محمداحمد
لائبریرین
کچھ عرصہ قبل ایک طریق یہ شروع ہوا تھا کہ سڑکوں پر ہر کلو دو کلو میٹر کے فاصلے پر کچھ مذہبی جماعتوں نے اپنے نمائندے چندہ جمع کرنے کے لیے بٹھا دیئے تھے۔ یہ لوگ ایک چھوٹی سی میز کرسی یا کاؤنٹر جو بھی آپ اسے کہیں، لے کر بیٹھ جاتے اور ایک آڈیو ریکارڈ پر کسی مولانا صاحب کی تقریر چلا دی جاتی ۔جس میں صرف صدقات کی اہمیت پر بات ہوتی اور عطیات و صدقات دینےکی ترغیب دی جاتی۔ جو صاحب اس نوکری پر مامور ہو تے وہ اپنی کرسی پر بیٹھ جاتے ۔ اُن کے سامنے میز پر عطیات جمع کرنے کے لئے شفاف پلاسٹک سے بنا ایک روایتی صندوق رکھا ہوتا، اور لوگ اُس میں چندہ ڈال کر چلے جاتے۔ ان صاحب کا اس سے زیادہ کوئی کام نہیں تھا کہ وہ وہاں موجود رہیں اور معاملات دیکھتے رہیں۔
میں سوچا کرتا کہ جب ہر دو کلو میٹر بعد ایسا ہی ایک شخص چندہ جمع کرنے پر مامور کر دیا گیا ہے تو ان لوگوں کے وقت کا کتنا حرج ہوتا ہوگا۔ تاہم کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ان لوگوں کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے یا شاید چندے میں سے کمیشن بھی ملتا ہے، واللہ اعلم! اگر تنخواہ ملتی بھی ہو تب بھی ایسے لوگ بیٹھے بیٹھے بالکل ہی ناکارہ ہو جاتے ہوں گے، جب کہ اگر کوئی اور نوکری ہو تو یہ لوگ زیادہ بار آور کام کر سکتے ہیں۔ خیر یہ تو میری ذاتی رائے تھی اور یہ رائے بالکل عمومی تھی اور اس میں محض فنڈز جمع کرنے کے اس طریقے پر کلام مقصود تھا۔
بہرکیف ، قصہ مختصر لگتا یہ ہے کہ اب میری سُن لی گئی ہے اور کچھ جگہوں پر آٹو میٹک چندہ کلیکشن مشینیں نظر آ رہی ہیں۔ یہ سیٹ اپ بالکل ویسا ہی ہے بس انسانی شمولیت اس میں سے حذف کر دی گئی ہے۔ اب ایک لوہے کے چھوٹے سے کاؤنٹر میں چندہ صندوق فکس کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے نچلے خانے میں اسپیکر رکھ کر مذکورہ ٹیپ چلا دی گئی ہے۔ صندوق کو زنجیروں کے ساتھ مقفل کر دیا گیا ہے۔ یعنی صندوق موجود ہے، چندے کے لئے وعظ جاری ہے اور عوام با آسانی اپنے عطیات و صدقات چندے کے صندوقوں میں ڈال سکتی ہے۔ اب ایک یا دو لوگ ہی ہر پوائنٹ پر پہنچ کر صبح صبح ٹیپ وغیرہ چلانے کا کام کر سکتے ہیں اور پھر اسی طرح شام کو یہ سیٹ اپ بند کیا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ کہیں کہ اس آٹومیشن سے کئی لوگوں کی نوکریاں چلی جائیں گی جو کہ ایک منفی پہلو ہے۔ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو ہوتا آیا ہے کہ جہاں انتظام مشینیں سنبھال لیتی ہیں وہاں انسانوں کی نوکری ختم ہو جاتی ہے۔ تاہم ہمیں اُمید ہے کہ اگر یہ سسٹم سب جگہ نافذ کر دیا جائے تو بہت سے لوگ کوئی اور بہتر کام کرنے کےلئے آزاد ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ آٹومیشن دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہ بات البتہ الگ ہے کہ بہت جلد یہ آٹومیشن اور آرٹیفشل انٹیلجنس بہت سے انسانوں کے روزگار کی دشمن بن جائیں گی۔ بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں میں تو یہ کام شروع بھی ہو چکا ہے۔
تاہم اپنے تجربات سے سیکھنا اور اُن میں بہتری لانے کی کوشش کرتے رہنا بہت اچھی بات ہے۔
پسِ تحریر: یہ تحریر محض طریقہ کار کے ارتقاء سے متعلق ہے اور اس میں کسی شخص یا تنظیم کی کوئی تعریف یا تنقیص مقصود نہیں ہے۔
میں سوچا کرتا کہ جب ہر دو کلو میٹر بعد ایسا ہی ایک شخص چندہ جمع کرنے پر مامور کر دیا گیا ہے تو ان لوگوں کے وقت کا کتنا حرج ہوتا ہوگا۔ تاہم کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ان لوگوں کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے یا شاید چندے میں سے کمیشن بھی ملتا ہے، واللہ اعلم! اگر تنخواہ ملتی بھی ہو تب بھی ایسے لوگ بیٹھے بیٹھے بالکل ہی ناکارہ ہو جاتے ہوں گے، جب کہ اگر کوئی اور نوکری ہو تو یہ لوگ زیادہ بار آور کام کر سکتے ہیں۔ خیر یہ تو میری ذاتی رائے تھی اور یہ رائے بالکل عمومی تھی اور اس میں محض فنڈز جمع کرنے کے اس طریقے پر کلام مقصود تھا۔
بہرکیف ، قصہ مختصر لگتا یہ ہے کہ اب میری سُن لی گئی ہے اور کچھ جگہوں پر آٹو میٹک چندہ کلیکشن مشینیں نظر آ رہی ہیں۔ یہ سیٹ اپ بالکل ویسا ہی ہے بس انسانی شمولیت اس میں سے حذف کر دی گئی ہے۔ اب ایک لوہے کے چھوٹے سے کاؤنٹر میں چندہ صندوق فکس کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے نچلے خانے میں اسپیکر رکھ کر مذکورہ ٹیپ چلا دی گئی ہے۔ صندوق کو زنجیروں کے ساتھ مقفل کر دیا گیا ہے۔ یعنی صندوق موجود ہے، چندے کے لئے وعظ جاری ہے اور عوام با آسانی اپنے عطیات و صدقات چندے کے صندوقوں میں ڈال سکتی ہے۔ اب ایک یا دو لوگ ہی ہر پوائنٹ پر پہنچ کر صبح صبح ٹیپ وغیرہ چلانے کا کام کر سکتے ہیں اور پھر اسی طرح شام کو یہ سیٹ اپ بند کیا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ کہیں کہ اس آٹومیشن سے کئی لوگوں کی نوکریاں چلی جائیں گی جو کہ ایک منفی پہلو ہے۔ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو ہوتا آیا ہے کہ جہاں انتظام مشینیں سنبھال لیتی ہیں وہاں انسانوں کی نوکری ختم ہو جاتی ہے۔ تاہم ہمیں اُمید ہے کہ اگر یہ سسٹم سب جگہ نافذ کر دیا جائے تو بہت سے لوگ کوئی اور بہتر کام کرنے کےلئے آزاد ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ آٹومیشن دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہ بات البتہ الگ ہے کہ بہت جلد یہ آٹومیشن اور آرٹیفشل انٹیلجنس بہت سے انسانوں کے روزگار کی دشمن بن جائیں گی۔ بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں میں تو یہ کام شروع بھی ہو چکا ہے۔
تاہم اپنے تجربات سے سیکھنا اور اُن میں بہتری لانے کی کوشش کرتے رہنا بہت اچھی بات ہے۔
پسِ تحریر: یہ تحریر محض طریقہ کار کے ارتقاء سے متعلق ہے اور اس میں کسی شخص یا تنظیم کی کوئی تعریف یا تنقیص مقصود نہیں ہے۔
آخری تدوین: