سید رافع
محفلین
دوسری شادی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کے اخبار کا اشتہار دینے سے شادی ہونے میں کل تین ماہ کا عرصہ لگا۔
لڑکا اور لڑکی دونوں دوسری دفعہ دولہا دلہن بننے جا رہے تھے۔
عجیب وقت تھا۔
گھر والوں کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پندرہ ماہ پہلے کاواقعہ کیا اتنا ہی کمتر ہے کہ بھلا دیا جاے؟
لڑکا حال میں زندہ رہنا چاہتے تھے لیکن گھر والے ماضی میں رہنا چاہتے تھے۔
بار بار کی باز پرس کی وجہ سے لڑکا دوبارہ یتیم کے پاس منتقل ہو گیا تھا کہ دوبارہ تعلق بحال ہو۔
لیکن اب لڑکا کسی کو قبول نہ تھا۔
نہ یتیم کو۔ نہ ان کی رفیق حیات کو۔ نہ بھای کو۔ نہ بہن کو۔ یہ غداری کی سزا تھی۔
جو خلوص لڑکا جمع کر کے لایا تھا وہ پچھلے جراِیم کی تلافی کے لیے ناکافی تھے۔
بھابی نے شادی میں شرکت نہ کی۔
بھای نے باز پرس نہ کی۔
بس شادی کے بعد لڑکے کے والدین کی امریکہ روانگی تھی۔
ٹاور پر لڑکے کی جاب ختم ہوی۔
بھای نے باز پر س کی۔
سو بھای کا گھر ایک ماہ بعد ہی دولہا دولہن کو چھوڑنا پڑا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اولاد ہونے کی اطلاع۔
- میاں ظہوری
اولاد - سو لفظوں کی کہانی
اسکا فون آیا ہوا تھا۔لڑکے کے پہلو میں اسکی دوسری دولہن تھی۔
عجیب وقت تھا، بچہ دوسری سے، اور لڑکا خوشی حاصل کر رہا ہے اپنی پہلی دولہن کو بتا کر!
یہ کافی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے آگے کرب کا ایک نیا دور شروع ہونے والا تھا ۔
ایسا دور جس میں خوشی کو مل کر رنگ بھرنے کے لیے کوی نہیں تھا۔
ہر کوزے میں کچھ بھرا جا سکتا ہے۔
جب اس دوسری شادی کی بات ہوی تو پہلو کا کوزہ لب تک بھرا ہوا تھا۔
سو باوجود بہت ساری کثافتوں کے چارہ نہیں تھا کہ سر تسلیم خم کیا جاے جو ابتدا سے یتیم اور انکی رفیق حیات کے کھیل اور راحت کا سبب تھا۔
یوں اولاد سے کھیلنا ان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے!
اب وقت آن پہنچا تھا کہ کوزے کا حجم بڑھایا جاے تاکہ دوسری دولہن کے ساتھ لطف و کرم سے رہا جاے۔
بیٹی کی آمد قریب تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ نرس نے اسکو ہرے رنگ کے کمبل میں لپٹا دکھایا۔ وہ رو رہی تھی۔
لڑکےنے اپنی بچی کبھی نہیں دیکھی تھی گھبرا گیا۔
نرس نے مسکراتے ہوے لڑکے کی گود سے بچی لی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ بڑھانے کی جستجو۔
- میاں ظہوری
کوزہ - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کی بیٹی واکر میں یوگے یوگے اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ادھر سے ادھر دوڑتی پھرتی۔
وہ بڑی آنکھوں والی پیاری بچی تھی۔
مانند ایک کھلونے کے۔
رشتے دار لڑکے کو نامرد سمجھتے تھے کہ سات سال بچہ نہیں ہوا تھا۔
اب بھی طرح طرح کے القاب سے یاد کرتے ہِیں۔
انسان بھی عجیب شے ہے سینےصاف کرنے میں کاہلی کرتا ہے اور مخلوق خدا کو طرح طرح سے تنگ کرتا ہے۔
یوں دوسروں کو ضرورت سے زیادہ سینہ صاف کرنا پڑتا ہے کہ تعلقات برقرار رہیں۔
کوزے کا حجم بڑھانے کے کیا کمپنی کے بجاے مدرسے میں نوکری کر لیں؟
تاکہ ان کلفتوں سے نجات ملے جو ہر کمپنی کا خاصہ ہے۔
لیکن کانٹے ہر جگہ ہیں اور خوشبو صرف کتاب میں رہ گی ہے۔
لڑکا شارع فیصل میں گھوما اور اداروں کو بلامعاوضہ پروجیکٹ کرنے کو کہا تاکہ پیسے سے پیدا ہونے والی سختی سے وقتی نجات ملے۔صرف ایک ایڈورٹایزنگ کمپنی کے مالک نے بات سنی اور راضی ہوے۔
انہوں نے کہا :اٹس یور کال۔زیر لب وہ یہ کہہ رہے تھے یوں نہ کرو۔
چنانچہ ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔
بقیہ وقت کبھی تنہا مسجدوں میں، کبھی قبرستانوں میں، کبھی کسی خانقاہ میں، کبھی کسی مجاہد کے ساتھ، کبھی کسی شیخ کی مجلس میں، کبھی کسی مدرسے میں، کبھی ہسپتالوں اور کبھی یونہی شارعوں پر گزرے لگا۔
دوسرے بیٹے کی آمد۔وہ کسقدر خوبصورت تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ کے حجم بڑھانے کی کوی راہ نہیں مل رہی ۔
- میاں ظہوری
تیسری اولاد - سو لفظوں کی کہانی
وہ امید سے ہے۔ بہن بھای کو ایک اور بھای ملنے والا ہے۔
بڑی بڑی والا لڑکا جب اس دنیا میں آتا ہے تو ہر بچے کی طرح لڑکا اسکے دونوں کانوں میں اذان دیتا ہے۔
ساتویں دن عقیقہ ہو جاتا ہے۔
اولاد کے ساتھ ذمہ داریاں اور معاش کاتسلسل اور اہم بن جاتا ہے۔
لڑکا خود تو مسجدوں کی گرم سرد زمین پر سونے کا عادی سا ہوتا جا رہا تھا
لیکن بچوں کے لیے نرم ای سی سے کم اسکے تصور میں نہ تھا!
محبت فیول کی طرح ہوتی ہے۔
دوسری دلہن کے پاس یہ فیول کثرت سے تھا۔
گاڑی اسی کے سہارے چل رہی تھی۔
لیکن لڑکے کی ناخوشی کو وہ شادی کے چند مہینوں میں ہی بھانپ گی تھی۔
لیکن کمال کا صبر ہے اسکا۔مسکراتا چہرہ اور مزاجا مزاحیہ۔ لپک کے ادھر۔ چھپک کر ادھر۔
وہ بھرے ہوے کوزے میں حتی الامکان کچھ نہ ڈالتی تھی لیکن یہی محبت کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
اسکی بچے سنبھالنے کی خواہش اور گھر کے کاموں کو خوشی خوشی پورا کرنے کی صدا روز بروز زور پکڑنے لگی۔
یہ توجہ اور ضرورت دونوں کی صدا تھی۔لڑکے کی بہترین کوشیش بھی ناکام ہوتی دکھای دے رہیں تھیں۔
لیکن نوکری کے بوجھ اور دیگر باتوں کی وجہ جو گزر چکی تھیں لڑکے میں نہ توانای تھی نہ وہ ولولہ نہ رہا تھا۔
وہ بات بے بات پر کچن دوڑ جاتی تاکہ گفتگو کا زیادہ موقع ہی نہ آے۔
تینوں بچے شور مچاتے دوڑتے بھاگتے دکھای دینے لگے۔
لڑکے کو قطر سے نوکری کی آفر ہوتی ہے ۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا قطر روانہ ہوتا ہے ۔
- میاں ظہوری
دوحا قطر - سو لفظوں کی کہانی
قطر کی نوکری گویا بادشاہ کے گھر میں ملازم ہونا تھا۔
کمپنی میں سہولیات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔
لڑکے سے بچوں کے بغیر نہ رہا جا رہا تھا۔
لڑکی بھی پورے زور و شور سے قطر آنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔
لڑکا دوحا سے تین ماہ بعد آتا ہے اور سب کو ساتھ لے جاتا ہے۔
پچاس سے زائد کارٹن میں سامان پیک تھا۔
یہ سخت تھکا دینے والا سفر تھا۔
بے انتہا پیکنگ۔ گھر کو خالی کرنا۔ سامان شفٹ کرنا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
جب دو ساتھ رہتے ہوے افراد کسی قسم کی تکلف رکھیں تو وہ بوجھ دل پر آتا ہے۔
تکلف اچھی ثابت نہیں ہو رہی تھی۔
لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنے اور لڑکا اپنے وجود اور باتوں کو کسی نادیدہ قوت کے تحت سمیٹ کر رکھتے۔
محبت دوستی لاتی ہے۔ دوستی عشق لاتا ہے۔
لیکن یہاں جذبات ان کہے اور زندگی میں یکسانیت سی ہو رہی تھی۔حالانکہ تفریح کا کوی موقعہ نہیں چھوڑا جا رہا تھا۔
بچوں کو سنبھالنے اور گھر کے کام زیادہ سے زیادہ کرنے کا اصرار زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔
لڑکے کا جسم کھنچ گیا۔
عرب اداروں کی سیاست دبانے اور شاہ کے تابع کرنے والی ہوتی ہے۔
یہ کھنچاو کو دھورا کر رہی تھی۔
گھر میں بچوں کا شور اور آفس میں کام کا زور نے اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔
آفس والوں کو کام بہت پسند آرہا تھا۔ وہ سیلری اور پوزیشن بڑھانا چاہتے تھے۔
لڑکا تناو اور کھنچاو کا شکار ہوکر بیمار پڑا۔ آفس میں بات خراب ہوی۔ جاب ختم ہوی۔
لڑکے نے اپنی یورنیوسٹی کے دوست سے رابطہ کیا۔
وہ ایک بڑی فرم میں قطر میں ہی ملازمت کر رہا تھا۔
اس نے کوی جواب نہ دیا۔
شام چھ بجے کا وقت تھا۔لڑکی عجیب صابرہ۔ ماتھے پر شکن نہیں۔ بلکہ مسکراہٹ۔
ایک طویل تھکا دینے والی پیکنگ کے بعد جہاز دوحا ایرپورٹ سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ایک سال تک بستر دراز۔
- میاں ظہوری
تناو - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا اپنے جسم کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔
وہ سخت تناو میں تھا۔
اسی میں قطر کی جمع پونجھی سے ایک فلیٹ لے لیا۔انشا اللہ
جسم میں اتنا کھچاو تھا کہ لڑکاسال بھر تک بستر پر رہا۔
اسکی وجہ ایک طویل سفر اور ڈھلتی عمر تھا تو دوسری طرف قطر کی سخت تھکاوٹ۔
اسکے علاوہ ایک خاص قسم کا تکلف جو خیال پر مبنی تھا لیکن محبت معدوم تھی۔
لڑکی اس پوری گاڑی کا فیول تھی۔ لیکن وہ سرد مہر ہوی تو تناو دو چند ہو گیا۔
اب یہاں نہیں رہا جا سکتا۔
ایک دوست سعودی عرب آنے کا پوچھتے ہیں۔
کمپنی بے حد اچھی تھی۔ لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بیوی بچے کس کے پاس چھوڑ کر جاے۔
اکیلے۔ شاید یہی حل تھا ورنہ کوی سبیل آگے بڑھنے کی نظر نہیں آ رہی تھی۔
پانچ مہینے ویزا آنے میں لگے۔جہاز صبح کراچی کی نم آلود فضا کو چھور کر جدہ کا رخ کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے جدہ کے بادشاہ کی غلامی۔
- میاں ظہوری
جدہ - سو لفظوں کی کہانی
جدہ کی بادشاہت میں اترے ابھی چھ گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بادشاہ کی تپش کا اندازہ ہو گیا۔
گاڑی کا ڈرایور کہہ رہا تھا کہ میرا یہ کام نہیں۔ دیر سے پہنچا ہوں تو کیا۔
یہ ملک کحینچ کر رکھنے والا ہے۔
ہر سعودی کو بادشاہ کی ماننی ہوتی ہے اور ہر آنے والے کی سعودی کی۔
اپنی مرعات حاصل کرنے کے لیے لڑکے کو وہ جستجو کرنی پڑی کہ جس کے لیے اسکا جسم تیار نہ تھا۔
کمپنی بے حد اچھی تھی لیکن جب دل دماغ تھکے ہوں تو معمولی کام بھی پہاڑ لگتے ہیں۔
سیاست، چالیں، کنٹرول، رویہ۔ اف یہ کیسی جگہ ہے۔
بولا گیا کہ ویزا ختم ہونے والا ہے۔ اور ویزا دے نہیں رہے۔
بولا گیا کہ اگر ویزا نہ لگا تو بلیک لسٹ۔ ایک مسکراہٹ اور ڈانٹ لیکن ویزے کی سبیل کچھ نہیں۔
ویزا لینے کے لیے بحرین جانا ہوگا۔لیکن پانچ سو ریال کی ٹیکسی اور جہاز کا ٹکٹ آپکا۔
وہاں ہر ملازم کو اپنی تنخوا ہ کا کچھ حصہ پھسنانا ہوتا ہے کہ مہینے بھر بعد کمپنی واپس دے دے۔
جدہ سے دمام جانا تھا اور وہاں سے ٹیکسی میں بحرین۔
ایکزٹ ہو اور ویزا لگے۔ لیکن ایکزٹ نہ ہوا۔لڑکے کو دو دن کے لیے پاکستان آنا پڑا۔
جدہ واپس پہنچنے پر لڑکے کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر یہاں رہ رہا ہو۔
باس لڑکے کو بے حد پسند کرنے لگا تھا۔اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کام کے لیے سال مختص ہے وہ دو ماہ میں ہی مکمل ہو جاے گا۔
لڑکا ہوم سک ہو رہا تھا۔ اس سے زیادہ احساس پہلو تہی تھا۔
یہاں سے جانے کا فیصلہ غلط تھا۔ لیکن یہاں آنے کی اساس صحیح نہ تھی۔
وہ روکتے رہ جاتے ہیں۔
رات آٹھ بجے جد ہ کا سفر سوا ماہ میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔اور طیارہ صحرے عرب سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ال رگگا دبیی روانگی۔
- میاں ظہوری
ال رگگا دبیی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے نے قطر سے آنے کے بعد تناو اور کھنچاو کی تشخیص شور اورکمپنی سیاست کا دباو کی تھی۔
ماحول میں محبت کے بجاے تکلف نے اسے سہہ چند کر دیا تھا۔
یہ اسکو قریبا ایک سال سے بستر پر رکھے ہوے تھا۔
اسکو رفع کرنے کے لیے اس نے جدہ کی نوکری کی حامی بھری تھی۔
اسکی دولہن راضی بمعنی زبان تھی لیکن بزبان دل اگر سنیں تو آنکھیں کچھ اور کہہ رہیں تھیں۔
مسکراتے چہرے پر پلکوں میں بھری نمی کسی اور ہی بات کی خبر دے رہی تھی۔
اس ناراضی اور والدین سے اوپری تعلق اس کو جلد ہی جدہ سے کراچی واپس لے آیا تھا۔
لیکن نہ اسکا جسم ابھی پوری طرح کراچی آنے کے لیے تیار ہوا تھا نہ ہی کراچی میں کچھ تبدیل ہوا تھا۔
لیکن وہ کراچی میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
لڑکی اس منظر سے عاجز تھی۔
وہ بات بے بات کچن دوڑ جاتی کہ تکلف کی باتیں مذید لڑکے کی طبیعت خراب نہ کریں۔
لڑکا کراچی میں ایک کینیڈین ادارے میں نوکری کر رہا تھا۔
لیکن جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
شور، گھریلو ذمہ داریاں۔
دولہن و بچوں کے ساتھ لطف و کرم سے رہنا نوکری کے بوجھ کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔
نوکری ختم ہوتی ہے
لڑکا اس منظر پر ہے جو دولہن کو نہیں بھاتا۔
لڑکا دبیی کا ویزا نکالتا ہے اور ایک دفعہ پھر ایک غیر رضامندی کے ماحول میں سفر کا بیگ بناتا ہے۔
طیارہ پیتیس ہزار فٹ پر بحیرہ عرب کے اوپر سے دوڑے چلا جا رہا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کراچی ایرپورٹ پر دوستی۔
- میاں ظہوری
کراچی ٹو دبیی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے نے دبیی جانے سے پہلے ایک یو ٹیوب کے لڑکے سے دوستی کی تھی ۔
وہ آنے والوں کو نوکری اور پلنگ کراے پر دیتا تھا۔
وہ یہ کام اپنے لنکس بڑھانے کے لیے کر رہا تھا۔
لیکن اللہ کو کچھ منطور تھا۔ کراچی ایرپورٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا۔
لڑکے نے اس سے پوچھا کہ آپ دبیی جا رہے ہیں۔
اس نے سر حامی میں ہلایا۔
اس نے پوچھا اور آپ۔ لڑکے نے دبیی بتایا۔
اس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں دبیی میں۔میرے پاس کوی جواب نہ تھا۔
وہ بھانپ گیا۔ اس نے کہا کہ میں ال رگگا میں رہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو میں پلنگ کا پتہ کروں۔
اندھا کیا چاہے۔ دو آنکھیں۔
بس دبیی ایرپورٹ سے ٹیکسی کے ذریعے وہ لڑکا ال رگگا لے گیا اور ایک جگہ دلا دی۔
وہیں لڑکوں سے کھانے کا طے ہو گیا۔اس لڑکے نے سم دلا دی۔ پہلے دن کمرے کے لوگوں نے کھانا گفٹ کیا۔
لڑکا جہاں تک ممکن ہوتا جاب کے لیے اپلای کرتا ورنہ آرام جو درکار تھا۔
بستروں میں کھٹمل تھے۔اور زبان پر پینٹ نیچے اتارنے کے قصے۔
شام کو ال رگگا میں عورتیں ملنےلگتیں۔ وہ شام کو جلد کھانا کھاتیں اور گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتیں۔
کچھ فلپینی مرد مساج مساج مساج کی آوازیں جا بجا آہستہ الفاظ میں کہتے ملتے۔
سڑکوں پر سینکڑوں مساج کے کارڈ پڑے ہوتے۔
لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا بابا آپ انیس دن بعد واپس آجایے گا۔
اس عجیب ما حول میں بھلا کیا آرام ملنا تھا۔
کراچی واپسی کوی خشک کن خیال نہ تھا۔
اسلام آباد پر فضا ہے۔ کیوں نہ وہاں کچھ وقت گزار لیا جاے۔
دبیی کی بلند و بالا عمارتوں کو اپنی پشت دکھاتے ہوے پی آی اے کا طیارہ اسلام آباد کی طرف محو پرواز تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد کے چند دن۔
- میاں ظہوری
اسلام آباد کے چند دن - سو لفظوں کی کہانی
ٹھیک انیسویں دن، جیسا کہ لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا جہاز دبیی سے اڑ چکا تھا۔
اسلام آباد سے ایک جاب کی آفر آی تھی لیکن وہ جگہ پر ہو چکی تھی۔
کیا اسلام آباد کے ہوٹِل میں رہا جاے؟
کسی نے مشورہ دیا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ڈی ایچ اے سٹی ہے وہاں کراے پر اسٹوڈیو لے لو۔
لڑکا مالک مکان کو دس ہزار روپے ایڈوانس دے کر ہوٹل واپس آیا۔
اسکا ارادہ یہیں جاب کرنے کا ارادہ تھا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
رشتوں میں کشش اور کھنچاو ہوتاہے۔
وہ بلاتے ہیں۔
وہ پاوں کی زنجیر بن جاتے ہیں اگر انکی اجازت نہ ہو۔
کسی کا چین، کسی کا قرار لڑکے کی کراچی موجودگی میں تھا۔
مالک مکان کو کال کر کے منع کیا۔
جسم کی ہر نس ایک دھاگہ بنی ہوی محسوس ہو رہی تھی۔
