فرخ منظور
لائبریرین
آنسو نہ روک دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہء یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے کمر نہ کھول
عیسیٰ نہ بن کہ اس کا مقدر صلیب ہے
انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول
امکاں میں ہے تو بند و سلاسل پہن کے چل
یہ حوصلہ نہیں ہے تو زنداں کے در نہ کھول
میری یہی بساط کہ فریاد ہی کروں
تو چاہتا نہیں ہے تو بابِ اثر نہ کھول
تُو آئینہ فروش و خریدار کور چشم
اس شہر میں فراز دکانِ ہنر نہ کھول
(احمد فراز)
جیسا بھی حال ہو نگہء یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے کمر نہ کھول
عیسیٰ نہ بن کہ اس کا مقدر صلیب ہے
انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول
امکاں میں ہے تو بند و سلاسل پہن کے چل
یہ حوصلہ نہیں ہے تو زنداں کے در نہ کھول
میری یہی بساط کہ فریاد ہی کروں
تو چاہتا نہیں ہے تو بابِ اثر نہ کھول
تُو آئینہ فروش و خریدار کور چشم
اس شہر میں فراز دکانِ ہنر نہ کھول
(احمد فراز)