F@rzana
محفلین
شکریہ اعجاز صاحب ، دنیائے موسیقی کے شہنشاہ کو جتنا خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے، مزید تفصیل حاضر خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈین فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار نوشاد علی جمعہ کی صبح نو بجے ممبئی میں انتقال کرگئے۔ نوشاد دو برسوں سے علیل تھے اور انہیں دل کا عارضہ بھی تھا۔
نوشاد کے بڑے بیٹے رحمٰن نوشاد نے بتایا کہ پندرہ روز قبل انہوں نے دل میں درد کی شکایت کی اور انہیں نانا وتی ہسپتال میں علاج کے لیئے داخل کیا گیا تھا۔
جمعہ کی صبح انہیں دل کا زبردست دورہ پڑا جو ان کے لیئے جان لیوا ثابت ہوا۔ رحمٰن کے مطابق نوشاد کی تدفین جمعہ کی شام جوہو کے قبرستان میں ہوگی۔ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔
نوشاد علی کی پیدائش پچیس دسمبر 1919 کو ہوئی تھی۔ سن 1937 میں وہ ممبئی کام کی تلاش میں آئے تھے۔ان کی موسیقی کو انڈین فلم انڈسٹری میں ایک بیش بہا خزانے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
سڑسٹھ فلموں میں اپنی موسیقی کا جادو جگانے والے موسیقار اعظم کی آخری فلم اکبر خان کی تاج محل تھی اور ان کی موسیقی کی تعریف میں وزیراعظم ہند منموہن سنگھ نے ایک توصیفی سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور سنگیت اکیڈمی ایوارڈ مل چکا تھا۔ حکومت نے انہیں پدم بھوشن کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔
تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی
دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔
شاہ جہاں، دل لگی، دلاری، انمول گھڑی، مغل اعظم، بیجو باؤرا، انداز، آن، امر، داستان، جیسی فلموں کے دل کو چھو لینے والی موسیقی اور ان کے نغموں کو برصغیر کے عوام شاید کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ حال ہی میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں نوشاد نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ابھی انہیں اپنی زندگی کی بہترین موسیقی کی تخلیق کرنی باقی ہے۔
گزشتہ سال اپنی ستاسیویں سالگرہ کے موقع پر نوشاد نے ایک خصوصی انٹرویو میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا: ’میں 1937 میں بمبئی (ممبئی) آیا۔ جیب خالی تھی، کام نہیں تھا، رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن دل میں جذبہ، لگن اور حوصلہ تھا۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ کچھ بننا چاہتا ہوں تو مدد کر۔
’دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔ پھر وہی صبح اور وہی کام کی تلاش۔ مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں پیانو بجانے کا کام ملا اور پھر راہ کھلتی گئی۔ میوزک ڈائریکٹر کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
’سولہ برس بعد میری فلم بیجو باؤرا بے حد کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغموں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی براڈوے تھیٹر میں فلم کا پریمئیر تھا۔ فلمساز وجے بھٹ ساتھ میں تھے۔ میں نے تھیٹر سے سامنے کی فٹ پاتھ کو دیکھا جہاں میں سویا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجے بھٹ نے حیرت ظاہر کی کہا’یہ خوشی کا موقع ہے اور تم رو رہے ہو ؟ میں نے کہا اس فٹ پاتھ کو پار کر کے یہاں تک پہنچنے میں مجھے سولہ سال لگ گئے۔‘
ِٓ‘بشکریہ بی بی سی‘
رخصت ہوا وہ چاند اور ستارے ڈوب گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈین فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار نوشاد علی جمعہ کی صبح نو بجے ممبئی میں انتقال کرگئے۔ نوشاد دو برسوں سے علیل تھے اور انہیں دل کا عارضہ بھی تھا۔
نوشاد کے بڑے بیٹے رحمٰن نوشاد نے بتایا کہ پندرہ روز قبل انہوں نے دل میں درد کی شکایت کی اور انہیں نانا وتی ہسپتال میں علاج کے لیئے داخل کیا گیا تھا۔
جمعہ کی صبح انہیں دل کا زبردست دورہ پڑا جو ان کے لیئے جان لیوا ثابت ہوا۔ رحمٰن کے مطابق نوشاد کی تدفین جمعہ کی شام جوہو کے قبرستان میں ہوگی۔ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔
نوشاد علی کی پیدائش پچیس دسمبر 1919 کو ہوئی تھی۔ سن 1937 میں وہ ممبئی کام کی تلاش میں آئے تھے۔ان کی موسیقی کو انڈین فلم انڈسٹری میں ایک بیش بہا خزانے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
سڑسٹھ فلموں میں اپنی موسیقی کا جادو جگانے والے موسیقار اعظم کی آخری فلم اکبر خان کی تاج محل تھی اور ان کی موسیقی کی تعریف میں وزیراعظم ہند منموہن سنگھ نے ایک توصیفی سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور سنگیت اکیڈمی ایوارڈ مل چکا تھا۔ حکومت نے انہیں پدم بھوشن کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔
تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی
دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔
شاہ جہاں، دل لگی، دلاری، انمول گھڑی، مغل اعظم، بیجو باؤرا، انداز، آن، امر، داستان، جیسی فلموں کے دل کو چھو لینے والی موسیقی اور ان کے نغموں کو برصغیر کے عوام شاید کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ حال ہی میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں نوشاد نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ابھی انہیں اپنی زندگی کی بہترین موسیقی کی تخلیق کرنی باقی ہے۔
گزشتہ سال اپنی ستاسیویں سالگرہ کے موقع پر نوشاد نے ایک خصوصی انٹرویو میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا: ’میں 1937 میں بمبئی (ممبئی) آیا۔ جیب خالی تھی، کام نہیں تھا، رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن دل میں جذبہ، لگن اور حوصلہ تھا۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ کچھ بننا چاہتا ہوں تو مدد کر۔
’دادر علاقہ میں خداداد سرکل تھا۔ پہلے وہاں براڈوے سنیما تھا جو اب نہیں ہے۔ اسی کے فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتا تھا۔ وہاں اس لیئے سوتا تھا کیونکہ براڈوے تھیٹر کی روشنی فٹ پاتھ تک آتی تھی۔ اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے نیند آجاتی۔ پھر وہی صبح اور وہی کام کی تلاش۔ مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں پیانو بجانے کا کام ملا اور پھر راہ کھلتی گئی۔ میوزک ڈائریکٹر کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
’سولہ برس بعد میری فلم بیجو باؤرا بے حد کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغموں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی براڈوے تھیٹر میں فلم کا پریمئیر تھا۔ فلمساز وجے بھٹ ساتھ میں تھے۔ میں نے تھیٹر سے سامنے کی فٹ پاتھ کو دیکھا جہاں میں سویا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجے بھٹ نے حیرت ظاہر کی کہا’یہ خوشی کا موقع ہے اور تم رو رہے ہو ؟ میں نے کہا اس فٹ پاتھ کو پار کر کے یہاں تک پہنچنے میں مجھے سولہ سال لگ گئے۔‘
ِٓ‘بشکریہ بی بی سی‘
رخصت ہوا وہ چاند اور ستارے ڈوب گئے