مہ جبین
محفلین
آپ آئے نفرتیں سر در گریباں ہوگئیں
بزمِ جاں میں پیار کی شمعیں فروزاں ہوگئیں
آپ کی کملی سے پھوٹی ایک لاہوتی کرن
ہر طرف انوار کی پَریاں پَر افشاں ہوگئیں
اللہ اللہ آپکے نقشِ قدم کی برکتیں
سجدہ گاہِ قدسیاں طیبہ کی گلیاں ہوگئیں
جنتِ تخیل میں گویا دبستاں کھل گیا
میں ہُوا مدحت سرا ، حوریں ثنا خواں ہوگئیں
میرا کیا بگڑا، کہ ہوں آسودہء عشقِ رسول
گردشیں مجھ سے الجھ کر خود پریشاں ہوگئیں
پھر مدینے کو گئے حُجاج میں پھر رہ گیا
حسرتیں پھر حلقہ ہائے دامِ ہجراں ہوگئیں
کیا دعا مانگیں ایاز اب جالیوں کو چوم کر
" یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں "
ایاز صدیقی