hakimkhalid
محفلین
سرطان(کینسر)' قدرتی غذائیں اور جدید تحقیقات
( تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد۔صدر طبی جرنلسٹس کونسل پاکستان )
کینسر کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے غذا میں فائبر(ریشے) کی موجودگی بہت ضروری ہے اور اس کا بہترین مآخذ پھل اور سبزیوں سمیت دیگر قدرتی غذائیں ہیں۔ دن میں تین چار مرتبہ مختلف رنگوں کے پھل اور سبزیوں کا استعمال کینسر کے خلاف ایک ڈھال ثابت ہوتاہے۔پھلوں اور سبزیوں میں پائے جانے والے نباتاتی کیمیاوی مادے(فائیٹو کیمیکلز) بہترین مانع سرطان ثابت ہوئے ہیں۔ہر سبزی اور پھل کا اپنا نباتاتی کیمیکل ہوتاہے جس کے حصول کا بہترین طریقہ مختلف رنگوں کے پھل اور سبزیوں کا استعمال ہے۔سبزیاں اور پھل جتنے زیادہ کھائے جائیں گے سرطان کا خطرہ اتنا ہی کم ہوگا۔بعض پھلوں اور سبزیوں میں خاص قسم کے سرطان کا مقابلہ یا دفاع کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔جیسا کہ سیب کا استعمال آپ کو پھیپھڑوں کے سرطان سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے والے مرد اور خواتین سیب نہ کھانے والوں کے مقابلے میں پھیپھڑوں کے سرطان سے پچاس فیصد زیادہ محفوظ پائے گئے۔یہاں آپ کو بتاتا چلوں کے سیب میں موجود اس جز کی بھی حال ہی میں شناخت ہو گئی ہے جس نے پھیپھڑوں کے سرطان سے تحفظ فراہم کیا'یہ جزو ایک''فلیوونائیڈ'' ہے جسے کوئریسی ٹین (Quercetin) کانام دیا گیا ہے۔اس میں مانع تکسیدصلاحیت خوب ترہوتی ہے۔سرطان سے دلچسپی رکھنے والے معالج اور افراد یہ بات تو جانتے ہی ہوں گے کہ مانع تکسید اجزاء جسم کو امراض پیدا کرنے والے مضرفری ریڈیکلز سے محفوظ رکھتے ہیں۔اسی طرح حیاتین ج(وٹامن سی) سے بھر پور پھل اور سبزیاں کھانے والے' معدے'غذائی نالی' منہ اور فم رحم کے سرطان سے محفوظ پائے گئے۔اطبائے قدیم انگور کو قلب سمیت دیگر کئی امراض اور جسمانی صحت کے لیے مفید قرار دیتے چلے آئے ہیں جس کی تصدیق اب جدید تحقیقات نے بھی کر دی ہے۔انگور کھانے سے خون پتلا رہتاہے۔خاص طورپر سیاہ یا سرخ انگوروں کا ایک گلاس رس پینے سے خون میں تھکے بننے کا خطرہ ساٹھ فیصد کم ہوجاتاہے جبکہ ایسپرین کھانے سے یہ خطرہ صرف پچاس فیصد کم ہوتاہے۔ انگور کے حوالے سے ہم اصل موضوع یعنی سرطان کی طرف آتے ہیں۔اس سلسلے میں جو جدید تحقیقات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق انگور میں ریزرویراٹول (Reserveratol) نامی ایک اہم جزو شامل ہے جو ہمارے جسم میں تین اہم کام سرانجام دیتاہے۔١)۔۔۔۔۔۔خلیے میں ''ڈی این اے'' کو تباہی سے بچاتاہے۔
٢)۔۔۔۔۔۔عام خلیہ اس سے سرطانی خلیہ میں تبدیل نہیں ہوتا۔
٣)۔۔۔۔۔۔رسولی بنانے والے خلیوں کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتاہے۔ سبزچائے سرطان کے تحفظ میں موثر ہے کیونکہ اس میں ''کیٹے چنز'' (Catechins) مانع تکسیدوافر ہوتے ہیں۔ جوانسانوں میں چھاتی'غذودمثانہ(پروسٹیٹ) اور دیگر کئی قسم کے سرطانوں میں فائدہ مند ہیں جبکہ جانوروں کے بھی کئی قسم کے گومڑوں اور رسولیو ںمیں مفید ثابت ہوئے ہیں۔سویابین کی کاشت ہمارے ملک میں بھی ہوتی ہے لیکن صرف خوردنی تیل کے حصول کے لیے جبکہ مشرق بعید کے ملکوں اور چین وجاپان وغیرہ میں اس سے دودھ' دہی اور پنیر تیار کیا جاتاہے جو صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔سویابین میں کینسر خاص طورپر چھاتی کے سرطان کو روکنے کے علاوہ خواتین کو سن یاس کی تکالیف سے بچائے رکھنے کی بھی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے جسے دنیا بھر میں تسلیم کیا گیاہے۔ سویابین خواتین کو رحم کے سرطان سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر ترقی یافتہ ممالک میں سویابین اور اس سے بننے والی مصنوعات دھڑادھڑ فروخت ہورہی ہیں۔ صحت سے متعلقہ پاکستانی شعبوں کو بھی اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے اور سویابین کے دیگر استعمالات سے بھی عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔سرطان سے بچنے کے لئے فائبر (ریشے) کاحصول مکئی(پاپ کارن) گندم کی پھلیوں' دلیے وغیرے سے بھی کیا جاسکتاہے۔ سرخ تربوز' سرخ انگور اور لال پکے ہوئے ٹماٹروں میں پایا جانے والا سرخ رنگ دراصل ایک اہم ''بیٹاکروٹین'' ہے جسے ''لائیکوپین'' کہتے ہیں۔جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ قلب کے امراض اور کینسر سے تحفظ فراہم کرتاہے۔ایسی ہی ایک اور تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صحت مند لوگوں کی بہ نسبت دورہ قلب اور سرطان کا شکار ہونے والے افراد کے ریشوں میں ''لائیکوپین'' کی سطح انتہائی کم پائی گئی۔مندرجہ بالا پھلوں کا دن میں ایک دوبار استعمال کرنا کافی ہے۔ دیگر پھلوں کی نسبت ٹماٹر چونکہ سارا سال دستیاب ہوتے ہیں لہٰذا یہ لائیکوپین کے حصول کا یقینی اور مستقل ذریعہ ہیں یاد رہے کہ ''لائیکوپین'' کچے ٹماٹر کے مقابلے میں پکے ہوئے لال ٹماٹروں میں زیادہ ہوتاہے۔روغن زیتون اور کینولاآئل میں بھی لائیکوپین وافر مقدار میں پایا جاتاہے۔اینگلینڈ کے'' دی انسٹیٹیوٹ آف فوڈ ریسرچ'' نامی ادارے کی حالیہ تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں انتڑیوں کے کینسر سے بچاؤ کےلئے مفید ہےں اس تحقیق میں خاص طور پر پیاز'سیب اور دیگر سبزیوں کے استعمال پر زور دیا گیا ہے '' دی انسٹیٹیوٹ آف فوڈ ریسرچ''کے پروفیسر ایئن جانسن کا کہنا ہے کہ انتڑیو ں اور نظام انہضام کے کینسر دنیا بھر میں بہت زیادہ اور عام ہیںحیرت کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی تعدادبہت زیادہ ہے اسّی فیصد سے زائد ایسے کینسر' فاسٹ فوڈزاور دیگر مضر صحت غذاؤں کے کھانے پینے کی عادات کی وجہ سے ہوتے ہیںسن دو ہزار میں ایک کروڑ کینسروں میں سے تئیس لاکھ سے زائدنظام انہضام سے متعلق تھے۔انسانی انتڑیوں کے اندرونی پرت پر خلیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے جسے 'ایپی تھیلیم'کہتے ہیں کھانے پینے کی کوئی بھی چیز سب سے پہلے'ایپی تھیلیم'سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے لہذا مضرصحت مرغن اور مصالحے دار غذاؤں 'شراب اور کولا مشروبات کے زیادہ اور بارباراستعمال سے اس تہہ کے خلیے خلاف معمول تقسیم ہوکر ٹیومر یا کینسر کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اسی طرح صحت مند غذاؤں خاص طور پر پھل اور سبزیوں میں پائے جانے والے بعض کیمیائی مادے کینسر سے بچاؤ میں مدد کر سکتے ہیں پروفیسر جانسن کہتے ہیں کہ ہم اپنے وزن اور کھانے پینے کا خیال رکھ کر خود کو کینسر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کینسر ایک ایسی موذی مرض ہے جس سے انسان نے صدیوں پہلے ہارمان لی تھی اور موجودہ سائنس وکمپیوٹر کے دور میں بھی سرطان کو شکست دینے میں ہنوز کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔سرطان اور انسان میں یہ جنگ جاری وساری ہے لیکن یہاں یہ بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ انسان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔کسی زمانے میں چیچک' ہیضہ'انفلوائنزا' تپ دق(ٹی بی) اور طاعون وغیرہ انسانوں کی بستیوں اور شہروں کے شہر ہلاک کرکے اجاڑدیتے تھے لیکن انسان نے ان کے خلاف جدوجہد کی اور قدرت کی مدد سے اب وہ تمام بیماریوں پر مکمل طورپر قابو پاچکا ہے۔اسی طرح انشاء اللہ مستقبل قریب میں سرطان کے خلاف بھی یقینا کوئی نہ کوئی جامع علاج ضرور نکل آئے گا جو سرطان کو بھی انسان کے قابو میں دے دے گا اور وہ علاج جڑی بوٹیوں سے ہی وجود میں آئے گا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی مرض پیدا کیا ہے اس کے علاج کے لیے ستر جڑی بوٹیاں بھی پیدا فرمائی ہیں۔ اتنی تمہید باندھنے کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ چونکہ کینسر کا ابھی تک کوئی مکمل اور حتمی علاج دریافت نہیں ہوا لہٰذا اس سلسلے میں کیوں نہ ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ یہ مرض ظہور پذیر ہی نہ ہو۔اس مرض کے خاتمے کے لیے احتیاط ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اپنی غذا میں فائبر یعنی ریشہ دار اشیاء شامل رکھیں۔حیاتین الف (وٹامن اے) اور حیاتین ج (وٹامن سی) والی غذائیں زیادہ استعمال کریں۔ گوبھی اور اس جیسی دوسری ترکاریاں ضرورکھائیں۔ فوڈ سٹریٹس جیسے تعیشات میں آگ پر بھنے زیادہ مرچ مصالحے اور نمک لگے خشک گوشت سے حتی الامکان پرہیز رکھیں۔ تازہ ترین تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تلی ہوئی اشیاء گوشت و آلو کی چپس وغیرہ میں سرطان پیدا کرنے والا ایک جز''ایکریلامائڈ'' بہت زیادہ بڑھ جاتاہے۔ گوشت کو بہت زیادہ نہ پکائیں بہت زیادہ بھنا ہوا کڑاہی گوشت سرطان پیدا کرنے کا باعث بن سکتاہے۔ کئی جگہوں سے اوزون کی تہہ ختم ہونے کے باعث سورج کی کرنیں مزید نقصان دہ ہو چکی ہیں۔لہٰذا ''سن باتھ'' بلاضرورت نہ لیں۔سورج کی کرنوں کی زد میں بلا مقصد نہ رہیں۔ بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) پر خاصی تحقیق ہو چکی ہے اور اب انتہائی ناگزیر حالت کے علاوہ مکمل چھاتی کو الگ کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتاکیونکہ اس کا علاج دوائی اور اشعاعی (ریڈی ایشن) کے ذریعے موثر اور ممکن ہو چکا ہے۔لہٰذا اگر کوئی سرجن دیکھتے ہی فوری طورپر سرجری کا مشورہ دے تو مزید تجربہ کار سرجنز سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ مایوسی'نفرت' بدگمانی' حسد'عداوت' حرص وطمع جسم کے غدودی نظام کو متاثر کرتے ہیں جس سے دماغی صلاحیتیں' شریانیں اور جسم کے خلیات پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔یہ منفی احساسات آخرکار جسم کے خلیات اور ریشوں کو جلاجلا کر سرطان کا باعث بن جاتے ہیں۔ان منفی احساسات سے بچنے کے لیے سب سے بہترین طریقہ ورزش ہے۔بیس پچیس منٹ کی ورزش مردوخواتین دونوں کے لیے سرطان سے بچنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ورزش سے جسم وذہن تروتازہ ہو جاتاہے۔ورزش اور اس کے ذریعے آکسیجن کا حصول جسم کی قوت مدافعت(Immunity) بڑھادیتاہے اور یہ قوت سرطان سمیت ہر قسم کے امراض کی مدافعت کا باعث بنتی ہے۔ مندرجہ بالاتدابیرپر عمل کرکے انشاء اللہ یقینا ہم سرطان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔٭٭