آپ بھی اپنے مفید تجربات سے نوازیں

محمدصابر

محفلین
محسن بھائی کی اس تحریر کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے بھی اپنے تجربات دوستوں سے شیئر کرنے چاہئیں کیونکہ پہلا تجربہ جس پر اپنا سر پیٹا تھا اس وقت یہ احساس نہیں تھا کہ روز روز ہی ایسے واقعات سے سامنا رہے گا۔ تب میں نے ایک محترمہ کو انک جیٹ پرنٹر سیٹ اپ کر کے دیا۔ دوسرے ہی دن محترمہ کا فون موصول ہوا کہ پرنٹ نہیں نکل رہا۔ ریموٹ ایکسیس کی تو پتہ چلا کہ پرنٹر آن لائن نہیں ہے ان سے آدھ گھنٹہ مختلف سوال و جواب کرنے کے بعد آخر کار وہاں جانا ہی پڑا تو دیکھا کہ یوایس بی کیبل ، پیرالل پورٹ پر لگی ہے۔ دل و دماغ کا کیا حال ہوا ہو گا یہ جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

یہ دھاگہ سب کے لئے کھلا ہے :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
پہلے تو اس ٹیکنالوجی بریک تھرو کے بارے میں بتائیں جس میں پیرلل پورٹ پر یو ایس بی کیبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔
 

محمدصابر

محفلین
نبیل بھائی انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا ہوا ہے اور وہ اپنے آپ کو آئی ٹی ایکسپرٹ سمجھتی ہیں اس لئے ان کے لئے یہ ممکن تھا۔ ابھی پرسوں ہی انہوں کے مانیٹر کی پاور سپلائی خراب ہوگئی کل ٹھیک کروا کر دیا تو اگلے دن ہی آئی ٹی انچارج کو بلا کر کہنے لگی کس جاہل سے مانیٹر ٹھیک کروایا ہے میرا سارا ڈیٹا اُڑ گیا ہے اب میں اپنا ڈیٹا کہاں سے لاؤں۔ آج اس نے جب مجھے یہ بات سنائی تو ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا۔
 

ابوشامل

محفلین
ایک ملازمت کے دوران ایک خاتون کو بطور سسٹم ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ ایک روز دفتر میں اس بات پر شور مچایا کہ ڈیٹابیس میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے، سافٹ ویئر میں نمبر انٹر نہیں ہو رہے۔ کافی دیر انہوں نےاپنی ٹیم کا متھا کھایا، اچانک ایک ڈیٹا انٹری آپریٹر بولا "میڈم! num lock آن کر لیں" :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس طرح کے واقعات کو عرف عام میں کمپیوٹر بلوپرز کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسے واقعات سنا کر ہم ہنسی مذاق کر لیتے ہیں لیکن اس سے تکنیکی طور پر نسبتاً کم یا نہ ہونے کے برابر تجربہ رکھنے والوں کا مذاق اڑانا مناسب نہیں ہے۔ یہاں یورپی ممالک میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو گزشتہ 20 سال یا زیادہ عرصے سے پرانے طریقے سے دفتری کام کر رہے ہیں اور ایک دم ان کے سامنے کمپیوٹر رکھ دیا جائے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی بلاوجہ خود کو ایکسپرٹ سمجھ رہا ہو تو اس کی عقل ٹھکانے لگانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ :)
میں نے پاکستان کے ایک ادارے میں کچھ مہینے آئی ٹی سپورٹ کا کام کیا تھا اور اس دوران کچھ یادگار تجربے بھی ہوئے تھے۔ اس وقت ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک مرتبہ مجھے منیجنگ ڈائریکٹر صاحب کے پی اے کا فون آیا۔ پاکستان میں ایم ڈی کے پی اے بھی بڑی شے مانا جاتا ہے۔ تو جناب ایم ڈی کے پی اے صاحب نے مجھ مسکین سپورٹ انجنیر کو ڈپٹ کر کہا کہ کل تم میرا لیزر پرنٹر انسٹال کرکے گئے تھے وہ خراب ہو گیا ہے۔ فوراً آ کر چیک کرو۔ میں فوراً ان کے پاس پہنچا۔پرنٹر کو چیک کیا تو وہ کمپیوٹر کی پورٹ کے ساتھ کنکٹ ہوا ہوا تھا۔ پرنٹر کی پاور کیبل سٹیبلائزر میں جا رہی تھی۔ سٹیبلائزر کی کیبل یو پی ایس میں جا رہی تھی اور یو پی ایس کی کیبل کہیں بھی نہیں جا رہی تھی۔ میں نے یو پی ایس کو مین پاور کے ساتھ جوڑا اور یوں مستری مرمت کا کام مکمل کرکے ہاتھ جھاڑتا ہوا واپس آ گیا۔ :)
 

فخرنوید

محفلین
آج میں نے اپنے سکول کی کمپیوٹر لیب اٹینڈنٹ کو کہا دوسرے سسٹم سے جا کر ڈیٹا ٹریولر ڈرائیو میں ان پیج کاپی کر لو۔ اس نے دوسرے سسٹم سے صرف ان پیج کی ایگزی فائل کاپی کر کے مجھے پکڑا دی جبکہ باقی تمام فولڈر کی فائلز رہنے دیں۔
 

فخرنوید

محفلین
نبیل بھائی انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا ہوا ہے اور وہ اپنے آپ کو آئی ٹی ایکسپرٹ سمجھتی ہیں اس لئے ان کے لئے یہ ممکن تھا۔ ابھی پرسوں ہی انہوں کے مانیٹر کی پاور سپلائی خراب ہوگئی کل ٹھیک کروا کر دیا تو اگلے دن ہی آئی ٹی انچارج کو بلا کر کہنے لگی کس جاہل سے مانیٹر ٹھیک کروایا ہے میرا سارا ڈیٹا اُڑ گیا ہے اب میں اپنا ڈیٹا کہاں سے لاؤں۔ آج اس نے جب مجھے یہ بات سنائی تو ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا۔

اس کے بعد اس نے جا کر چیک کیا تو ان محترمہ نے ان پیج رن کیا اور ڈی ڈرائیو سے فائل کھولی اور کہنے لگی اس فائل میں تو میرا ڈیٹا تھا۔ جب اس نے چیک کیا تو وہ ان پیج کی فائل کے صفحہ نمبر چودہ پر تھی، جو خالی تھا اور اوپر والے تمام صفحات پر اس کا سارا ڈیٹا موجود تھا۔
 

محمدعمر

محفلین
ایک واقعہ میری طرف سے بھی
ایک صاحب تھے جو کہ اپنے آپکو بڑا ایکسپرٹ سمجھتے تھے۔ براؤزر میں کسی بھی تصویر کو کمپیوٹر میں سیو کرنے کے لئے پہلے اسے سلیکٹ کرتے تھے۔ جیسے ٹیکسٹ کو سلیکٹ کیا جاتا ہے پھر رائٹ کلک کر کے سیو کرتے تھے۔ حالانکہ تصویر پر رائٹ کلک کر کے اسے سیو کیا جا سکتا ہے اسے سلیکٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی
 
یہاں ایک بہت مشہور کمپنی کے آئی ٹی مینجر جب بھی دفتر سے تھوڑی دیر کیلئے باہر نکلتے تھے تو کمپیوٹر کو شٹ ڈاؤن کرکے نکلتے تھے۔ پھر ایک سپورٹ ٹیکنیشن نے انہیں کمپیٹر کو لاک کرنے اور Ctrl+Alt+Deleteسے اسے کھولنے کا گر بتایا
 

ابوشامل

محفلین
جب کمپیوٹر سے نئی نئی واقفیت ہوتی ہے کہ تو ہم سے بھی غلطیاں ہوا کرتی تھیں۔ اگر کوئی اپنا واقعہ شیئر کرے تو مزا آئے :)
 

محمدصابر

محفلین
فہد بھائی آپ سے تو غلطیاں ہوتی تھیں۔ مجھ سے تو ابھی تک ہوتی ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے ہی سکینر کی یو ایس بی کیبل لگائی تو سکینر چلا ہی نہیں تھوڑی ہی دیر میں پتہ چلا کہ وہ یوایس بی کیبل ایک طرف سے کمپیوٹر میں تو لگی ہوئی ہے دوسری طرف سے کہیں نہیں لگی ہوئی اور سکینر والی کیبل بھی سکینر میں تو لگی ہوئی ہے دوسری طرف سے آزاد ہے۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
میرے گروپ میں ایک نائجیرین اپنی حکومت کی طرف سے کچھ " خاص کام " سیکھنے آیا ۔ ایک دفعہ میں نے اس کو کہا کہ جاؤ ۔۔۔۔ یہ سی ڈی برن کرکے لے آؤ ۔ تھوڑی دیر بعد وہ جلی ہوئی سی ڈی میرے ہاتھ میں تھما گیا ۔ :idontknow:
 

