رانا
محفلین
بھارت کے ایک معروف قلمکار راجہ مہدی علی خان نے ایک ادبی ماہنامے کی فرمائش پر "میرے دیئے ہوئے آٹو گراف" کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس کا کچھ حصہ لاہور کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا اس میں سے کچھ پیش خدمت ہے۔
وزیر آغا (ایڈیٹر ادبی دنیا)
جی میں آتا ہے لگا دوں آگ میں لاہور کو
پھر خیال آتا ہے آغا بے وطن ہوجائے گا
ایک مولوی صاحب کو (ستارہ مسجد بمبئی)
جاؤ گے دوزخ یا جنت میں پوچھ لو بات ذرا سی ہے
اللہ میاں کے ٹیلیفون کا نمبر سات سو چھیاسی ہے
ایک استانی کو (بمبئی کے ایک پرائمری اسکول کا بالاخانہ)
تجھ بے قسمت میں مری صورت طفل مکتب
تھا لکھا لات کے پڑتے ہی خفا ہوجانا
ایک شریر بچے کو (ڈیرہ دون کا ایک پرائمری اسکول)
قناعت نہ کر ایک مالی سے پٹ کر
چمن اور بھی باغباں اور بھی ہیں
ایک قیدی کو (آرتھر روڈ جیل بمبئی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کہ چوری تو نے کی ہے
ایک برطرف شدہ ملازم کو (مقام بمبئی)
مہرباں پو کے بلالوں گا میں چاہوں جس وقت
تو گیا وقت نہیں ہے کہ پھر آبھی نہ سکے
ایک شور مچانے والے بچے کو (مقام بمبئی میرا گھر)
ارے بھاگ جا میرے کمرے سے ظالم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
ایک ڈاکٹر کو (مقام بمبئی کا ایک قبرستان)
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اپنا کام چلانے کوکیوں اس کا کام تمام کیا
ایک چلبلی آیا کو (مقام بمبئی ایک دوست کا گھر)
سرہانے بچے کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
ایک مسلمان ایکٹریس کو (مقام بمبئی)
ایک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تیری مسلم جوانی جوش پر آئی ہوئی
ایک خوبصورت نرس کو (بمبئی کنگ ایڈورڈ ہسپتال)
تیرے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
کیوں سمجھتی ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے
وزیر آغا (ایڈیٹر ادبی دنیا)
جی میں آتا ہے لگا دوں آگ میں لاہور کو
پھر خیال آتا ہے آغا بے وطن ہوجائے گا
ایک مولوی صاحب کو (ستارہ مسجد بمبئی)
جاؤ گے دوزخ یا جنت میں پوچھ لو بات ذرا سی ہے
اللہ میاں کے ٹیلیفون کا نمبر سات سو چھیاسی ہے
ایک استانی کو (بمبئی کے ایک پرائمری اسکول کا بالاخانہ)
تجھ بے قسمت میں مری صورت طفل مکتب
تھا لکھا لات کے پڑتے ہی خفا ہوجانا
ایک شریر بچے کو (ڈیرہ دون کا ایک پرائمری اسکول)
قناعت نہ کر ایک مالی سے پٹ کر
چمن اور بھی باغباں اور بھی ہیں
ایک قیدی کو (آرتھر روڈ جیل بمبئی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کہ چوری تو نے کی ہے
ایک برطرف شدہ ملازم کو (مقام بمبئی)
مہرباں پو کے بلالوں گا میں چاہوں جس وقت
تو گیا وقت نہیں ہے کہ پھر آبھی نہ سکے
ایک شور مچانے والے بچے کو (مقام بمبئی میرا گھر)
ارے بھاگ جا میرے کمرے سے ظالم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
ایک ڈاکٹر کو (مقام بمبئی کا ایک قبرستان)
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اپنا کام چلانے کوکیوں اس کا کام تمام کیا
ایک چلبلی آیا کو (مقام بمبئی ایک دوست کا گھر)
سرہانے بچے کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
ایک مسلمان ایکٹریس کو (مقام بمبئی)
ایک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تیری مسلم جوانی جوش پر آئی ہوئی
ایک خوبصورت نرس کو (بمبئی کنگ ایڈورڈ ہسپتال)
تیرے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
کیوں سمجھتی ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے