مہ جبین
محفلین
آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا
جہل نے بازو سمیٹے ، علم کا شہپر کھلا
چاند سورج آپ کی تنویر سے روشن ہوئے
بابِ مغرب وا ہوا ، دروازہء خاور کھلا
آپ کی بخشش ہے سب پر کیا فرشتے کیا بشر
آپ کا بابِ سخاوت ہے دوعالَم پر کھلا
جب زمیں پر آپ کے قدموں سے بکھری کہکشاں
مقصدِ تکوینِ عالم تب کہیں جاکر کھلا
ہم گنہگاروں کی پردہ پوشیاں ہوجائیں گی
آپ کا دامانِ رحمت جب سرِ محشر کھلا
دل میں جب آیا کبھی عہدِ رسالت کا خیال
ایک منظر وقت کی دیوار کے اندر کھلا
قلبِ مضطر پر کسی نے دستِ تسکیں رکھ دیا
اُن کے سنگِ در پہ اس آئینے کا جوہر کھلا
اس کو کہتے ہیں سخاوت یہ سخی کی شان ہے
حرف بھی لب پر نہ آیا ، لطف کا دفتر کھلا
اُس کی مدحت کیا لکھیں گے ہم زمیں والے ایاز
جس شہِ لوح و قلم پر گنبدِ بے در کھلا
ایاز صدیقی