سید شہزاد ناصر
محفلین
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو
اس بُت کے لئے میں ہوسِ حور سے گُذرا
اس عشقِ خوش انجام کا آغاز تو دیکھو
چشمک مری وحشت پہ ہےکیا حضرتِ ناصح
طرزِ نگہِ چشمِ فُسوں ساز تو دیکھو
اربابِ ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعیِ عاشقِ جانباز تو دیکھو
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اُٹھے وہ
بد نامیءِ عشاق کا اعزاز تو دیکھو
محفل میں تُم اغیار کو دُزدیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
دیں پاکیئِ دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسفِ بیدرد کا اعجاز تو دیکھو
جنت میں بھی مومن نہ ملا ہائے بُتوں سے
جورِ اجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو