٭سید سجاد حیدر پاکستان ایئر فورس کے ان مایہ ناز فائٹر ہوا بازوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے بل بوتے پر امتیازی اعزازات حاصل کیے اور 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی ایئر فورس کو شدید نقصان پہنچایا اور دشمن پر پی اے ایف کی دھاک بٹھا دی۔ سید سجاد حیدر نے دسمبر1951ء میں ایئر فورس کیڈٹ کے طور پر پاکستان ایئر فورس کے تیرھویں جنرل ڈیوٹی پائلٹ کورس میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھیوں میں سرفراز رفیقی، شمیم احمد، مسعود خان، ملک سہیل، محمود چونڑا، محمد اقبال، ارشد چودھری اور وقار عظیم شامل تھے۔ ان میں سے کچھ ایئر فورس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے۔ سجاد حیدر پاکستان ائیر فورس میں فائٹر پائلٹ کے طور
پر 28سال کی طویل خدمات کے بعد1980ء میں ایئر کموڈور کے طور پر ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ۔ انھوں نے اپنی اعلیٰ خدمات کے صلے میں ستارہ جرأت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ ایئر فورس سے سبکدوش ہونے کے25سال بعد سجاد حیدر نے اپنی ملازمت کی یادداشتوں کو ترتیب دینے کا کام شروع کیا۔ضروری دستاویزات کو جمع کیا اور کئی سال کی محنت کے بعد2010ء میں ان کی کتاب ’’شاہین کی پرواز‘‘ (The Flight of the Falcon)انگریزی زبان میں منظر عام پر آگئی۔ کتاب مصنف کی پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اور تربیت، ذاتی جذبات اور عزائم، ہم عصرانہ
رقابت اور سازشوں، ایئر فورس کے ادارے کی خوبیوں اور خامیوں، 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ایئر فورس کی کارکردگی پر مشتمل ایک دلچسپ کہانی اور مستند تحقیقی مقالے کی حیثیت رکھتی ہے جو عام قاری اور فضائیہ کے جنگجو ہوا بازوں کے لیے بے حد دلچسپی کی حامل ہے اور پاکستان ایئر فورس کی دفاعی قابلیت کا تاریخی جائزہ بھی پیش کرتی ہے۔
٭پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کی تاریخ آپریشن جبرالٹر اور 1965ء کی جنگ سے شروع ہوتی ہے۔ اس غیر معمولی تصادم نے دونوں طرف کے عوام میں غیض و غضب اور نفرت کو ہوا دینے میں اہم رول ادا کیا۔ یہ سلسلہ کہیں بھی رکا نہیں بلکہ چند سال بعد ہی 1971ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صور ت میں نمودار ہوا۔ اس سانحے کے بھی پاک فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان کے مذموم اقدامات بڑا سبب بنے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام میں عملی حصہ لے کر اور پاکستان کو دو لخت کرکے گویا تقسیم ہند اور پچھلی جنگوں کا انتقام لیا۔ اس
کے بعد 1996ء میں بھارت کے ساتھ کارگِل کی جنگ شروع ہوگئی جس کے لیے جنرل پرویز مشرف اور اس کے ساتھیوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی قائم ہے۔ وقفے وقفے سے سرحد پر فائرنگ یا دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اعتماد سازی کا عمل رُک جاتا ہے۔ دونوں ممالک میں امن کی آشا کے باوجود’’ہنوز دلی دور است۔‘‘
اگر آپ آپریشن جبرالٹر، آپریشن گرینڈ سلام اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے اسباب اور پراِسرار فائلوں میں دبی ہوئی سازشوں اور ناکامی کے حقائق جاننا چاہتے ہیں تو سید سجاد حیدر کے انکشافات کا مطالعہ آپ کے لیے ازحد ضروری ہے۔ جن کو پروفیسر محمد فاروق قریشی نے آپ کے لیے خصوصی طور پر قلمبند کیا ہے۔
٭’’رن کچھ میں پاک بھارت جھڑپوں کے فوراً بعد اپریل-مئی 1965ء میں پاکستان آرمی نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر اور سرینگر پر قبضہ کرنے کے لیے گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی کا آغاز کردیا۔
فیصلہ کن اجلاس بری فوج کے کمانڈر اِن چیف جنرل موسیٰ کی صدارت میں ہوا جس میں بری فوج کے تمام اہم افسران اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی موجود تھے۔ اس سے قبل صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا۔ کشمیر کمیٹی نے عزیز احمد کی صدارت میں آپریشن جبرالٹر کی منظوری کا اشارہ دے دیا۔ سرکاری سطح پر بین الاقوامی سرحدوں کے احترام اور
عدم مداخلت کے موقف کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور وزارتِ خارجہ کی ہدایت پر ’’آہستہ چلو اور دشمن کو مشتعل نہ کرو‘‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ یہ ایک متضاد، ناقص اور احمقانہ پالیسی تھی کیونکہ مقبوضہ وادی میں آٹھ ہزار مجاہدین کے داخل ہونے اور گوریلا جنگ کی کارروائیوں کے بعد دشمن بھلا کیسے مشتعل نہ ہوتا۔ جنرل موسیٰ نے اپنی کتاب’’میرا مؤقف‘‘ (My Version)میں اصرار کیا ہے کہ انھوں نے صدر ایوب کو خبردار کردیا تھا کہ یہ خفیہ کارروائیاں بھارت کے ساتھ جنگ میں تبدیل ہوجائیں گی لیکن عملی طور پر فوجی قیادت ضرورت سے زیادہ
پرُاعتمادی کا مظاہرہ کررہی تھی اور یقین رکھتی تھی کہ بھارت کی فوج میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ پاکستان کا مقابلہ کرسکے۔ اس لیے جب صدر ایوب نے کشمیر میں آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا تو جنرل موسیٰ نے کوئی اختلاف یا احتجاج نہ کیا، اور پاکستان آرمی کے بیش قیمت کمانڈوز، آزاد کشمیر رجمنٹ کے فوجی دستوں اور آزاد کشمیر کے نوجوان رضا کاروں کو مختصر تربیت کے بعد جنگ میں جھونک دیا تاکہ کشمیر میں طویل عرصے تک گوریلا جنگ اور باغیانہ کارروائیوں کو جاری رکھا جاسکے۔
٭آپریشن جبرالٹر دراصل وزارتِ خارجہ کا برین چائلڈ تھا جس کو صدر ایوب نے اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے قبول کر لیا
مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے اوربھارت مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے گوریلا جنگ کا تصور پاکستانی وزارت خارجہ کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور نہایت ہوشیار بیوروکریٹ،سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کے ذہنِ رسا کی پیداوار تھا۔ ان دونوں کا کشمیر کی صورت حال کا تجزیہ اس حقیقت پر مبنی تھا کہ 1962ء میں چین کے ہاتھوں بھارت کی ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت اپنی عسکری طاقت میں بے پناہ اضافہ کرتا جارہا تھا۔ امریکا نے بھی پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ اقتصادی اور عسکری تعلقات بڑھا لیے تھے۔ بھٹو کا خیال تھا
کہ1966ء تک طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہوجائے گا اور امریکا کی فوجی امداد کے بغیر پاکستان اتنا پیچھے رہ جائے گا کہ کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی مفید نہیںرہے گا۔ چونکہ اقوامِ متحدہ نے کشمیر پر بھارتی موقف کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اسے بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیا تھا،اس لیے مذاکرات کا راستہ بھی بند ہوچکا تھا۔ پاکستانی قیادت یہ سمجھتی تھی کہ مقبوضہ وادی میں پاکستانی فوجیوں اور مجاہدین طویل گوریلا جنگ کے ذریعے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتا ہے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
اس منصوبے کو آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ بغیر مکمل تیاری کے آپریشن شروع کردیاجائے۔اگرگوریلاجنگ کی کارروائیاں شروع کرنے سے پہلے کشمیر کے اندر حریت پسندوں کا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا جاتااور بھارت کے آمرانہ قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے سربکف مجاہدین کو گوریلا جنگ کی مکمل تربیت دی جاتی تو شاید تاریخ مختلف طریقے سے لکھی جاتی۔ صدرایوب کو یقین تھا کہ کشمیر میں مجوزہ کارروائیوں کی وجہ سے بھارت بین الاقوامی سرحد کے پار پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ کم از کم وزیر خارجہ بھٹو نے
ان کو یہی یقین دہانی کروا رکھی تھی۔جنرل موسیٰ نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ صدر ایوب کو اس آپریشن کے نتائج کے بارے میں سب کچھ بتا دیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کی منظوری دی تھی جو یقینا جی ایچ کیو کے پرانے ریکارڈ میں موجود ہوگی۔ یہ خود ساختہ فیلڈ مارشل کے خلاف ایک سنگین الزام ہے، جس کی جنرل گل حسن نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی ہے جو اس نے کشمیر آپریشن کے خلاف تحریر کی تھی۔ اگر یہ سچ ہے تو گوہر ایوب کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کے والد کو یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ کشمیر آپریشن قابل عمل اور قابل
حصول نہیں ورنہ وہ اس پر عمل درآمد کی ہرگزاجازت نہ دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کو اپنے کمانڈر اِن چیف اور جی ایچ کیو پر اتنا اعتماد نہیں تھا جتنا انھیں وزارتِ خارجہ کی سفارشات پر تھا۔جنرل گل حسن نے اپنی رپورٹ میں آپریشن جبرالٹر کو ایک ناقص اور ناقابل عمل منصوبہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس رپورٹ کو صدر اور آرمی چیف نے یکسر نظر انداز کردیا۔اس آپریشن کے دوران
جنرل ایوب خان نے ایک دفعہ جنرل موسیٰ کو مکمل طور پر نظر انداز بھی کردیا تھا کیونکہ ان کو اپنے کمانڈر اِن چیف کی فوجی قابلیت سے زیادہ اس کی وفاداری اور اطاعت کا یقین تھا۔جنرل موسیٰ نے رن کچھ اور چین بھارت واقعات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے صدر کے فیصلے پر صاد کیا۔ لیکن یہ اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات تھی کیونکہ جنرل موسیٰ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس باغیانہ کارروائی میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نہ تو وہ مضبوط یقین کا مالک تھا نہ ہی اس کے پاس اتنی بڑی تربیت یافتہ اور تیار فوج تھی۔ جہاں تک صدرِ پاکستان کا تعلق ہے اس
نے بغیر سوچے سمجھے یا دیکھے، جی ایچ کیو کی سفارشات کے برعکس اندھیرے میں چھلانگ لگا دی۔اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مطلوبہ کامیابی حاصل ہونے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور وہ اس کو ایک عظیم جنگی کامیابی کے طور پر پیش کرسکے گا۔ مقبوضہ وادی میں آپریشن گرینڈ سلام پر بھی عمل جاری تھا۔ اس کا مقصد اکھنو پر قبضہ کرکے وادی کشمیر کے ساتھ بھارت
کا زمینی رابطہ منقطع کرنا تھا۔ اس صورت میں بھارت زبردست دبائوں میں آجاتا اور وہ پاکستان پر حملے کا خطرہ مول نہ لے سکتا کیونکہ اس کے لیے کشمیر کو بچانا ہی بڑا ہدف ہوتا۔ اس آپریشنکا کمانڈر میجرجنرل اختر حسین ملک میدانِ جنگ میں تاریخی فتوحات حاصل کررہا تھا۔ 31اگست1965ء کو وہ اکھنو ر پر قبضہ کرنے کے قریب تھا۔یہ ایک بڑی تاریخی فتح ہوتی جو مجاہدین کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے کافی ہوتی۔ لیکن متزلزل اور کمزور دل فیلڈ مارشل نے کوئی وجہ بتائے بغیرکمان فوری طور پر جنرل اختر کی جگہ جنرل یحییٰ کو دے دی۔جس نے اپنے دستوں کو اکھنور پر قبضہ کرنے سے روک دیا۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی غداری ایوب، موسیٰ اور یحییٰ کے نام لکھی گئی۔ اس دن ہم المناک طور پر کشمیر کی جنگ ہار گے۔ اور ایوب
خان اور جنرل موسیٰ نے مقبوضہ وادی میں پھنسے ہوئے ہزاروں فوجیوں اور مجاہدین کو کسی احساسِ ندامت کے بغیر بھلا دیا اور ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان بہادر جانبازوں نےبھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر، اسلحہ ڈپوئوں، پلوں کے علاوہ قابض بھارتی فوجیوں کو بموں سے اُڑایا اور دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا لیکن انجام کیا ہوا؟ جی ایچ کیو نے ان کو سامان اور خوراک کی سپلائی جاری رکھنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کی اور ان کو شدید نامساعد حالات میں اپنی مدد آپ کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ البتہ پاکستان ایئر فورس کے باہمت ہوا بازوں نے اپنے
کمانڈر ان چیف کی بھر پور مدد کے ساتھ کچھ ناممکن کارنامے انجام دیے۔ خصوصاً کمانڈر زاہد بٹ نے اپنے ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے دشمن کے علاقے میں کافی اندر جاکر نہایت خراب موسم اور پہاڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سامان کے بیگ درست جگہوں پر گرائے۔ کچھ ایسی پر خطر مہمات میں کمانڈر ایئر فورس نور خان نے خود بھی حصہ لیا۔ اور ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ پوری ایئر فورس کے اندر جوش و جذبہ بھر گیا۔
٭آپریشن جبرالٹر فوجی اور سول قیادت کی ناپختہ اور ناقص منصوبہ بندی کا نمونہ تھا اور پاکستانی قوم کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق تھا۔ اس کی ناکامی یقینی تھی کیونکہ یہ ایک کم تر پیشہ ورانہ تجربے کے حامل صدر اور اس کے مسکین کمانڈر ان چیف کی کمزور قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر تھا۔ ان دونوں کا فوجی آپریشن کا تصور گہری حکمت عملی سے خالی تھا۔ جنرل ایوب کے بارے میں گلبرٹ لیتھ ویٹ نے لکھا، ’’میں اس کو کسی بھی لحاظ سے اعلیٰ دانشور طبقے میں شمار نہیں کرتا۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق وہ لیفٹنٹ کرنل کے طور پر ایک ناکام کمانڈنگ افسر تھا۔ اس کا
فوجی علم محدود ہے۔ اس نے پاکستانی فوج کا کمانڈر ان چیف بننے کے بعد اپنی نا تجربہ کاری کو چھپانے کے لیے لفٹنٹ جنرل سر راس میکے کو اپنا ذاتی مشیر بنایا۔ وہ اس پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔‘‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نااہلی کے باوجود ایوب خان کو ایک انتہائی پیشہ ور فوج کا کمانڈر کیوں بنایا گیا؟
صدر ایوب اور جنرل موسیٰ نے دانستہ طور پر پاکستان ایئر فورس کے کمانڈر ان چیف ایئر مارشل اصغر خان کو آپریشن جبرالٹر سے بے خبر رکھا کیونکہ وہ اصغر خان کے بلند اخلاقی معیار اور جرأت مندانہ اظہار خیال سے خائف تھے۔ اصغر خان نے پی اے ایف کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی تھی اور اسے ایک انتہائی منظم، مربوط، تربیت یافتہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل تیز رفتار ایئر فورس میں تبدیل کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی بصیرت افروز نظروں سے ان کچھ کی جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والے طوفان کا اندازہ کر لیا تھا اور ایئر فورس کو انتہائی تیاری کی حالت میں
رکھا ہوا تھا۔ 23جولائی 1965ء کو پی اے ایف کی قیادت ایئر مارشل نور خان نے سنبھال لی اور اصغر خان کو پی آئی اے کا چیئرمین بنادیا گیا۔ کمان کی اس تبدیلی کے موقع پر ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز بریگیڈیئر گل حسن نے ان کو بتایا کہ فوج مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں ایک بڑے آپریشن کی تیاریاں کررہی ہے۔ اصغر خان اس کے بارے میں بالکل بے خبر تھے۔ جب ایئر مارشل نور خان نے اس سلسلے میں جنرل موسیٰ سے دریافت کیا، تو اس نے کہا کہ یہ ایک چھوٹا مقامی معاملہ ہے جس کو میجر اختر ملک ہی سنبھال لے گا اور پی اے ایف کی شرکت بالکل ضروری نہیں ہے۔ نور
خان نے اختر ملک سے بھی ملاقات کی اور پوچھا کہ وہ یہ آپریشن ایئر فورس کی مدد کے بغیر کیسے سرانجام دیں گے۔ اس نے کہا کہ وہ رسدکی سپلائی کے لیے آرمی ہیلی کاپٹر اور خچر استعمال کریں گے۔ نُور خان کو فوجی افسران کی محدود سوچ اور غیر پیشہ ورانہ حکمت عملی پر سخت مایوسی ہوئی۔
٭یہ انتہائی بدقسمتی کی بات تھی کہ ایک انتہائی تربیت یافتہ لڑاکا فوج کی سربراہی فوجی حکمتِ عملی سے عاری کمزور جرنیل کے ہاتھ میں تھی۔ ایوب خان نے اپنی کتاب’’یادداشتیں‘‘ (Diaries)میں اعتراف کیا ہے کہ ’’جنرل موسیٰ نااہل اور غیر مؤثر تھا۔‘‘ پی اے ایف کے دونوں سربراہان کو اس حقیقت سے بے خبر رکھا گیاکہ کشمیر میں گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی مئی 1965ء میں ہی کرلی گئی تھی۔ جنرل موسیٰ نے اپنی مذکورہ کتاب میں نور خان کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جنرل موسیٰ فوج کے دستوں کو جنگ کے محاذوں پر متعین
کرنے میںبرُی طرح ناکام رہا بلکہ مشرقی سرحد پر تمام بارودی سرنگوں اور دوسری دفاعی تنصیبات کو بھی ہٹا دیا گیا ۔اس طرح سیالکوٹ، لاہور اور قصور کے محاذوں پر بکھرے ہوئے فوجی دستوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پی اے ایف کو اپنی زیادہ توجہ اس طرف مرکوز کرنا پڑی ورنہ وہ اپنے پہلے حملے میں ہی دشمن کی ایئر فورس کو زمین پر ہی تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔
٭ فوجی قیادت نے ایئر چیف کو آپریشن جبرالٹر سے مکمل طور پر بے خبر رکھا۔ درحقیقت جنرل موسیٰ بھارتی فوج کے ممکنہ ردِ عمل سے خوفزدہ تھا اس لیے اس نے فوجی یونٹوں کو مشرقی سرحد سے دور رکھا اور ان کو صرف اس وقت محاذوں پر جانے کا حکم دیا،جب بھارتی فوج تین اطراف سے پاکستان پر حملہ آور ہوچکی تھی۔ اس معاملے میں فوجی اور سیاسی قائدین اپنی کوتاہ نظری اور غفلت کے الزام سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ اپنے منصوبے کے ممکنہ نتائج کی پیش بینی میں ناکام رہے اور اسی وجہ سے انھوں نے جنگ کی تیاری پر کوئی توجہ نہ دی۔ ان
کا یہ تصور کہ کشمیر آپریشن میں ایئر فورس کو شریک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، قابلِ افسوس حد تک غلط مفروضوں اور جنگی حرکیات سے لاعلمی پر مبنی تھا۔ وہ ابھی تک جنگ کے منڈلاتے ہوئے خطرات سے لا تعلق، بغیر تیاری کے خوش اعتمادی کے نشے میں مدہوش تھے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کو جسٹر، برکی، واہگہ، اٹاری، چونڈہ اور کھیم کرن کے محاذوں پر بے پناہ جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ آرمی قیادت کا اپنے آپریشن کو ایئر فورس سے خفیہ رکھنے کا فیصلہ ناقابل معافی اور قابل مذمت جرم تھا۔ تاہم نور خان نے اپنی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اور خطرے کی بُو سونگھتے ہوئے پی ایے ایف کو 18اگست1965ء کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا۔
٭آرمی کے سی130-کنٹرول لائن کے قریب رسد سپلائی گرانے کے لیے پروازیں کررہے تھے۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری ائیر فورس کے سر تھی۔ گلگت اور سکردو میں یہ جہاز دن کے وقت بغیر حفاظتی پروازوں کے رسد پہنچا رہے تھے۔ لیکن کنٹرول لائن کے قریب ایسی سرگرمیوں کے لیے لڑاکا جہازوں کی حفاظتی پروازیں ضروری تھیں۔ یہاں مصنف اپنی ایک حفاظتی پرواز کا ذکر کرتا ہے جو اس نے اپنے ساتھی خالد لطیف کے ساتھ کی۔ دونوں ہوا باز اپنے لڑاکا جہازوں کے سائے میں بڑی احتیاط اور مہارت سے سی130-کو پہاڑوں کے درمیان اور بادلوں کے اندر پرواز
کرتے ہوئے مطلوبہ جگہ تک لے گیے اور پھر واپس لائے۔ اردگرد خوبصورت برف پوش نانگا پربت کا منظر مسحور کن تھا لیکن یہ ایک مشکل اور پر خطر مہم تھی جو انھوں نے بحفاظت مکمل کی۔ سی130-ٹرانسپورٹ جہازوں کا عملہ خطرات سے بھر پور پروازوں سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا۔ بعض اوقات وہ دشمن کے علاقے میں وزنی بم بھی گراتے تھے اور اس طرح بمبار جہازوں والا مشکل کام بھی کررہے تھے۔ گروپ کیپٹن زاہد بٹ اور مسعود خان نے معجزانہ کارنامے سر انجام دیے۔ بہت سے دوسرے جانبازوں کے ساتھ رہے تھے۔ ان دونوں کو ان کی عمدہ کارکردگی اور نئی روایات قائم کرنے پر ستارۂ جرأت کے اعزازات دیے گیے۔
٭آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام کی ناکامی اس لیے بھی زیادہ المناک ہوجاتی ہے کیونکہ بھارتی جرنیلوں کی غفلت اور غیر پیشہ ورانہ کارروائیاں پاک فوج کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں تھیں۔جنرل جوگندر سنگھ اپنی کتاب ’’پسِ پردہ‘‘ (Behind the Scene)میں لکھتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل چودھر ی کی ہدایات پر جو یکم اگست 1965ء کو جاری کی گئیں، کہیں بھی
عمل نہیں کیا گیا۔ نہ دراندازی کے راستے بند کیے گیے، نہ حاجی پیر درے پر جارحانہ حملہ کیا گیا، چھمب جوڑیاں کی طرف فوجی دستے روانہ نہیں کیے گیے۔ ان آپریشنز کو آپریشن فولاد اور بکشی کے نام دیے گیے۔ بالآخر 26اگست کو ان کا آغاز کیا گیا۔ اسی طرح لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر جارحانہ پیش قدمی کے لیے آپریشن ایبلیز(Ablaze)کی منصوبہ بندی کی گئی۔بھارتی فوج شاید ہماری فوج سے بہتر حالت میں نہیں تھی،لیکن اس کو جنرل چودھری کی صورت میں ایک قابل اور پیشہ ور چیف آف آرمی سٹاف میسر تھا۔ 29اگست کو بھارتی فوج نے پاکستانی فوجیوں
کے ساتھ دست بدست لڑائی کے بعد درہ حاجی پیر پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انھوں نے آپریشن فولاد کا آغاز کیا اور کارگل اور کشن گنگا کے ساتھ ساتھ کئی اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ ان کارروائیوں سے آپریشن جبرالٹر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔کشمیر کے اندر آمدو رفت کے تمام راستے بند ہوگیے اور مجاہد فورس کے بچ نکلنے کے مواقع ختم ہوگیے۔ اُن ہزاروں مجاہدین کو فوجیوں نے گرفتار کرلیا یا ہلاک کردیا۔اس طرح آپریشن گرینڈ سلام کا واحد مقصد اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔ اکھنور جو کہ کشمیر کی گردن اور سب سے اہم ہدف تھا اکھنور کی فتح سے بھارت کو کشمیر سے
ملانے والے تمام راستے بند ہوجاتے اور پوری وادی محصور ہوجاتی۔اور جس وقت یہ پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گرنے والا تھا، آرمی کی قیادت نے کمان کو تبدیلی کرکے یہ سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ صدر ایوب اور جنرل موسیٰ کی طرف سے جنگ کے اس نازک مرحلے پر کمان کی تبدیل پر یوں تبصرہ کیا۔’’خدا ہماری مدد کو آگیا اور اکھنور بچ گیا۔‘‘
٭آپریشن جبرالٹر دراصل فوجی اور سیاسی قیادت کی سازش
کی وجہ سے ناکام ہوا
آپریشن جبرالٹر اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی 1965ء پاک بھارت جنگ کی تاریخ پاکستان آرمی اور ریاستی قیادت کی نااہلیوں، فاش غلطیوں، مبہم منصوبہ بندی اور غلط فیصلوں سے بھری ہوئی ہے۔ 30اگست 1965ء کو آئی ایس آئی نے دو صفحات پر مشتمل خفیہ اطلاع جی ایچ کیو اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بھیجی جس میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت کی واضح تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ اس میں بتایا گیا کہ بھارت کا بکتر بند ڈویژن پٹھانکوٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی بریگیڈئیر ریاض نے اس فوری خطرے کے بارے میں خصوصاً صدر
پاکستان، مسلح افواج کے سربراہان اور وزیر خارجہ کو مطلع کیا لیکن پاکستان کی سا لمیت کو درپیش اس خطرے کی پیش بندی کے لیے کسی نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا۔ خصوصاً بری فوج کے کمانڈر ان چیف کی خاموشی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ جنرل موسیٰ نے اپنے دستوں کو جنگی مقامات پر تعینات نہیں کیا ،نہ ہی صدر نے آرمی کو رَیڈ الرٹ کا حکم دیا۔ یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی جس کی وجہ سے پاکستان آرمی کے جوانوں کو آنے والے دنوں میں پرآشوب حالات سے گزرنا پڑا۔ خفیہ ایجنسیوں کی بروقت وارننگ کے باوجود آرمی کی عدم تیاری اور ایئر فورس کی قیادت کو مکمل
طور پر اندھیرے میں رکھنے کی وجہ سے بے شمار جانیں ضائع ہوگئیں۔ بھارت میں پاکستان کے سفیرارشد حسین نے نئی دہلی میں متعین ترک سفیر کے توسط سے پاکستان پر بھارت کے ناگزیر حملے کی اطلاع حکومت کو بھیجی۔اس کے برعکس فوج کے سربراہ نے رن کچھ واقعے کے بعد ایک چوتھائی فوج کو رخصت پر بھیج دیا جبکہ آپریشن جبرالٹر کی تیاریاں جاری تھیں۔یہ ایک غیر معقول اور عجیب فیصلہ تھا۔ 6بکتر بند ڈویژن کو 6ستمبر کی بجائے لاہور پر بھارتی حملے کے 24گھنٹے بعد سیالکوٹ پہنچنے کے احکامات دیے گیے۔ اور جب وہ اپنی منزل کے قریب پہنچے تو
بغیر کوئی وجہ بتائے ڈویژنل کمانڈر کو واپسی کا حکم دے دیا گیا۔ اس طرح گوہر ایوب کے اپنی کتاب’’اقتدار کے ایوانوں کی جھلکیاں‘‘ (Glimpses into the Gorridors of Powr)میں ان دعووں کی تردید ہوجاتی ہے جن میں کہا گیا کہ بھارتی حملے کے بارے میں صدر ایوب کو کوئی پیشگی بریفینگ نہیں دی گئی اور یہ کہ بکتر بند ڈویژن 7کی بجائے 6ستمبر کو محاذ پر پہنچا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ان غلطیوں اور حماقتوں کو تحریر کرنے کا مقصد مسلح افواج کے بہادر جنگجو جوانوں کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں بلکہ ان کی اعلیٰ قیادت کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا ہے جن
کی وجہ سے افواج کو بے شمار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا،بلکہ نام اور وقار پر بدنامی کا دھبہ لگوانا پڑا۔ جہاں تک پاکستانی فوج کے جوانوں کا تعلق ہے انھوں نے رن کچھ،چھمب جوڑیاں، اٹاری، برکی چونڈہ، کھیم کرن اور چھور کی لڑائیوں میں اپنی ہمت، بہادری اور عزم کے شاندار مظاہرے کیے۔ اگر عسکری قیادت سے فاش غلطیاں سرزد نہ ہوتیں، تو بہت سے نقصانات سے بچا جاسکتا تھا۔جنگ میں جانی نقصان ناگزیر ہوتا ہے لیکن کمانڈروں کی ناقص منصوبہ بندی یا بزدلی سے ہونے والے جانی نقصان کی ذمہ داری صرف قیادت پر عاید ہوتی ہے۔ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ شہدا کے بچوں، بیوائوں، بہنوں اور والدین کے سامنے اپنی نااہلی اور غفلت کا اعتراف کریں کیونکہ جلد یا بدیر ان کا احتساب تو ہوگا۔
٭بری فوج کی قیادت کے برعکس ایئر مارشل نور خان نے جنرل موسیٰ پر بھروسہ کرنے کی بجائے کشمیر کے افق پر ابھرتے ہوئے طوفان کے،اپنے ذاتی تجزیے کے مطابق،ایئر فورس کو ہائی الرٹ کر رکھا تھا تاکہ اچانک جنگ کی صورت میں ایئر فورس اپنا بھر پور کردار ادا کرسکے۔حالات کے پیشِ نظر نور خان نےIکور کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور کمانڈر جنرل رانا سے استفسار کیا کہ کیا ان کے دستوں کو ایئر فورس کے تحفظ کی ضرورت نہیں،کیونکہ وہ دریائے توی کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے موجود تھے۔ جنرل نے جواب دیا کہ بھارت جنگ میں تیزی سے بچنے
کے لیے اپنی ایئر فورس کا استعمال نہیں کرے گا۔جونہی ایئرمارشل وہاں سے روانہ ہوئے بھارتی ایئر فورس نے جنرل رانا کے فوجی دستوں پر حملہ کردیا۔ بھارتی ایئر فورس نے پٹھانکوٹ کے اڈے سے پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے کل بارہ لڑاکا ویمپائراپنے دستوں کی فضائی سپورٹ کے لیے بھیجے۔لیکن لفٹنٹ ہر بخش سنگھ اور جنرل جو گندر سنگھ کی ڈائریوں کے مطابق ان جہازوں نے اپنے ہی فوجیوں پر بمباری کردی اور ان کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس کی تصدیق جنرل سنگھ نے بھی کی ہے۔
٭پاک فضائیہ کا ردِ عمل فوری اور تیز تھا۔ پی اے ایف کے نمبر ایک لڑاکا پائلٹ سرفراز رفیقی اور امتیاز بھٹی نے چار بھارتی ویمپائر جہازوں کو للکارا۔ اگلے دو تین منٹ کے اندر سرفراز نے دو
بھارتی جہازوں کو مار گرایا۔ تیسرے کو امتیاز بھٹی نے شکار کر لیا اور چوتھا گولیاں کھا کر لنگڑاتا ہوا واپس بھاگ گیا۔ پانچواں اس سے پہلے انٹی ایر کرافٹ گن کا نشانہ بن چکا تھا۔ بریگیڈیئر امجد چودھری نے میدانِ جنگ سے پیغام دیا کہ پی اے ایف کے لڑاکا جہازوں کی شاندار کارکردگی نے ہمارے حوصلے اور ولولے کو جوان کردیا اور ہمیں بھارتی فضائیہ کے حملوں کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں رہی۔ بھارتی ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈنگ افسر جنرل جو گندر سنگھ نے پاکستانی فضائیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا،’’آسمان کی فضائوں میں پاکستان ایئر فورس کی حکومت قائم تھی۔ ‘‘
بدقسمتی سے آپریشن جبرالٹر مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوگیا اور آپریشن گرینڈ سلام کو بریک لگادی گئی۔میجر جنرل یحیٰی خان جس نے جنگ کے نازک موڑ پر 7ڈویژن کی کمان سنبھالی، اکھنور پر قبضہ کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ مصنف نے لمبی چوڑی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت کی سطح پر سازش کی گئی اور میجر جنرل اختر ملک کو اکھنور پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے کمان تبدیل کی گئی اور یوں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا ایک نادر موقع دانستہ طور پر ضائع کیا گیا۔ میجر جنرل اختر ملک اور بریگیڈئیر امجد چودھری
کے بیانات اس سازش کی کڑیاں آپس میں ملاتے ہیں۔ سازش کے اہم عناصر میں ایوب خان، جنرل موسیٰ، میجر جنرل یحیٰی خان، لفٹنٹ جنرل رانا بختیار ،بریگیڈیئر عظمت حیات اور بریگیڈیئر ظفر کے نام قابل ذکر ہیں۔مصنف کے خیال میں ایوب خان نے جو کچھ کہا وہ اس کے ناقابل رشک فوجی ریکارڈ سے مطابقت رکھتا تھا۔ وہ بطور کمانڈر عزم و ہمت سے عاری تھا۔ میدان جنگ سے خوفزدہ
تھا، کمزور قوتِ فیصلہ کا مالک تھا۔ اسی لیے آپریشن جبرالٹر اور 1965ء کی جنگ کے دوران وہ دارالحکومت کی بجائے سیدو شریف میں وائی سوات کی مہمان نوازی کے مزے لوٹتا رہا۔ دوسرے جنگِ عظیم میں کوہیما (برما) کی مشہور جنگ میں ان کی بزدلی اور کم حوصلگی کی وجہ سے اسے Iآسام رجمنٹ کی کمان سے الگ کردیا گیا۔ لفٹنٹ کرنل محترم نے بھی اپنے ایک خط میں ایوب خان کے بطور جونیئر کمانڈر کمزور رویے کی تصدیق کی ہے۔ جنرل رِیس آف ڈیگر ڈویژن اور پاکستان کے پہلے کمانڈر اِن چیف جنرل میسروی دونوں نے ایوب خان کو پروموشن کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔
پاکستان ائیر فورس کا بھارتی ائیر فورس کے ساتھ دوسرا مقابلہ3ستمبر کو ہواجس میں فلائیٹ لفٹنٹ یوسف کی سرکردگی میںہمارے دو ایف۔86 طیاروں نے بھارت کے چھ ناٹ 26طیاروں کا مقابلہ کیا۔ یوسف کے جہاز کو نقصان پہنچا لیکن وہ کمال مہارت اور جرأت کے ساتھ چھے دشمن طیاروں کے نرغے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس مقابلے کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بھارت کا ایک ہوا باز اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر غلطی سے پسرور کے چھوٹے ہوائی اڈے پر اتر گیا جس پر پاک آرمی کے جوانوں نے فوراً قابوپا لیا۔ اس کے جواب میں ایک بھارتی لڑاکا جہاز نے گکھڑ ریلوے اسٹیشن پر ایک مسافر ٹرین اور تانگے کو نشانہ بنایا۔
٭12ستمبرکو علی الصبح بھارت کے ٹینکوں، توپخانے اور بکتر بند گاڑیوں نے لاہور پر حملہ کرنے کے لیے واہگہ بارڈر کو عبور کر لیا یہ خبر صدر اور آرمی چیف کے لئے بھی بوکھلا دینے والی تھی اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا ثبوت بھی۔ صدرکو بھارتی حملے کی پہلی اطلاع ائیر فورس نے دی تھی۔لاہور کے دفاع پر متعین دسویںآرمی ڈویژن کاکمانڈر 6ستمبر کو فٹ بال میچ منعقد کروارہا تھا۔ ایئر کموڈور مسرور حسین نے 6ستمبر کی صبح مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اسکواڈرن 19 کے ساتھ سیالکوٹ کے جسٹر کے مقام پر دشمن کے توپخانے کو خاموش کر دوں۔
ہمارے زیمبو پائلٹ جوش و جذبے سے سرشار اپنے مشن کی تکمیل کے لئے بے چین تھے۔ ابھی ہم اپنے ہدف کے قریب نہیں پہنچے تھے کہ ہمیں وائرلیس پر پیغام ملا کہ ہم لاہور کے قریب اٹاری گاؤں پہنچیں جہاں بھارتی ٹینک لاہور میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ اس پیغام نے ہمارے اندر بجلی کی سی تیزی اور تڑپ پیدا کر دی۔ ہم اپنے وطن کے دفاع کے لئے جان کی بازی لگا نے کے
لئے مچل رہے تھے۔ ہم تقریباً ساڑھے نو بجے اپنے ہدف پر پہنچ گئے اور دشمن کے ٹینکوں ، توپوں اور گاڑیوں اور گولہ بارود پر بموں اور راکٹوں کی بارش کر دی۔ پندرہ منٹ کے مسلسل حملوں سے ہم نے دشمن کی فوج کو تہس نہس کر دیا۔ جگہ جگہ سے آگ کے شعلے اور دھواں اٹھ رہا تھا۔ بھارتی فوج کا کافی جانی نقصان بھی ہوا۔ حملہ آور ڈویژن کا کمانڈر بغیر جوتوں کے وہاں سے بھاگ نکلا۔ لاہور پر بھارت کا حملہ پاکستان ائیر فورس کی بر وقت اور موثر کار روائی سے ناکام ہو گیا۔ ورنہ آرمی کی طرف سے لاہور کا دفاع اتنا کمزور تھا کہ بھارتی ٹینک چند گھنٹوں میں لاہور
میں داخل ہو سکتے تھے۔ صرف بلوچ رجمنٹ کے کچھ جوان اپنی جانوں کی قربانی دے کر بی آر بی کے پل کی حفاظت کر رہے تھے جو بھارتی حملے کو روکنے کے لئے ناکافی تھی۔ بھارتی فوج پوری جنگ کے دوران اس جگہ سے ایک انچ پیش قدمی نہیں کر سکی۔ اگرچہ جنگ سے ایک دن پہلے بھارتی قیادت کو پختہ یقن تھا کہ وہ آسانی سے لاہور پر قبضہ کر لیں گے اور اپنی فتح کا جشن جمخانہ کلب لاہور میں منائیں گے۔
6ستمبر کی صبح پاک ائیر فورس کی تاریخی کارکردگی کا اعتراف بھارتی مورخین نے بھی کیا ہے۔ پاک بھارت فضائی جنگ (Indo-Pak Air War 1965) کے مطابق’’پی اے ایف نے بھارتی ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی تیار کر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ایک سکواڈرن نے لاہور جی ٹی روڈ کے ساتھ پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج کے خلاف پاک آرمی کی مدد کے لئے بھی پروازیں کیں۔ ایس ایس نوزی حیدر کی رہنمائی میں 19 سکواڈرن نے چھے طیاروں کے ساتھ پشاور سے پرواز کی اور لاہور کی طرف بڑھتی بھارتی فوج کے ہراول دستوں پر
حملہ کیا۔ اور پی اے ایف کے سیبر طیاروںنے لفٹنٹ کرنل ڈیسمانڈ ہیڈی کی قیادت میں3 جاٹ ڈویژن کی ہراول بٹالین کو گولیوں اور راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ حملے میںیونٹ کی آر سی ایل توپیں ناکارہ ہو گئیں۔ ہیڈی کی بٹالین کی مدد کے لئے بھیجے جانے والے شرمین ٹینکوں کا بیڑا بھی تباہ ہو گیا۔ 3جاٹ ڈویژن کی پسپائی ایک سنگین نقصان تھا‘‘۔
٭صدر پاکستان کو اندازہ تو ہوا ہو گا کہ کس طرح اس کی وزارتِ خارجہ اور دوسرے معتمد علیہ افسران نے دھوکے سے اس کو یقین دلایا تھا کہ آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام کی وجہ سے بھارت کبھی بھی بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ اور خود اتنی فوجی بصیرت اور تجربہ کا مالک نہ تھا کہ صورت حال کی نزاکت کو سمجھ سکتا۔ پوری پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت اپنی اس مہم کو کشمیر تک محدو د رکھنا چاہتی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کہ بھار ت بھی ایسا ہی کرے گا۔ اس لئے ایوب خان یا جنرل موسیٰ بھارت کے ساتھ ایک کھلی جنگ کے لئے تیار
نہ تھے۔ ایوب خان اور فوجی قیادت نے صرف محب وطن فوجی جوانوں اور بے خبر عوام کا جذباتی اور مذہبی استحصال کیا۔ خوفزدہ ایوب خان نے پورے طور پر جنگ بندی کے لئے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ چینی وزیر اعظم چو این لائی نے ائیر مارشل اصغر خان سے کہا کہ اگر ایوب خان جنگ کو کسی نتیجے تک پہنچانے کی صلاحیت اور حوصلہ نہیں رکھتے تھے تو جنگ شروع کر نے کی کیا ضرورت تھی؟
ائیر مارشل نور خان نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ ائیر فورس کو اسی دن شام تک بھارتی ہوائی اڈوں پر پیشگی حملے کرنے چاہئیں۔ پی اے ایف پہلے ہی فیز III یعنی ریڈ الرٹ تیار حالت میں تھی۔ ان حملوں کا منصوبہ جون کے شروع میں ہی بنایا جا چکا تھا۔ اس کا مقصد دشمن کے قریبی ہوائی اڈوں پر اس کی جنگجو فضائی طاقت کو زمین پر تباہ کرنا، شمال اور جنوب کے راڈاروں کو تباہ کرنا اور بی۔57 طیارں کی بمباری سے دشمن کے ہوائی اڈوں کے رن ویز کو ناقابلِ استعمال بنانا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران سرفراز رفیقی نے ہلواڑہ کے اڈے پر حملہ کیا۔ 14سکواڈرن نے مشرقی سیکٹر میں بہت سے بھارتی اڈوں پر حملے کئے۔ 19سکواڈرن نے پٹھان کوٹ ، سرینگر اور جموں کے راڈار اسٹیشنوں پر حملے کئے۔ 32 اور 33 سکواڈرن نے امرت سر کے راڈار اسٹیشن پر حملے کئے۔ بد قسمتی سے سرفراز رفیقی اور یونس کے جہاز مار گرائے گئے۔
٭سکواڈرن لیڈر سجاد حیدر کی قیادت میں 19 سکواڈرن کا پٹھان کوٹ پر حملہ زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ دو مگ21 طیاروں اور بے شمار مسٹئیر طیاروں کو تباہ کر دیا گیا اور تمام ہوا باز بغیر کسی مقابلے یا نقصان واپس اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ بھارتی مورخین نے اس ہولناک تباہی کا اعتراف کیا ہے۔ ایک قابلِ ذکرفضائی مقابلہ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اور اس کے ساتھی سہیل چودھری کے ساتھ پانچ بھارتی حملہ آور ہنٹر طیاروں کے درمیان پیش آیا۔ اس مقابلے میں ایم ایم عالم نے 23سیکنڈ کے اندر دو ہنٹر طیارے مار گرائے۔ مجموعی طور پر 1965ء کی فضائی جنگ
میںانھوں نے چار بھارتی طیارے تباہ کیے اس طرح وہ سرحد کے دونوں طرف سب سے زیادہ طیارے مار گرانے والے ہواباز بن گیے، یہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا جو انھوں نے انجام دیا۔
ایوب خان نے اپنی حکومت بچانے کے لیے جنگ بندی کی درخواست کی جس پر بھارتی حکومت با دِل ناخواستہ رضا مند ہوگئی۔ معاہدہ تاشقند میں کیا کھویا کیا پایا ابھی تک پرُاسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے کی مخالفت کرکے سیاسی فوائد حاصل کرلیے۔ جبکہ ایوب خان کا اقتدار مخالف ہوائوں کی زد میں آگیا۔