آواز دے کہاں ہے؟

F@rzana

محفلین
شکریہ اعجاز صاحب ، دنیائے موسیقی کے شہنشاہ کو جتنا خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے، مزید تفصیل حاضر خدمت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈین فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار نوشاد علی جمعہ کی صبح نو بجے ممبئی میں انتقال کرگئے۔ نوشاد دو برسوں سے علیل تھے اور انہیں دل کا عارضہ بھی تھا۔
نوشاد کے بڑے بیٹے رحمٰن نوشاد نے بتایا کہ پندرہ روز قبل انہوں نے دل میں درد کی شکایت کی اور انہیں نانا وتی ہسپتال میں علاج کے لیئے داخل کیا گیا تھا۔

جمعہ کی صبح انہیں دل کا زبردست دورہ پڑا جو ان کے لیئے جان لیوا ثابت ہوا۔ رحمٰن کے مطابق نوشاد کی تدفین جمعہ کی شام جوہو کے قبرستان میں ہوگی۔ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔

نوشاد علی کی پیدائش پچیس دسمبر 1919 کو ہوئی تھی۔ سن 1937 میں وہ ممبئی کام کی تلاش میں آئے تھے۔ان کی موسیقی کو انڈین فلم انڈسٹری میں ایک بیش بہا خزانے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

سڑسٹھ فلموں میں اپنی موسیقی کا جادو جگانے والے موسیقار اعظم کی آخری فلم اکبر خان کی تاج محل تھی اور ان کی موسیقی کی تعریف میں وزیراعظم ہند منموہن سنگھ نے ایک توصیفی سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور سنگیت اکیڈمی ایوارڈ مل چکا تھا۔ حکومت نے انہیں پدم بھوشن کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔


تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی
دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔


شاہ جہاں، دل لگی، دلاری، انمول گھڑی، مغل اعظم، بیجو باؤرا، انداز، آن، امر، داستان، جیسی فلموں کے دل کو چھو لینے والی موسیقی اور ان کے نغموں کو برصغیر کے عوام شاید کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ حال ہی میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں نوشاد نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ابھی انہیں اپنی زندگی کی بہترین موسیقی کی تخلیق کرنی باقی ہے۔

گزشتہ سال اپنی ستاسیویں سالگرہ کے موقع پر نوشاد نے ایک خصوصی انٹرویو میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا: ’میں 1937 میں بمبئی (ممبئی) آیا۔ جیب خالی تھی، کام نہیں تھا، رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن دل میں جذبہ، لگن اور حوصلہ تھا۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ کچھ بننا چاہتا ہوں تو مدد کر۔

’دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔ پھر وہی صبح اور وہی کام کی تلاش۔ مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں پیانو بجانے کا کام ملا اور پھر راہ کھلتی گئی۔ میوزک ڈائریکٹر کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔

’سولہ برس بعد میری فلم بیجو باؤرا بے حد کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغموں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی براڈوے تھیٹر میں فلم کا پریمئیر تھا۔ فلمساز وجے بھٹ ساتھ میں تھے۔ میں نے تھیٹر سے سامنے کی فٹ پاتھ کو دیکھا جہاں میں سویا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجے بھٹ نے حیرت ظاہر کی کہا’یہ خوشی کا موقع ہے اور تم رو رہے ہو ؟ میں نے کہا اس فٹ پاتھ کو پار کر کے یہاں تک پہنچنے میں مجھے سولہ سال لگ گئے۔‘

ِٓ‘بشکریہ بی بی سی‘

رخصت ہوا وہ چاند اور ستارے ڈوب گئے
 

F@rzana

محفلین
نوشاد کی کہانی

بھارتی فلمی صنعت کا درخشاں ستارہ اور موسیقی کی دنیا کے شہنشاہ کہلانے والے عظیم خالق نوشاد علی پچیس دسمبر کو اپنی زندگی کے چھیاسی برس پورے کر رہے ہیں اور یہ ان کی ستاسیویں سالگرہ ہے۔
شاہجہاں ، دل لگی ، دلاری ، انمول گھڑی ، مغل اعظم ، بیجو باؤرا، انداز ، آن ، امر ، داستان ، جیسی فلموں کے دل کو چھو لینے والی موسیقی اور ان کے نغموں کو کون بھول سکا ہے؟

