عمر شرجیل چوہدری
محفلین
یہ اکیسویں صدی کا آغاز تھا اور ٹیکنالوجی دن بدن اپنے کمالات دکھاتے ہوئے آسمان کی بلندی کو چھو رہی تھی ٹیلی-فون اس دور کی سب سے عظیم ایجاد تھی.
کافی حد تک لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹیلی-فون کو جگہ دے دی سوائے ان لوگوں کے جو بہت غریب تھے.
حامد نے جلدی جلدی ٹیلی-فون پر نمبر ڈائل کیا وہ اس وقت اپنے دوستوں کے پاس جایا کرتا ہے آج بھی وہ اسی تیاری میں تھا.
بیٹا حامد، حامد
جی اماں
حامد
جی آیا اماں! آیا
جی بتائیں
یہ ایک نمبر تو ملانا تمہاری خالہ کا ہے..., اماں ڈائری کھول کر پکڑا رہی تھی جہاں خالہ کا ٹیلی فون نمبر درج تھا
کونسی خالہ، خالہ زہرا
ہاں
لائیے. مجھے دیجیے نمبر
جلدی جلدی نمر ڈائل کر کے حامد نے ریسیور اپنے کان کے قریب کر لیا.
دوسری طرف سے فون اٹھایا گیا
ہیلو،، فون کے دوسری طرف سے ایک خوبصورت اور میٹھی آواز والی لڑکی بول رہی تھی،
ہیلو، حامد کا دل ایک بار زور سے دھڑکا اور اسکا چہرا سرخی نما ہو گیا اسنے سامنے بیٹھی اماں کی طرف دیکھا اور کھسیانا ہو گیا
کون. دوسری طرف سے آواز آئی
یہ انداز اس قدر دل آمیز تھا کہ آواز کانوں سے اتر کر سیدھی دل پر جا لگی تھی
جی یہ خالہ زہرا سے بات ہو سکتی ہے، میں حامد بول رہا ہوں
خالہ زہرا؟ کون زہرا، کونسی خالہ؟ لڑکی نے حیرانی کے ساتھ سوالیہ اور انکار کی کیفیت میں کہا
یہ خالہ زہرا کا نمبر نہیں ہے؟ حامد نے ڈرتے ہوئے پوچھا
نہیں، شائد آپ نے غلط نمبر ڈائل کر لیا ہے. یہ آواز اتنی دلنشین تھی کہ ایک ایک لفظ حامد کے دل پر وار کر رہا تھا اور حامد اس آواز میں اتنا کھو گیا کہ اس کو سامنے بیٹھی اماں کا کچھ دھیان نہیں رہا.
اماں نے ایک دو بار پوچھا بھی کہ کون ہے کیا ہوا، لیکن حامد کے کان اس آواز کو سننے کی حالت میں نہ تھے.
حامد نے سہمے ہوئے انداز میں پوچھا آپ کون؟
میں؟ میں جو بھی ہوں لیکن آپکی خالہ نہیں ہوں. فون بند کرو...، ورنہ میں ریسیور رکھنے لگی ہوں.
فون بند کرو کے جملہ نے حامد کے دل پر اس طرح سے ضرب لگائی کہ جیسے اس نے اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہو اور آگے سے صاف انکار سننے کو ملا ہو.
حامد کچھ بولنے ہی والا تھا کہ دوسری طرف سی کال کٹ گئی.
حامد کو فون بند ہونے کا انتہائی رنج تھا وہ اس خوبصورت آواز کو کچھ دیر اور سننا چاہتا تھا. وہ آواز جس کا جادو حامد کے دل و دماغ پر اپنا وار کر چکا تھا.
اس نے ڈائری کھولی جہاں بہت سارے فون نمبر لکھے تھے خالہ کا نمبر ٹیلی فون پر موجود نمبر کے ساتھ ملایا تو ایک ہندسہ غلط درج ہوا تھا سات کی جگہ ایک کا ہندسہ غلط ڈائل ہوا تھا وہ شائد جلدی سے خالہ کو کو ٹیلی فون ملا کر اماں کے ہاتھ ریسیور دیتا اور دوستوں سے ملنے چلا جاتا،
اب اس نے افسردگی کے عالم میں نمبر دوبارہ ڈائل کیا دوسری طرف سے ہیلو کی آواز آئی جس میں پہلے جیسی خوبصورتی نہ تھی کہ دل تک اتر جاتی، فون اماں کو دیا اور خود اس آواز کی چاشنی کا مزہ لیتے رہا. وہ اس لڑکی کے بولے گئے ایک ایک لفظ کو اپنے دل میں دہرا رہا تھا اور اس آواز میں گم ہو گیا، اس کو اب دوستوں سے ملنے جانے کا بالکل خیال نہیں تھا.
اماں پورے پچیس منٹ فون پر بات کرتی رہی اس دوران وہ اسی آواز میں کھویا رہا.
فون بند ہوا
حامد نے اسی لڑکی کا نمبر دوبارہ ملایا
مگر اس بار اسکا فون دوسری طرف سے بند کردیا گیا تھا.
