عمارتوں میں بیٹھ گئے تھے
جنہوں نے تمہاری سادگی کے سِکوں سے
بھرے بازار، بھڑکیلی دکانیں کھول رکھی تھیں
جو تمہاری بھلمنساہٹ کو
اپنی فرم کا اشتہار بنا کر
ڈُگڈُگی کے ساتھ شہر میں بانٹ رہے تھے
پِتا! تمہارے آخری سفر میں وہ نہیں آئے
وہ نہیں آئے