ربیع م
محفلین
دریائے راوی کی سیر
ہم ٹھہرے آوارہ گرد!جہاں گردی اپنا معمول ہے
چند دن ٹک کر کہیں گزارنا مشکل ہے ، ایک جگہ بیٹھنے سے اختلاج قلب سا ہونے لگتا ہے ، اس لئے ہمہ وقت آوارہ گردی میں مصروف رہتے ہیں ۔
کچھ دوست احباب بھی ایسے ہی میسر ہیں جو کہیں نہ کہیں ہلہ گلہ کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہیں ۔
اس ہفتے ہمارا پروگرام دریائے راوی جانے کا تھا ، ویسے تو احباب نے دریائے راوی کی وہی شکل دیکھی ہو گی جو لاہور میں داخل ہوتے وقت راوی پل سے دکھائی دیتی ہے ، جہاں دریا محض ایک نالے کی صورت اور آلودگی کی وجہ سے پانی کا رنگ سیاہی مائل دکھائی دیتا ہے ۔
ہم بھی عرصہ تک دریائے راوی کے بارے میں یہی سمجھتے رہے کہ اس میں بس گھٹنے گھٹنے پانی ہے ، لیکن یہ تو بعد میں انکشاف ہوا کہ دریا کافی گہرا بھی ہے ۔
ہم نے سیر کیلئے اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں سے دریا انڈیا سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے ، بارڈر سے لگ بھگ پونے دو کلومیٹر کے فاصلے پر سائفن ہے ، یعنی بی آر بی نہر کو دریا کے نیچے سے سرنگ بنا کر گزارہ گیا ہے ۔
چونکہ تصاویر سے کچھ خاص لگاؤ نہیں اس لئے سوکھی روداد پر گزارہ کیا جائے ، کچھ تصاویر پچھلے ٹور کی بھی شامل کی ہیں ۔
تفصیل اس کی کچھ یوں کہ :
اتوار کے دن ہم نے صبح ساڑھے آٹھ بجے روانگی کا پروگرام بنایا ، جو کہ حسب عادت و حسب معمول تاخیر کا شکار ہوا ، اور ہم ساڑھے نو کے قریب 3 گاڑیوں میں روانہ ہوئے ، اورتقریبا پون گھنٹے میں وہاں پہنچے !
راستے کی کچھ تصاویر:
کچھ روانگی کی ہیں اور کچھ واپسی کی !
راستے میں کچھ پانی کے تالاب ،واپسی پر کھینچی گئی تصویر:
چونکہ اس جگہ پر پل موجود نہیں چنانچہ یہاں کے لوگ دریا عبور کرنے کیلئے مقامی طور پر چلائے جانے والے بیڑے استعمال کرتے ہیں ، اس بیڑے میں افراد کے ساتھ ساتھ ، موٹرسائیکل گاڑیاں اور ٹرالیاں بھی دریا عبور کرتی ہیں ۔بیڑے کو عموما چار افراد بانسوں کے ذریعے چلاتے ہیں دو ملاح آگے اور دو پیچھے ، ملاحوں کے ہاتھ میں 30 فٹ لمبا بانس ہوتا ہے جسے نیچے پانی میں ڈبو کر زمین کی تہہ کے ساتھ لگا کر بیڑے کو آگے کی جانب دھکیلتے ہیں جن دنوں میں دریا میں پانی زیادہ ہوتا ہے ان دنوں بیڑہ انجن پر چلایا جاتا ہے ۔
یہ ملاح ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جدی پشتی ان کا یہی پیشہ چلا آرہا ہے ۔
نیٹ سے لی گئی ایک تصویر :
اس بار بیڑے نہیں چل رہے تھے پچھلی بار کی بیڑوں سے کھینچی گئی کچھ تصاویر:
بیڑے سے کھینچی گئی تصویر پیچھے دوسرا بیڑہ روانگی کیلئے تیار ہو رہا ہے !
دریا کی کچھ تصاویر :
وہاں پہنچنے کے بعد سامان اتارا ، اور فٹبال کھیلنے کا فیصلہ ہوا ، ہم پندرہ افراد تھے ۔چھوٹوں (20 سال سے کم) نے فیصلہ کیا کہ آج بڑوں کے ساتھ میچ کھیلتے ہیں ، اور چیلنج کر کے انھیں ہراتے ہیں ، ہمیں اپنی بڑی ٹیم کی اہلیت کا اندازہ تھا چنانچہ فورا انکار کر دیا۔
لیکن چھوٹے مصر رہے
بالاخر ہم بھی جوش میں آگئے ، چھ چھ افراد کی ٹیم بنی اور گیم شروع ہو گئی ، طے یہ پایا کہ پہلے پانچ گول کرنے والی ٹیم جیت جائے گی، دھوپ اگرچہ تیز تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اس کی حدت کو کم کر رہی تھی ۔
بالآخر اس پرجوش میچ میں بڑوں کی ٹیم پانچ تین سے جیت کر سرخرو ہو ہی گئی ۔
اس کے بعد تیراکی کا مرحلہ آیا ۔
پہلے تین چار ماہر تیراک حضرات نے جا کر دریا عبور کیا پھر ہم واپس آئے ، وہاں کھڑے بیڑے میں لائف جیکٹس تھیں وہ کچھ اناڑیوں کو پہنائیں ،
تیراکی کی تصاویر نہیں بنائیں یہ ایک ویڈیو سے تصویر لی :
تیراکی کے بعد کھانے کا دور:
اس دوران قریب کچھ لوگ چھوٹے جال لگا کرمچھلیاں پکڑ رہے تھے ان کے جال میں پانچ کلو وزنی مچھلی آئی ، اس مچھلی کے ساتھ ایک دوست کی تصویر:
اس کے بعد کچھ کشتی کا دور چلا:
واپسی پر سائفن کا چکر :
سائفن کے بارے میں معلوماتی بورڈ:
ایک پرانا واچ ٹاور جس پر چڑھ کر اردگرد کا نظارہ کیا:
ٹاور سے اردگرد کا منظر:
اور پھر واپسی۔