فاتح

لائبریرین
لیجیے صاحب! اپنا واقعہ ہم سنائے دیتے ہیں۔ یہ لگ بھگ 12 برس پرانا واقعہ ہے جو ہم آج تک اپنے تمام دوستوں اور دفتری ساتھیوں کو سنا چکے ہیں۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمارا کمپیوٹر ڈسپلے دینا بند ہو گیا یعنی بیپس بھی آ رہی تھیں اور ہارڈ ڈسک وغیرہ کی تمام لائٹس بھی وقتِ معینہ پر جلتی بجھتی جاتی تھیں ما سوائے تصویر کے جو مانیٹر پر ظہور پذیر نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے کمپیوٹر کو کسی ٹیکنیشن کی خدمت میں پیش کرنا اپنی شان کے خلاف جانا کہ بزعمِ خود اپنے تئیں ہارڈویئر انجینئرنگ میں سند تسلیم کرتے ہیں۔ خیر ہم نے آستینیں چڑھائیں، پیچ کس تھاما، سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر کو جیب سے نکال سلیقے سے میز پر سجایا اور بحرِ ظلمات میں کود پڑے۔
نہ صرف انٹرکام پر بلکہ بنفسِ نفیس بھی دفتر کے تمام ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً دفتر کی تمام درازوں اور کونوں کھدروں سے گرافک کارڈز، مدر بورڈز اور میموری چپس ڈھونڈ کر ہماری خدمتِ عالیہ میں پیش کیے جائیں۔ گھنٹے بھر میں کہاروں نے ہمارا کمرہ کمپیوٹر ہارڈویئر کا ہسٹری میوزیم بنا ڈالا اور ہم ان نوادرات کے بیچوں بیچ گویا کسی سنگھاسن پر براجمان ان عجائبات کو باری باری بدل بدل کر کمپیوٹر میں لگا رہے تھے کہ آخر ہارڈویئر انجینئر بھی اس کے سوا کیا کرتے ہیں۔ کسی مدر بورڈ کی ہمارے پراسیسر سے نہیں بنتی تھی تو کوئی ریم ہمارے مدر بورڈ سے میل نہیں کھاتی تھی، کچھ گرافک کارڈز اس قدر ضعیف تھے کہ گویا نزع کے عالم میں ہوں اور کچھ کے گلے میں not working کا تعویذ آویزاں تھا۔ ان صعوبتوں سے گزرتے صبح سے دوپہر ہونے کو آئی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اور مسلسل ناکامی کے باعث چڑچڑے پن کا یہ عالم ہو چکا تھا کہ ہم بات بے بات ہر کسی کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔
ہمارا آفس بوائے شنکر، جو ہمارے جملہ خورد و نوش کا ذمہ دار تھا، ہم سے دو تین مرتبہ بلا وجہ گھرکیاں کھا کر اب بے حد خاموشی سے ہر تھوڑی دیر میں کافی کا کپ بنا کر ہمارے سامنے رکھ جاتا تھا۔ دوپہر کو ہمیں کھانا بہم پہنچانا بھی اسی بے چارے کے پیشہ ورانہ فرائض کا حصہ تھا، اور اس فرضِ منصبی کو نباہتے ہوئے با دلِ نخواستہ جب وہ کمرے میں آیا تو کھانا ہمارے سامنے رکھ کر ڈرتے ڈرتے ہم سے پوچھنے لگا "سر! وہ ٹیبل کے پیچھے آپ کے مانیٹر کی بجلی کی تار جس ایکسٹینشن میں لگتی ہے وہ ایکسٹینشن بجلی کے بورڈ میں سے نکلی ہوئی ہے، اسے واپس ساکٹ میں لگا دوں؟"
ہم نے اس جانب نظر کی تو یاد آیا کہ گذشتہ شام پی بی ایکس پر تجربات کے دوارن ہم نے اس ساکٹ میں سے مانیٹر کی ایکسٹینشن کی تار نکال کر وہاں پی بی ایکس کی تار لگائی تھی مگر دوبارہ مانیٹر کی تار لگانا بھول گئے تھے۔ منہ چڑاتا ہوا زمین بوس پاور ایکسٹینشن کا پلگ، ہمارے ارد گرد پھیلا بھنڈارا اور اس پر طرہ شنکر کی مسکراہٹ، یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر خجالت کے مارے ہمارا حال ایسا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں مگر کمپیوٹر سائنس کا ایک گریجویٹ اور ایک کورے ان پڑھ آفس بوائے کی اصلاح قبول کرے، کیسے ممکن ہے؟
"ہم نے خود نکالی ہوئی ہے وہ تار اور ہاں تم سے جتنا کہا جائے نا اتنا ہی کام کیا کرو، زیادہ سائنس دان بننے کی کوششیں نہ کیا کرو۔ سمجھے! تمھیں ہزار بار کہا ہے کہ کھانے کے ساتھ ٹھنڈا پانی لے کر آیا کرو مگر تمھارے کان پر تو جوں تک نہیں رینگتی، جا کر فرج سے ٹھنڈا پانی لا کر دو! یہاں کھڑے کھڑے ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟" ہم نے شنکر کو ایک مرتبہ مزید ڈانٹ پلا دی اور اس کے ٹھنڈا پانی لے کر آنے پر ہم اپنا کمرا شام تک اندر سے بند کر لیا مبادا کوئی ہمارا فوراً کام کرتا ہوا ڈسپلے دیکھ کر اسے شنکر کی نشان دہی کا نتیجہ نہ سمجھنے لگے۔
 

ابوشامل

محفلین
میرے گروپ میں ایک نائجیرین اپنی حکومت کی طرف سے کچھ " خاص کام " سیکھنے آیا ۔ ایک دفعہ میں نے اس کو کہا کہ جاؤ ۔۔۔۔ یہ سی ڈی برن کرکے لے آؤ ۔ تھوڑی دیر بعد وہ جلی ہوئی سی ڈی میرے ہاتھ میں تھما گیا ۔ :idontknow:
"خاص کام"؟؟؟ اوہو ۔۔۔۔ چلیں ایک خاص کام تو کر کے آپ کے ہاتھ پر تھما گیا نا؟ :grin:
 

ابوشامل

محفلین
ہاہاہا ۔۔۔۔ ۔فاتح بھائی، ایک عام سے واقعے کو آپ نے جس انداز اور الفاظ میں پیش کیا ہے، کمال کر دیا۔ مجھے خصوصاً "بحر ظلمات" پر بہت ہنسی آئی :grin::grin::grin:
 

فاتح

لائبریرین
ہاہاہا ۔۔۔۔ ۔فاتح بھائی، ایک عام سے واقعے کو آپ نے جس انداز اور الفاظ میں پیش کیا ہے، کمال کر دیا۔ مجھے خصوصاً "بحر ظلمات" پر بہت ہنسی آئی :grin::grin::grin:
بہت شکریہ ابو شامل صاحب۔
لیکن قبلہ! ہمارے اس خالصتاً تحقیقاتی مقالے میں پیش کردہ سائنسی تحقیق کو، جس کی بنیاد پر ہم کمپیوٹر انجینئرنگ میں تخصص کا ارادہ کیے بیٹھے تھے، "ایک عام سا واقعہ" کہہ کر تو آپ نے ہماری سائنسی و تحقیقی خدمات کی ہنڈیا چوراہے کے بیچ میں پھوڑ ڈالی۔:grin:
 

ابوشامل

محفلین
بہت شکریہ ابو شامل صاحب۔
لیکن قبلہ! ہمارے اس خالصتاً تحقیقاتی مقالے میں پیش کردہ سائنسی تحقیق کو، جس کی بنیاد پر ہم کمپیوٹر انجینئرنگ میں تخصص کا ارادہ کیے بیٹھے تھے، "ایک عام سا واقعہ" کہہ کر تو آپ نے ہماری سائنسی و تحقیقی خدمات کی ہنڈیا چوراہے کے بیچ میں پھوڑ ڈالی۔:grin:
ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے آپ کے مذکورہ بالا الفاظ نے اس واقعے کو واقعی "خاص" بنا دیا ہے :grin:
 

خورشیدآزاد

محفلین
لیجیے صاحب! اپنا واقعہ ہم سنائے دیتے ہیں۔ یہ لگ بھگ 12 برس پرانا واقعہ ہے جو ہم آج تک اپنے تمام دوستوں اور دفتری ساتھیوں کو سنا چکے ہیں۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمارا کمپیوٹر ڈسپلے دینا بند ہو گیا یعنی بیپس بھی آ رہی تھیں اور ہارڈ ڈسک وغیرہ کی تمام لائٹس بھی وقتِ معینہ پر جلتی بجھتی جاتی تھیں ما سوائے تصویر کے جو مانیٹر پر ظہور پذیر نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے کمپیوٹر کو کسی ٹیکنیشن کی خدمت میں پیش کرنا اپنی شان کے خلاف جانا کہ بزعمِ خود اپنے تئیں ہارڈویئر انجینئرنگ میں سند تسلیم کرتے ہیں۔ خیر ہم نے آستینیں چڑھائیں، پیچ کس تھاما، سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر کو جیب سے نکال سلیقے سے میز پر سجایا اور بحرِ ظلمات میں کود پڑے۔
نہ صرف انٹرکام پر بلکہ بنفسِ نفیس بھی دفتر کے تمام ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً دفتر کی تمام درازوں اور کونوں کھدروں سے گرافک کارڈز، مدر بورڈز اور میموری چپس ڈھونڈ کر ہماری خدمتِ عالیہ میں پیش کیے جائیں۔ گھنٹے بھر میں کہاروں نے ہمارا کمرہ کمپیوٹر ہارڈویئر کا ہسٹری میوزیم بنا ڈالا اور ہم ان نوادرات کے بیچوں بیچ گویا کسی سنگھاسن پر براجمان ان عجائبات کو باری باری بدل بدل کر کمپیوٹر میں لگا رہے تھے کہ آخر ہارڈویئر انجینئر بھی اس کے سوا کیا کرتے ہیں۔ کسی مدر بورڈ کی ہمارے پراسیسر سے نہیں بنتی تھی تو کوئی ریم ہمارے مدر بورڈ سے میل نہیں کھاتی تھی، کچھ گرافک کارڈز اس قدر ضعیف تھے کہ گویا نزع کے عالم میں ہوں اور کچھ کے گلے میں not working کا تعویذ آویزاں تھا۔ ان صعوبتوں سے گزرتے صبح سے دوپہر ہونے کو آئی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اور مسلسل ناکامی کے باعث چڑچڑے پن کا یہ عالم ہو چکا تھا کہ ہم بات بے بات ہر کسی کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔
ہمارا آفس بوائے شنکر، جو ہمارے جملہ خورد و نوش کا ذمہ دار تھا، ہم سے دو تین مرتبہ بلا وجہ گھرکیاں کھا کر اب بے حد خاموشی سے ہر تھوڑی دیر میں کافی کا کپ بنا کر ہمارے سامنے رکھ جاتا تھا۔ دوپہر کو ہمیں کھانا بہم پہنچانا بھی اسی بے چارے کے پیشہ ورانہ فرائض کا حصہ تھا، اور اس فرضِ منصبی کو نباہتے ہوئے با دلِ نخواستہ جب وہ کمرے میں آیا تو کھانا ہمارے سامنے رکھ کر ڈرتے ڈرتے ہم سے پوچھنے لگا "سر! وہ ٹیبل کے پیچھے آپ کے مانیٹر کی بجلی کی تار جس ایکسٹینشن میں لگتی ہے وہ ایکسٹینشن بجلی کے بورڈ میں سے نکلی ہوئی ہے، اسے واپس ساکٹ میں لگا دوں؟"
ہم نے اس جانب نظر کی تو یاد آیا کہ گذشتہ شام پی بی ایکس پر تجربات کے دوارن ہم نے اس ساکٹ میں سے مانیٹر کی ایکسٹینشن کی تار نکال کر وہاں پی بی ایکس کی تار لگائی تھی مگر دوبارہ مانیٹر کی تار لگانا بھول گئے تھے۔ منہ چڑاتا ہوا زمین بوس پاور ایکسٹینشن کا پلگ، ہمارے ارد گرد پھیلا بھنڈارا اور اس پر طرہ شنکر کی مسکراہٹ، یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر خجالت کے مارے ہمارا حال ایسا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں مگر کمپیوٹر سائنس کا ایک گریجویٹ اور ایک کورے ان پڑھ آفس بوائے کی اصلاح قبول کرے، کیسے ممکن ہے؟
"ہم نے خود نکالی ہوئی ہے وہ تار اور ہاں تم سے جتنا کہا جائے نا اتنا ہی کام کیا کرو، زیادہ سائنس دان بننے کی کوششیں نہ کیا کرو۔ سمجھے! تمھیں ہزار بار کہا ہے کہ کھانے کے ساتھ ٹھنڈا پانی لے کر آیا کرو مگر تمھارے کان پر تو جوں تک نہیں رینگتی، جا کر فرج سے ٹھنڈا پانی لا کر دو! یہاں کھڑے کھڑے ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟" ہم نے شنکر کو ایک مرتبہ مزید ڈانٹ پلا دی اور اس کے ٹھنڈا پانی لے کر آنے پر ہم اپنا کمرا شام تک اندر سے بند کر لیا مبادا کوئی ہمارا فوراً کام کرتا ہوا ڈسپلے دیکھ کر اسے شنکر کی نشان دہی کا نتیجہ نہ سمجھنے لگے۔

واہ زبردست فاتح بھائی پڑھتے پڑھتے جواب عرض کی یادیں تازہ ہوگئیں بہت خوب مزہ آگیا۔ ویسے بعینہ یہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا تھا فرق صرف کرداروں کا تھا میرے واقعے میں مانیٹر اے سی پلگ کی جگہ انٹرنیٹ موڈیم کی ڈی ایس ایل کیبل پلگ تھا۔
 
Top