باندرہ میں کارٹر روڈ پر واقع اپنے بنگلہ کی پہلی منزل پر کمرے میں پلنگ پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے نوشاد علی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا’ آپ مختصر سوال کیجیےگا کیونکہ میں زیادہ بول نہیں سکتا‘۔ لیکن پھر باتوں باتوں میں وہ اپنی یادوں میں اتنا کھو گئے کہ گھنٹوں بولتے ہی چلے گئے اور وقت کا پتہ نہیں چلا۔ ان سے کی گئی گفتگو کے اقتباسات انہی کی زبانی سنیے۔

’میں انیس سو سینتیس میں بمبئی (ممبئی) آیا۔ جیب خالی تھی، کام نہیں تھا، رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن دل میں جذبہ ، لگن اور حوصلہ تھا۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ کچھ بننا چاہتا ہوں تو مدد کر۔ دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔ پھر وہی صبح اور وہی کام کی تلاش۔ مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں پیانو بجانے کا کام ملا اور پھر راہ کھلتی گئی۔ میوزک ڈائریکٹر کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا ۔

سولہ برس بعد میری فلم بیجو باؤرا بے حد کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغموں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی براڈوے تھیٹر میں فلم کا پریمئیر تھا۔ فلمساز وجے بھٹ ساتھ میں تھے۔ میں نے تھیٹر سے سامنے کی فٹ پاتھ کو دیکھا جہاں میں سویا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجے بھٹ نے حیرت ظاہر کی کہا’یہ خوشی کا موقع ہے اور تم رو رہے ہو ؟ میں نے کہا اس فٹ پاتھ کو پار کر کے یہاں تک پہنچنے میں مجھے سولہ سال لگ گئے‘۔چھ دہائیوں تک بھارتی فلم انڈسٹری پر اپنی موسیقی کے ذریعہ حکومت کرنے والے عظیم موسیقار نوشاد علی اب نہیں رہے۔ وہ پانچ مئی جمعہ کے روز ممبئی میں انتقال کرگئے۔ نوشاد علی کی پیدائش پچیس دسمبر 1919 کو ہوئی تھی۔
نوشاد نے ایک طرف اپنی موسیقی سے جاوداں نغمے پیش کیے وہیں انہوں نے کئی گلوکاروں کو فلمی دنیا سے روشناس کرایا اور پھر ان گلوکاروں نے ایسے نغمے پیش کیے جو ان کی اپنی زندگی کے لافانی گیت ثابت ہوئے۔


معروف موسیقار نوشاد نہیں رہے


تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی: نوشاد

نوشاد کے بنائے گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی اور لوک گیتوں کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنے کا فن وہ اچھی طرح جانتے تھے انیس سو سینتیس میں ممبئی میں انہوں نے قدم رکھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد انہوں نے فلمی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا۔

انہوں نے اس دور میں ایسے کئی تجربات کیے جس کے بارے میں اس دور کے موسیقار سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مغل اعظم، دل لگی، انمول گھڑی، بیجو باورا، آن امر اور داستان جیسی کئی فلموں میں لافانی موسیقی کے خالق کو فلم انڈسٹری کے فنکاروں نے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔


ایک دور کا اختتام
نوشاد صاحب اس دور سے تعلق رکھتے تھے جب ہندوستانی موسیقی میں کلاسیکی موسیقی کا زیادہ اثر تھا۔ ہمیشہ اپنے فن میں تجربات کرنے کے لیے مشہور نوشاد نے اس دور میں کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو آسان انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا۔

نامور نغمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ نوشاد صاحب کے انتقال سے فلمی موسیقی کا ایک پورا دور اب ختم ہو گیا۔ نوشاد صاحب اس دور سے تعلق رکھتے تھے جب ہندوستانی موسیقی میں کلاسیکی موسیقی کا زیادہ اثر تھا۔ ہمیشہ اپنے فن میں تجربات کرنے کے لیے مشہور نوشاد نے اس دور میں کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو آسان انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا۔‘

جاوید اختر نے مزید کہا:’ان کی موسیقی میں نغمگی اور سر تال کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اگر میں ان کی کسی گیت یا کسی فلم پر بولنے بیٹھوں تو گھنٹوں بول سکتا ہوں کیونکہ ان کے فن کی کئی پہلو تھے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اس پرانے دور میں ایسے کئی سازوں کا استعمال کیا جنہیں اب جا کر آج کے موسیقار استعمال کرتے ہیں۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے ۔ان کا نغمہ: 'من تڑپت ہری درشن کو آج' جسے رفیع صاحب نے گایا، انڈین ثقافت کی مثال پیش کرتا ہے۔‘

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ انہیں اس کا افسوس ہے کہ جب انہوں نے لکھنا شروع کیا تب نوشاد صاحب نے تقریبا موسیقی کی دنیا سے ریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔ جاوید اختر کے مطابق آج کی موسیقی میں ایک خلاء سا ہے کیونکہ ’ان میں زندگی نہیں ہوتی جو نوشاد صاحب کی موسیقی کی خاصیت تھی۔ ایسا لگتا تھا وہ دل سے کام کرتے تھے۔ میں مانتا ہوں کہ زمانہ بدل رہا ہے کلچر تبدیل ہو رہا ہے لیکن نئے کی تلاش میں پرانے نایاب گوہروں کو کھو دینا ہماری حماقت ہے۔‘

نئے دور کے کامیاب موسیقار انو ملک نے نوشاد کے بارے میں بتایا کہ ’میں اس نقصان کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ان کی عظیم شخصیت کے سامنے میں بہت چھوٹا فنکار ہوں۔ میں نے ایسا فنکار نہیں دیکھا جو آرکسٹرا کے ہر ساز کو سمجھتا ہو، جو گیت کی سچویشن کو جانتا ہو، ہر گلوکار کی آواز کو پرکھ کر اسی انداز میں موسیقی دینا ایک عظیم فنکار کا ہی کمال ہو سکتا تھا۔‘


نوشاد صاحب کی وجہ سے میں نے نغمگی کو سمجھا، ان سے زبان اور تلفظ کی باریکیوں کو جانا: لتا منگیشکر
نوشاد صاحب نے اپنی علالت کے باوجود فلم تاج محل کی موسیقی دی۔انو نے اس پر کہا کہ ’ایسے فنکار کہاں ملیں گے جو بستر علالت سے کام کریں، دراصل ان کے جسم نے جواب دے دیا تھا لیکن ان کے اندر کا فنکار اسی طرح جوان تھا۔ میں اپنی زندگی میں اپنے والد سردار ملک کے ساتھ نوشاد صاحب سے ملا تھا اور ان سے اس ملاقات میں میں نے بہت کچھ سیکھ لیا۔‘

’ایسے لافانی موسیقی کے خالق کو میں دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔‘

کوئل جیسی دلکش آواز کی ملکہ لتا منگیشکر نے نوشاد صاحب کے ساتھ اپنی زندگی کی زیادہ تر نایاب نغمے دیے۔ انہوں نے نوشاد کے انتقال کو ذاتی نقصان قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ ’نوشاد صاحب کی وجہ سے میں نے نغمگی کو سمجھا، ان سے زبان اور تلفظ کی باریکیوں کو جانا۔ ان کی موسیقی میں انفرادیت تھی، انہوں نے کئی فنکاروں کو یاد گار نغمے دیے جس کے بعد وہ گلوکار بلندیوں پر پہنچ گئے۔

