طارق شاہ
محفلین
غزل
آنکھوں میں رہا، دِل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مُسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا ،سب چونک پڑیں گے
اِک عُمر ہُوئی دِن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لِیا میں نے
پُھولوں میں چُھپایا ہُوا خنجر نہیں دیکھا
محبُوب کا گھر ہو کہ، بزرگوں کی زمینیں !
جو چھوڑدِیا، پھر اُسے مڑکر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہُوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتّھر نہیں دیکھا
یہ پُھول مجھے کوئی وِراثت میں مِلے ہیں
تم نے مِرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھّا ہے، کہ نگینے سے جُڑے ہیں
وہ ہاتھ، کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہُوں، اُس نے مجھے چُھوکر نہیں دیکھا
ڈاکٹر بشیر بدر