چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
(گزشتہ سے پیوستہ)
الف چاچو:۔ (ڈپٹ کر) خبردار ! یہاں دہشت گردی نہیں ہونے دی جائے گی۔ چلو مقدس بیٹی تم شعر کہو۔
مقدس:۔ (مسکراتے ہوئے) باطل سے ڈرنے والے اے آسماں ، نہیں ہم
فاخرہ:۔ (منہ بسورتے ہوئے) مجبور ہیں اف اللہ، کچھ کر بھی نہیں سکتے
مقدس:۔ (فاتحانہ انداز سے) عرض کیا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔۔۔
پھینکا قفس میں اور پھر صیاد نے کہا
کہنا ضرور گر کوئی تکلیف ہو یہاں
شمشاد:۔ بڑی دیر سے میرے پیٹ میں درد سا ہو رہا ہے میرا خیال ہے مجھے شعر سنا کر اپنا علاج کر لینا چاہیے۔ "ن" کا شعر عرض ہے۔۔۔۔۔۔۔
ناز نینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں پہ بھی کاشانے پہ کاشانہ کھلا
ماسی:۔ (طنزاً) ہنہ
آپا زبیدہ:۔ اے یوں تو کہ کہو خالہ! میرا مطلب ہے بہن (شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے)۔۔۔۔
کھنڈرات کہہ رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی
حسیب نذیر:۔ ماسی اور پھوپھی میں کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے؟ تصویر تو آ رہی ہے ، آواز نہیں آ رہی۔
آپا زبیدہ:۔اے بچے تو آرام سے بیٹھ۔ یہ ہم بڑوں کی باتیں ہیں، وہ کیا کہتے ہیں کہ "سپرٹ" باتیں ہیں۔
زحال مرزا:۔ سپرٹ نہیں آپا، سیکرٹ باتیں ہیں۔
آپا زبیدہ:۔ اے ہاں بیٹا! وہی باتیں ہیں جو تم نے کہیں ۔۔۔۔ خیر اب میں "الف" کا شعر عنایت کرنے لگی ہوں۔ تو سنو۔۔۔
اک اداکار رکا ہے تو ہوا اتنا ہجوم
مڑ کے دیکھا نہ کسی نے جو قلم کار چلا
وارث مرزا:۔ (پھڑک کر) واہ آپا ! کیا شعر مارا ہے ۔ قسم سے، سولہ آنے سچ کہا ہے ۔ واقعی قلم کار کو کوئی نہیں پوچھتا، میری ہی مثال لے لیں ۔ کیا ٹاپ کا قلم کار ہوں میں، مگر بازار میں نکلوں تو کوئی نہیں ایسا جو آٹو گراف مانگے جبکہ وینا ملک اگر کسی بازار میں جا نکلے تو ٹریفک ایسے رکے گی جیسے ملکی ترقی!
فرخ منظور:۔ دل چھوٹا نہ کریں وارث صاحب
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
سارہ خان:۔ فرخ بھائی یہ "الف" کا شعر تو نہیں ہے۔
فرخ منظور:۔ میں نے شعر کب کہا ہے محترمہ۔ میں نے تو تسلی دی ہے۔
ماسی :۔ توبہ میری۔ ۔۔ زبانیں ہیں یا گھاس کاٹنے کی مشینیں ۔ ارے میں "ن" کا شعر سناؤں کہ نہ سناؤں؟ ۔۔۔۔۔
اچھا سنو۔۔۔۔۔
نہ وہ حسین ، نہ میں خوبرو مگر ایک ساتھ
ہمیں جو دیکھ لے وہ دیکھتا ہی رہ جائے
آپا زبیدہ:۔ (شگفتہ شگفتہ آپی کے کان میں) ارے، یہ بڑھیا سٹھیا تو نہیں گئی؟
شگفتہ آپی:۔ سٹھیانے کی اس میں کیا بات ہے ، سچ تو کہہ رہی ہے بے چاری ، خوبرو وہ ہے ہی کب؟
حسیب نذیر:۔ خالہ کیا اب بھی بات میرے سننے کی نہیں؟
آپا زبیدہ:۔ اللہ،! ایک تو یہ لونڈا میری جان کو آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اے بچے تجھے کیا لوٹ لگی ہے ہماری باتوں کی؟
حسیب نذیر:۔ خالہ ! وہ۔۔۔۔
زحال مرزا:۔ (بات کاٹ کر)چھوڑو یار! تم "ے" کا شعر سنو، اور سر دھنو۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہم تہذیب سے پوچھیں کہ رفتارِ زمانہ سے
بڑی بی ہو گئیں پھر سے جواں، ایسا بھی ہوتا ہے
حسیب نذیر:۔ خالہ آپ کی بات ہو رہی ہے ۔ جواب دیں۔
آپا زبیدہ:۔ (بگڑ کر) اے میری بات کیوں ہوتی ؟ مجھے تو سر میں کنگھی کیے بھی آٹھ آٹھ دن ہو جاتے ہیں ، یہ تو تم اپنی پھوپھی سے پوچھو۔
شگفتہ آپی:۔ (تڑخ کر)اے ہوش کے ناخن لو زبیدہ! میرا تم نے ایسا کونسا سنگھار دیکھ لیا ہے؟
آپا زبیدہ:۔ اچھا تو یہ بالوں کی کالک کس کھاتے میں جائے گی؟
شگفتہ آپی:۔ اے یہ تو آج کل سبھی کرتے ہیں ۔ اپنے اعجاز بھائی ہی کو دیکھ لو۔
الف انکل:۔ (جلدی سے) بھئی اپنی اپنی لڑائی لڑو۔ میری طرف کوئی نہ آئے۔
یوسف ثانی:۔ (ہنستے ہوئے)بھئی ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ منہ کالا ۔۔ میرا مطلب ہےسر کالا کرو؟
الف انکل:۔ وہ تو میں۔۔۔۔۔۔۔ (کچھ خیال آنے پر چونکتے ہوئے) ایسا فسادی شعر کس نے پڑھا تھا؟
یوسف ثانی:۔اچھا ، بات اپنے تک آئی تو شعر فسادی ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ چہ خوب۔
الف چاچو:۔ (ڈپٹ کر) خبردار ! یہاں دہشت گردی نہیں ہونے دی جائے گی۔ چلو مقدس بیٹی تم شعر کہو۔
مقدس:۔ (مسکراتے ہوئے) باطل سے ڈرنے والے اے آسماں ، نہیں ہم
فاخرہ:۔ (منہ بسورتے ہوئے) مجبور ہیں اف اللہ، کچھ کر بھی نہیں سکتے
مقدس:۔ (فاتحانہ انداز سے) عرض کیا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔۔۔
پھینکا قفس میں اور پھر صیاد نے کہا
کہنا ضرور گر کوئی تکلیف ہو یہاں
شمشاد:۔ بڑی دیر سے میرے پیٹ میں درد سا ہو رہا ہے میرا خیال ہے مجھے شعر سنا کر اپنا علاج کر لینا چاہیے۔ "ن" کا شعر عرض ہے۔۔۔۔۔۔۔
ناز نینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں پہ بھی کاشانے پہ کاشانہ کھلا
ماسی:۔ (طنزاً) ہنہ
آپا زبیدہ:۔ اے یوں تو کہ کہو خالہ! میرا مطلب ہے بہن (شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے)۔۔۔۔
کھنڈرات کہہ رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی
حسیب نذیر:۔ ماسی اور پھوپھی میں کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے؟ تصویر تو آ رہی ہے ، آواز نہیں آ رہی۔
آپا زبیدہ:۔اے بچے تو آرام سے بیٹھ۔ یہ ہم بڑوں کی باتیں ہیں، وہ کیا کہتے ہیں کہ "سپرٹ" باتیں ہیں۔
زحال مرزا:۔ سپرٹ نہیں آپا، سیکرٹ باتیں ہیں۔
آپا زبیدہ:۔ اے ہاں بیٹا! وہی باتیں ہیں جو تم نے کہیں ۔۔۔۔ خیر اب میں "الف" کا شعر عنایت کرنے لگی ہوں۔ تو سنو۔۔۔
اک اداکار رکا ہے تو ہوا اتنا ہجوم
مڑ کے دیکھا نہ کسی نے جو قلم کار چلا
وارث مرزا:۔ (پھڑک کر) واہ آپا ! کیا شعر مارا ہے ۔ قسم سے، سولہ آنے سچ کہا ہے ۔ واقعی قلم کار کو کوئی نہیں پوچھتا، میری ہی مثال لے لیں ۔ کیا ٹاپ کا قلم کار ہوں میں، مگر بازار میں نکلوں تو کوئی نہیں ایسا جو آٹو گراف مانگے جبکہ وینا ملک اگر کسی بازار میں جا نکلے تو ٹریفک ایسے رکے گی جیسے ملکی ترقی!
فرخ منظور:۔ دل چھوٹا نہ کریں وارث صاحب
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
سارہ خان:۔ فرخ بھائی یہ "الف" کا شعر تو نہیں ہے۔
فرخ منظور:۔ میں نے شعر کب کہا ہے محترمہ۔ میں نے تو تسلی دی ہے۔
ماسی :۔ توبہ میری۔ ۔۔ زبانیں ہیں یا گھاس کاٹنے کی مشینیں ۔ ارے میں "ن" کا شعر سناؤں کہ نہ سناؤں؟ ۔۔۔۔۔
اچھا سنو۔۔۔۔۔
نہ وہ حسین ، نہ میں خوبرو مگر ایک ساتھ
ہمیں جو دیکھ لے وہ دیکھتا ہی رہ جائے
آپا زبیدہ:۔ (شگفتہ شگفتہ آپی کے کان میں) ارے، یہ بڑھیا سٹھیا تو نہیں گئی؟
شگفتہ آپی:۔ سٹھیانے کی اس میں کیا بات ہے ، سچ تو کہہ رہی ہے بے چاری ، خوبرو وہ ہے ہی کب؟
حسیب نذیر:۔ خالہ کیا اب بھی بات میرے سننے کی نہیں؟
آپا زبیدہ:۔ اللہ،! ایک تو یہ لونڈا میری جان کو آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اے بچے تجھے کیا لوٹ لگی ہے ہماری باتوں کی؟
حسیب نذیر:۔ خالہ ! وہ۔۔۔۔
زحال مرزا:۔ (بات کاٹ کر)چھوڑو یار! تم "ے" کا شعر سنو، اور سر دھنو۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہم تہذیب سے پوچھیں کہ رفتارِ زمانہ سے
بڑی بی ہو گئیں پھر سے جواں، ایسا بھی ہوتا ہے
حسیب نذیر:۔ خالہ آپ کی بات ہو رہی ہے ۔ جواب دیں۔
آپا زبیدہ:۔ (بگڑ کر) اے میری بات کیوں ہوتی ؟ مجھے تو سر میں کنگھی کیے بھی آٹھ آٹھ دن ہو جاتے ہیں ، یہ تو تم اپنی پھوپھی سے پوچھو۔
شگفتہ آپی:۔ (تڑخ کر)اے ہوش کے ناخن لو زبیدہ! میرا تم نے ایسا کونسا سنگھار دیکھ لیا ہے؟
آپا زبیدہ:۔ اچھا تو یہ بالوں کی کالک کس کھاتے میں جائے گی؟
شگفتہ آپی:۔ اے یہ تو آج کل سبھی کرتے ہیں ۔ اپنے اعجاز بھائی ہی کو دیکھ لو۔
الف انکل:۔ (جلدی سے) بھئی اپنی اپنی لڑائی لڑو۔ میری طرف کوئی نہ آئے۔
یوسف ثانی:۔ (ہنستے ہوئے)بھئی ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ منہ کالا ۔۔ میرا مطلب ہےسر کالا کرو؟
الف انکل:۔ وہ تو میں۔۔۔۔۔۔۔ (کچھ خیال آنے پر چونکتے ہوئے) ایسا فسادی شعر کس نے پڑھا تھا؟
یوسف ثانی:۔اچھا ، بات اپنے تک آئی تو شعر فسادی ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ چہ خوب۔