اس میں اب دوبارہ نمبر ملانے کی ہمت نہ رہی تھی
جانے ہی کتنے دن گزر گئے، حامد اپنے دوستوں سے ملنے نہیں گیا تھا.
وہ اس آواز کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا.
کافی حد تک لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹیلی-فون کو جگہ دے دی سوائے ان لوگوں کے جو بہت غریب تھے.
حامد نے جلدی جلدی ٹیلی-فون پر نمبر ڈائل کیا وہ اس وقت اپنے دوستوں کے پاس جایا کرتا ہے آج بھی وہ اسی تیاری میں تھا.
بیٹا حامد، حامد
جی اماں
حامد
جی آیا اماں! آیا
جی بتائیں
یہ ایک نمبر تو ملانا تمہاری خالہ کا ہے..., اماں ڈائری کھول کر پکڑا رہی تھی جہاں خالہ کا ٹیلی فون نمبر درج تھا
کونسی خالہ، خالہ زہرا
ہاں
لائیے. مجھے دیجیے نمبر
جلدی جلدی نمر ڈائل کر کے حامد نے ریسیور اپنے کان کے قریب کر لیا.
دوسری طرف سے فون اٹھایا گیا
ہیلو،، فون کے دوسری طرف سے ایک خوبصورت اور میٹھی آواز والی لڑکی بول رہی تھی،
ہیلو، حامد کا دل ایک بار زور سے دھڑکا اور اسکا چہرا سرخی نما ہو گیا اسنے سامنے بیٹھی اماں کی طرف دیکھا اور کھسیانا ہو گیا
کون. دوسری طرف سے آواز آئی
یہ انداز اس قدر دل آمیز تھا کہ آواز کانوں سے اتر کر سیدھی دل پر جا لگی تھی
جی یہ خالہ زہرا سے بات ہو سکتی ہے، میں حامد بول رہا ہوں
خالہ زہرا؟ کون زہرا، کونسی خالہ؟ لڑکی نے حیرانی کے ساتھ سوالیہ اور انکار کی کیفیت میں کہا
یہ خالہ زہرا کا نمبر نہیں ہے؟ حامد نے ڈرتے ہوئے پوچھا
نہیں، شائد آپ نے غلط نمبر ڈائل کر لیا ہے. یہ آواز اتنی دلنشین تھی کہ ایک ایک لفظ حامد کے دل پر وار کر رہا تھا اور حامد اس آواز میں اتنا کھو گیا کہ اس کو سامنے بیٹھی اماں کا کچھ دھیان نہیں رہا.
اماں نے ایک دو بار پوچھا بھی کہ کون ہے کیا ہوا، لیکن حامد کے کان اس آواز کو سننے کی حالت میں نہ تھے.
حامد نے سہمے ہوئے انداز میں پوچھا آپ کون؟
میں؟ میں جو بھی ہوں لیکن آپکی خالہ نہیں ہوں. فون بند کرو...، ورنہ میں ریسیور رکھنے لگی ہوں.
فون بند کرو کے جملہ نے حامد کے دل پر اس طرح سے ضرب لگائی کہ جیسے اس نے اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہو اور آگے سے صاف انکار سننے کو ملا ہو.
حامد کچھ بولنے ہی والا تھا کہ دوسری طرف سی کال کٹ گئی.
حامد کو فون بند ہونے کا انتہائی رنج تھا وہ اس خوبصورت آواز کو کچھ دیر اور سننا چاہتا تھا. وہ آواز جس کا جادو حامد کے دل و دماغ پر اپنا وار کر چکا تھا.
اس نے ڈائری کھولی جہاں بہت سارے فون نمبر لکھے تھے خالہ کا نمبر ٹیلی فون پر موجود نمبر کے ساتھ ملایا تو ایک ہندسہ غلط درج ہوا تھا سات کی جگہ ایک کا ہندسہ غلط ڈائل ہوا تھا وہ شائد جلدی سے خالہ کو کو ٹیلی فون ملا کر اماں کے ہاتھ ریسیور دیتا اور دوستوں سے ملنے چلا جاتا،
اب اس نے افسردگی کے عالم میں نمبر دوبارہ ڈائل کیا دوسری طرف سے ہیلو کی آواز آئی جس میں پہلے جیسی خوبصورتی نہ تھی کہ دل تک اتر جاتی، فون اماں کو دیا اور خود اس آواز کی چاشنی کا مزہ لیتے رہا. وہ اس لڑکی کے بولے گئے ایک ایک لفظ کو اپنے دل میں دہرا رہا تھا اور اس آواز میں گم ہو گیا، اس کو اب دوستوں سے ملنے جانے کا بالکل خیال نہیں تھا.
اماں پورے پچیس منٹ فون پر بات کرتی رہی اس دوران وہ اسی آواز میں کھویا رہا.
فون بند ہوا
حامد نے اسی لڑکی کا نمبر دوبارہ ملایا
مگر اس بار اسکا فون دوسری طرف سے بند کردیا گیا تھا.
اس میں اب دوبارہ نمبر ملانے کی ہمت نہ رہی تھی
جانے ہی کتنے دن گزر گئے، حامد اپنے دوستوں سے ملنے نہیں گیا تھا.
وہ اس آواز کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا.