قرۃالعین اعوان
لائبریرین
آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہوگیا
قطرہ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہوگیا
خاک کی دہلیز میں جسم و جاں سمٹتے نہیں
اور زمیں کا رنگ بھی اب دھوپ جیسا ہوگیا
اک اک کرکے میرے سب لفظ مٹی ہوگئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہوگیا
تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہوگئیں
آئینہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہوگیا
اے ہوائے وصل چل پھر سے گلِ ہجراں کھلا
ست اٹھا پھر اے نہالِ غم ، سویرا ہوگیا
اے جمال فن، اسے مت روکو! کہ تن آسان تھا
تیری دنیاؤں کا خاور صرفِ دنیا ہوگیا
قطرہ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہوگیا
خاک کی دہلیز میں جسم و جاں سمٹتے نہیں
اور زمیں کا رنگ بھی اب دھوپ جیسا ہوگیا
اک اک کرکے میرے سب لفظ مٹی ہوگئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہوگیا
تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہوگئیں
آئینہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہوگیا
اے ہوائے وصل چل پھر سے گلِ ہجراں کھلا
ست اٹھا پھر اے نہالِ غم ، سویرا ہوگیا
اے جمال فن، اسے مت روکو! کہ تن آسان تھا
تیری دنیاؤں کا خاور صرفِ دنیا ہوگیا