’نوشاد صاحب نے غزل، ٹھمری، کجری سے فلمی گیت بنائے جو آج کے موسیقار نہیں کر سکتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا میوزک لافانی نہیں ہوتا۔‘

موسیقار خیام نوشاد صاحب کے قریبی ساتھی تھے۔ ممبئی میں جدوجہد کا دور دونوں نے ساتھ گزارا۔ انہوں نے نوشاد صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ گھر والوں کی مخالفت کے باوجود نوشاد نے ہارمونیم سیکھا اور فلم پریم نگر سے انہوں نے اپنا فلمی کرئیر شروع کیا۔ اس کے بعد اپنی لگن اور محنت کی وجہ سے انہوں نے ایک اعلی مقام بنا لیا۔

خیام کے مطابق نوشاد ’دن رات مشقت کرتے تب ایک گیت بناتے، یہی وجہ تھی کہ ان کی موسیقی سیدھے سننے والے کے دل تک پہنچتی تھی۔ 1949 میں انہوں نے بابل اور 1955 میں اڑن کھٹولا کی موسیقی دی۔ مغل اعظم، گنگا جمنا جیسی بے شمار فلموں کی موسیقی کی وجہ سے ان فلموں کے نغمے یادگار گیت بن چکے ہیں۔

’میں سمجھتا ہوں نوشاد کا دور اور ان کی موسیقی فلمی دنیا کی موسیقی کی تاریخ ہیں اور ان کا دور سنہرا باب ہے۔‘

------------------

اس زمانے میں فلم انڈسٹری گجراتیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس وقت کے لوگ بہت شریف نیک اور ایماندار ہوا کرتے تھے جیسے فلمساز وجے بھٹ ، چندو لال شاہ ، ساگر مووی ٹون ، چنی بھائی شاہ۔ لوگ کہانیاں لکھتے تھے، سچی اور حقیقی کہانیاں۔ آج کی طرح فلموں کی نقل اور بے سر پیر کی مسالہ دار کہانیاں نہیں ہوتی تھیں۔


نوشاد نے متعدد معرکتہ الآراء فلموں کی موسیقی دی

محبوب گجرات کے ایک شہر بلیموریا سے ممبئی آئے تھے۔ ساگر مووی ٹون میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے تھے۔ فردون ایرانی سے اکثر کہتے کہ میں فلم ڈائریکٹر بننا چاہتا ہوں اور وہ بھی کہتے کہ’ ابے دستخط کرنی آتی ہے؟‘

ہمارے ساتھ یعقوب تھے انہوں نے محبوب کی ضد سے مجبور ہو کر کہا کہ راجستھان میں ولی خواجہ غریب نواز کا مزار مبارک ہے۔ سنا ہے وہاں دل سے مانگنے والوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں تو وہاں چلا جا اور جا کر ہوٹل میں قیام کرنے کے بجائے مزار کے صحن میں ہی سونا۔ یعقوب نے اسے اس وقت تیس روپے دیے۔ محبوب ایک ہفتہ بعد وہاں سے لوٹے تو اپنا قصہ سنایا کہ’رات کے قریباً ساڑھے تین بجے تھے۔ صحن میں ننگے فرش پر وہ سو رہے تھے کہ کسی نے ٹھوکر ماری کہ جا یہاں کیا ہے تیرا سب کچھ بمبئی میں ہے وہاں تجھے ملے گا۔میری آنکھ کھل گئی آس پاس کوئی نہیں تھا پھر خیال آیا یہ ضرور خواجہ صاحب ہوں گے سو میں بمبئی واپس آیا‘۔

ہم سب نے کہا کہ جلدی جا سیٹھ بہت ناراض ہے اور تجھے کام سے نہ نکال دے تو جا کر صرف معافی مانگ لے۔ محبوب جب وہاں پہنچے تو دیکھا سیٹھ ڈائریکٹر پر گرم ہو رہا تھا کہ ’تم اپنے کو کیا سمجھتا ہے میں ایک ایکسٹرا کو لے کر فلم بناؤں گا لیکن تجھ سے نہیں‘۔

اتنے میں محبوب وہاں پہنچے اور کہاں سیٹھ معاف کر دو میں اتنے روز غیر حاضر رہا۔ سیٹھ سمجھ نہیں پایا کہ یہ کون ہے اس نے پوچھا تو کون ہے ؟ محبوب نے بتایا وہ ایک ایکسٹرا ہے۔ سیٹھ نے اسی وقت ڈائریکٹر سے کہا کہ لو یہ ایکسٹرا مل گیا اور محبوب سے کہا’جا کوئی اسٹوری سوچ‘۔


نوشاد کو ملنے والے ایوارڈ اور ٹرافیاں

محبوب نے اس کی فلم ’Judgment of Allah‘ بنائی جو کامیاب ہوئی۔ سیٹھ خوش ہوا اور محبوب کو دوسری فلم وطن ملی۔ وہ بھی کامیاب ہوئی جس کے بعد محبوب نے اپنی پروڈکشن کمپنی بنا لی پھر اس فلمساز نے فلم انڈسٹری کو وہ فلمیں دیں جو آج کا کوئی فلمساز نہیں بنا سکتا۔ انمول گھڑی ، اعلان، انوکھی ادا ، انداز اور مدر انڈیا جیسی فلمیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

پرانے وقتوں میں لوگ شریف اور ایماندار ہوا کرتے تھے ۔میں بار بار اس کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ سب اب آپ کو اس فلم انڈسٹری میں نہیں ملے گا۔ لوگ اب دل سے نہیں دماغ سے اور روپیوں سے فلم بناتے ہیں ۔آپ نے فلمساز کاردار کا نام تو سنا ہو گا۔ میں نے ان کے ساتھ فلم انمول گھڑی میں کام کیا۔ انہیں فلم کی موسیقی بہت پسند آئی۔ فلم بہت کامیاب بھی ہوئی۔ انہوں نے خوش ہو کر سب کو دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا لیکن پھر فوراً ہی ملک کی تقسیم شروع ہو گئی۔ افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اور کاردار پاکستان چلے گئے اور میں یہاں رہ گیا۔ عرصہ بعد کاردار پاکستان سے واپس بھارت آئے اور دوبارہ کام شروع کیا۔ فلم’انداز‘ بنانی شروع کی لیکن اپنا وعدہ نہیں بھولے اور وہ دس ہزار روپے دیے۔

آج کے دور میں نہ تو ایسے لوگ ہیں اور نہ ہی ایسے نغمے اور موسیقی۔ اس وقت کے نغموں میں آتما ( روح ) ہوتی تھی۔ ہم بھارتیہ سنگیت پر مبنی گیت بناتے تھے ، آج غیر ملکی سنگیت کی نقل ہوتی ہے، اس لیے آج صرف شریر ( جسم ) رہ گیا ہے۔ اس وقت کے شعراء دل سے لکھتے تھے، آج زیادہ تر تک بندی کرتے ہیں۔ آرزو لکھنوی، شکیل بدایونی، کیدار شرما، مجروح سلطان پوری، خمار بارہ بنکوی جیسے شاعروں کے نغموں میں احساس ہوتا تھا۔ اس لیے لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں ۔

نورجہاں کے بارے میں کیا کہوں ؟ وہ اچھی فنکارہ کے ساتھ ایک بہت اچھی انسان تھیں۔ انہوں نے بہت سے یادگار نغمے گائے ہیں لیکن وہ اکثر اپنے پروگرام کا آغاز فلم انمول گھڑی کے میرے بنائے گیت’ آواز دے کہاں ہے؟‘ سے شروع کرتی تھیں۔

میں آج سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں نے ابھی تک اپنی زندگی کا سب سے اچھا گیت نہیں بنایا ۔وہ یادگار گیت جس کی مجھے خواہش ہے ۔ایک پیاس ابھی بھی باقی ہے، ایک بھوک جو ہمیشہ ایک فنکار کو ہوتی ہے۔ جس دن وہ مرگئی سمجھو فنکار مر گیا۔


نوشاد صاحب نےملکہ ترنم نورجہاں کی ایک ہی فلم ’انمول گھڑی‘ کی موسیقی ترتیب دی
بھارتی فلمی صنعت کے عظیم موسیقار نوشاد نے نورجہان کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
ایک خصوصی ملاقات میں اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دور تھا جب یادگار اور سدا بہار فلمیں بنتی تھیں اور عظیم فنکار ہوا کرتے تھے۔


نوشاد صاحب نےملکہ ترنم نورجہاں کی ایک ہی فلم ’انمول گھڑی‘ کی موسیقی ترتیب دی لیکن یہ فلم نوشاد کی موسیقی ملکہ ترنم نورجہاں کی اداکاری اور ان کی گلوکاری کی وجہ سے آج بھی بالی وڈ کی یادگار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

نوشاد صاحب کے مطابق فلم ’انمول گھڑی‘ کا گیت ’آواز دے کہاں ہے‘ نورجہاں کی خوبصورت آواز کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہے گا۔

’نورجہاں کو بھی اپنا وہی گیت بہت پسند تھا اور وہ اپنے ہر پروگرام کا آغاز اسی سے کیا کرتی تھیں۔وہ خود جتنی خوبصورت تھیں ان کی آواز اس سے زیادہ سریلی تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلی گئیں لیکن ہمیشہ وہاں سے فون کرتیں اور پھر رو پڑتی تھیں۔‘


تقسیم سے پہلے کے دور میں خاندان، انمول گھڑی اور جگنو نورجہان کی معرکۃ الاراء فلمیں کہلائیں
’یہ فلم انڈسٹری کا گولڈن جوبلی سال تھا اور اس سلسلے میں شان مکھانند ہال میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا تھا جس میں تمام پرانے فنکاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دلیپ کمار، پران، دیو آنند، راجکپور، شمشاد بیگم، سلیم درانی اور پھر پاکستان سے نورجہاں کو مدعو کیا گیا۔ہم انہیں ایئر پورٹ لینے گئے تھے۔ پروگرام میں ہر فنکار سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا اپنا گیت پیش کرے گا ۔سب فنکار آرہے تھے اور تالیوں کے ساتھ ان کا خیر مقدم ہو رہا تھا۔ نورجہاں کا نمبر آیا اور انہوں نے جیسے ہی ’آواز دے کہاں ہے‘ گنگنایا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ان کے احترام میں لوگ کھڑے ہو گئے۔اتنا پیار اور اتنی عزت افزائی دیکھ کر نورجہاں کی آنکھیں بھر آئیں۔

نورجہاں چند روز ممبئی میں رہیں اور انہوں نے ہم سے اپنا وہ گھر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس میں وہ تقسیم سے پہلے رہتی تھیں۔ ہم سب ساتھ گئے۔ چوپاٹی کا علاقہ تھا۔اس گھر میں پہنچ کر اس گھر سے وابستہ نورجہاں کی تمام یادیں تازہ ہو گئیں۔ انہوں نے گھر کا ایک ایک کونہ پکڑا اور رونے لگیں۔ دراصل ایک تو فنکار جذباتی ہوتا ہے اور دوسرے انسان اپنا بچپن اور اس سے جڑی یادیں کبھی بھول نہیں پاتا۔ یہی نورجہاں کے ساتھ ہوا۔‘

’وہاں سے ہم سب دلیپ کمار کے گھر گئے۔نورجہاں نے وہاں پہنچ کر کہا کہ وہ آج اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر کھلائیں گی۔ پھر اس روز انہوں نے کچن سنبھالا۔ کھانا تیار ہوا۔وہ شام ہمارے لئے اور نورجہاں کے لئے ایک یادگار شام تھی۔ عظیم فنکاروں اور اچھے انسانوں کے ساتھ گزارے لمحے وقت کے حسین لمحے بن جاتے ہیں۔اب یہاں نہ ایسے انسان ہیں اور نہ ہی ایسے فنکار۔
------------------------------
‘بشکریہ بی بی سی ‘
 

الف عین

لائبریرین
بیٹی تم نے مجھے رہلا دیا۔
یہ الفاظ جواہر لال نہرو نے لتا منگیشکر سے کہےھے جب اس نے ان کے سامنے ’اے میرے وطن کے لوگو‘ گایا تھا۔
آج تم نے نوشاد کی مزید باتیں کر کے واقعی مجھے بھی رلا دیا۔
 

F@rzana

محفلین
اور آپ نے جو میری آنکھیں موتیوں سے بھر دی ہیں‘بیٹی‘ کہہ کر :cry:
کیا میں آپ کو اپنا‘بابا جانی‘ پکار سکتی ہوں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
نوشاد صاحب سے اتنی تفصیلی واقفیت کرانے کا شکریہ۔ میں ان کی فلموں اور گانوں سے ہوش سنبھالنے سے واقف تھا مگر ان کے تخلیق کردہ فنکار کا تعارف کرانے پر شکریہ۔
ویسے ایک سطر سمجھ نہیں آئی۔ اس کی وضاحت کر دیں۔
“نوشاد صاحب نے غزل، ٹھمری، کجری سے فلمی گیت بنائے جو آج کے موسیقار نہیں کر سکتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا میوزک لافانی نہیں ہوتا۔‘ “
قیصرانی
 

F@rzana

محفلین
آپ کتنے عقلمند ہیں، ٹائپنگ کی غلطیوں کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں :lol:
 

F@rzana

محفلین
آپ نے تو مجھے شمشاد بھائی سے متفق ہونے پر مجبور کردیا ہے یعنی آپ اپنے دستخط میں ‘معذرت‘ اور ‘شکریہ‘ کے الفاظ شامل کر لیجئے۔

:lol:
 

قیصرانی

لائبریرین
واقعی آپ کا بھی جواب نہیں۔ دونوں ایک ساتھ؟ویسے شمشاد بھائی نے ابھی تک مہروں کا جواب نہیں دیا۔
قیصرانی
 

الف عین

لائبریرین
F@rzana نے کہا:
اور آپ نے جو میری آنکھیں موتیوں سے بھر دی ہیں‘بیٹی‘ کہہ کر :cry:
کیا میں آپ کو اپنا‘بابا جانی‘ پکار سکتی ہوں؟
یقیناً بیٹا۔ میں تو زیادہ تر بیٹیوں کو بھی بیٹا کہتا ہوں، اور ان آنسؤں کو تو میں خزینہ سمجھتا ہوں۔ ع جو ایک قطرۂ شبنم رہا ہے آنکھوں میں۔ بلکہ ہمارا ہی ایک مصرعہ اور ہے،، وہ ماورائی گلِ تر رہا ہے آنکھوں میں۔
 

الف عین

لائبریرین
سہگل کا خیال تھا کہ وہ بغیر شراب کے گا ہی نہیں سکتے۔ فلم شاہجہاں کے لئے نوشاد انکو بغیر شراب کے گانے کے لئے کہہ رہے تھے۔ بمشکل وہ راضی ہوئے اور ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ گا دیا اور کہنے لگے کہ سن لو اتنا اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن جب یہ گیت بجایا گیا تو سب لوگ پر نم ہو گئے، خاص کر جب سہگل کی آواز گونجی۔ ’ارماں کے بہے آنسو، حسرت نے بھری آہیں۔‘
اس پر ایک بچپن کی مزے دار بات یاد آ گئی۔ میں اس گیت کے اس مصرعے کو اس طرح گاتا تھا ’ ہر ماں کے بہے آنسو، حضرت نے بھری آہیں!!!
 
Top