ہر دھاگی تنا ہوا تھا۔
ایک نادیدہ طاقت بار بار لڑکے کو کراچی کیوں لیے آتی ہے؟
کیا پھر کراچی جانا ہو گا جہاں دولہن کو بستر پر لیٹا ہو لڑکا پسند نہیں۔
کیا پھر اسی تکلف والی محبت میں شب و روز گزارنے ہوں گے۔
رگوں کے دھاگے تن کر ٹوٹنے کے قریب تھے۔
ذہن سے تمام خیال اچٹتے ہوے محسوس ہو رہے تھے۔
ہر تدبیر ناکام ہوتے دکھای دے رہی تھی۔
بالآخر میٹرو سے بلیو ایریا جا کر لڑکے نے ٹکٹ حاصل کیا۔
اسلام آباد کے خوبصورت مارگلا ہلز کو اپنے پیچھے چھوڑے پرواز کراچی کی طرف اڑے چلی جا رہی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے طبعیت مزید خراب اور کولا لمپور روانگی۔
- میاں ظہوری
کولا لمپور - سو لفظوں کی کہانی
اسلام آباد سے واپسی پر لڑکا بستر پر یا مسجد کے فرش پر ہوتا تھا۔
باطنی طور پر نہ جانے کون کون سی قوتیں تھیں جو رگوں کو کحنچ رہیں تھیں۔
بعض کو شبہ ہوتا کہ جن یا جادو ہو گیا ہے۔
اسی دوران لڑکے نے کولا لمپور کے دو انٹرویو دیے جو دونوں کامیاب ہوے۔
گھر والوں کی اجازت سے لڑکا کولا لمپور آ گیا۔
کولا لمپور ہریالی سے پر ہے۔ بارش ایسی کہ فارسٹ گمپ کی مووی ماند پڑ جاے۔
گرج ایسی کہ جراسک پارک کو دہلا جاے۔
اور چمک ایسی کی سیونگ پرایویٹ رایان کی انکھیں چندھیا جایں۔
اس دلکش منظر سے لڑکے کے اندر کا منظر تبدیل ہوا۔
کان، آنکھیں، دل، دماغ، چمک، لپک، جھپک ایک ایک کر کے واپس آنے لگیں۔
دوست جانتے ہیں کہ یہاں سے ایک راستہ رشیا اور ایک چین جاتا ہے۔
لیکن فی الحال وہ مناسب قوت کے انتظار میں ہے کہ اگلا قدم کیا ہو۔
اللہ آپ سب کو سلامت رکھے۔
منظر عارضی طور پر منقطع ہو گیا ہے اب کوی دوسرا کوی منظر تراشے۔
- میاں ظہوری
لڑکے کے اخبار کا اشتہار دینے سے شادی ہونے میں کل تین ماہ کا عرصہ لگا۔
لڑکا اور لڑکی دونوں دوسری دفعہ دولہا دلہن بننے جا رہے تھے۔
عجیب وقت تھا۔
گھر والوں کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پندرہ ماہ پہلے کاواقعہ کیا اتنا ہی کمتر ہے کہ بھلا دیا جاے؟
لڑکا حال میں زندہ رہنا چاہتے تھے لیکن گھر والے ماضی میں رہنا چاہتے تھے۔
بار بار کی باز پرس کی وجہ سے لڑکا دوبارہ یتیم کے پاس منتقل ہو گیا تھا کہ دوبارہ تعلق بحال ہو۔
لیکن اب لڑکا کسی کو قبول نہ تھا۔
نہ یتیم کو۔ نہ ان کی رفیق حیات کو۔ نہ بھای کو۔ نہ بہن کو۔ یہ غداری کی سزا تھی۔
جو خلوص لڑکا جمع کر کے لایا تھا وہ پچھلے جراِیم کی تلافی کے لیے ناکافی تھے۔
بھابی نے شادی میں شرکت نہ کی۔
بھای نے باز پرس نہ کی۔
بس شادی کے بعد لڑکے کے والدین کی امریکہ روانگی تھی۔
ٹاور پر لڑکے کی جاب ختم ہوی۔
بھای نے باز پر س کی۔
سو بھای کا گھر ایک ماہ بعد ہی دولہا دولہن کو چھوڑنا پڑا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اولاد ہونے کی اطلاع۔
- میاں ظہوری
اولاد - سو لفظوں کی کہانی
اسکا فون آیا ہوا تھا۔لڑکے کے پہلو میں اسکی دوسری دولہن تھی۔
عجیب وقت تھا، بچہ دوسری سے، اور لڑکا خوشی حاصل کر رہا ہے اپنی پہلی دولہن کو بتا کر!
یہ کافی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے آگے کرب کا ایک نیا دور شروع ہونے والا تھا ۔
ایسا دور جس میں خوشی کو مل کر رنگ بھرنے کے لیے کوی نہیں تھا۔
ہر کوزے میں کچھ بھرا جا سکتا ہے۔
جب اس دوسری شادی کی بات ہوی تو پہلو کا کوزہ لب تک بھرا ہوا تھا۔
سو باوجود بہت ساری کثافتوں کے چارہ نہیں تھا کہ سر تسلیم خم کیا جاے جو ابتدا سے یتیم اور انکی رفیق حیات کے کھیل اور راحت کا سبب تھا۔
یوں اولاد سے کھیلنا ان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے!
اب وقت آن پہنچا تھا کہ کوزے کا حجم بڑھایا جاے تاکہ دوسری دولہن کے ساتھ لطف و کرم سے رہا جاے۔
بیٹی کی آمد قریب تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ نرس نے اسکو ہرے رنگ کے کمبل میں لپٹا دکھایا۔ وہ رو رہی تھی۔
لڑکےنے اپنی بچی کبھی نہیں دیکھی تھی گھبرا گیا۔
نرس نے مسکراتے ہوے لڑکے کی گود سے بچی لی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ بڑھانے کی جستجو۔
- میاں ظہوری
کوزہ - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کی بیٹی واکر میں یوگے یوگے اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ادھر سے ادھر دوڑتی پھرتی۔
وہ بڑی آنکھوں والی پیاری بچی تھی۔
مانند ایک کھلونے کے۔
رشتے دار لڑکے کو نامرد سمجھتے تھے کہ سات سال بچہ نہیں ہوا تھا۔
اب بھی طرح طرح کے القاب سے یاد کرتے ہِیں۔
انسان بھی عجیب شے ہے سینےصاف کرنے میں کاہلی کرتا ہے اور مخلوق خدا کو طرح طرح سے تنگ کرتا ہے۔
یوں دوسروں کو ضرورت سے زیادہ سینہ صاف کرنا پڑتا ہے کہ تعلقات برقرار رہیں۔
کوزے کا حجم بڑھانے کے کیا کمپنی کے بجاے مدرسے میں نوکری کر لیں؟
تاکہ ان کلفتوں سے نجات ملے جو ہر کمپنی کا خاصہ ہے۔
لیکن کانٹے ہر جگہ ہیں اور خوشبو صرف کتاب میں رہ گی ہے۔
لڑکا شارع فیصل میں گھوما اور اداروں کو بلامعاوضہ پروجیکٹ کرنے کو کہا تاکہ پیسے سے پیدا ہونے والی سختی سے وقتی نجات ملے۔صرف ایک ایڈورٹایزنگ کمپنی کے مالک نے بات سنی اور راضی ہوے۔
انہوں نے کہا :اٹس یور کال۔زیر لب وہ یہ کہہ رہے تھے یوں نہ کرو۔
چنانچہ ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔
بقیہ وقت کبھی تنہا مسجدوں میں، کبھی قبرستانوں میں، کبھی کسی خانقاہ میں، کبھی کسی مجاہد کے ساتھ، کبھی کسی شیخ کی مجلس میں، کبھی کسی مدرسے میں، کبھی ہسپتالوں اور کبھی یونہی شارعوں پر گزرے لگا۔
دوسرے بیٹے کی آمد۔وہ کسقدر خوبصورت تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ کے حجم بڑھانے کی کوی راہ نہیں مل رہی ۔
- میاں ظہوری
تیسری اولاد - سو لفظوں کی کہانی
وہ امید سے ہے۔ بہن بھای کو ایک اور بھای ملنے والا ہے۔
بڑی بڑی والا لڑکا جب اس دنیا میں آتا ہے تو ہر بچے کی طرح لڑکا اسکے دونوں کانوں میں اذان دیتا ہے۔
ساتویں دن عقیقہ ہو جاتا ہے۔
اولاد کے ساتھ ذمہ داریاں اور معاش کاتسلسل اور اہم بن جاتا ہے۔
لڑکا خود تو مسجدوں کی گرم سرد زمین پر سونے کا عادی سا ہوتا جا رہا تھا
لیکن بچوں کے لیے نرم ای سی سے کم اسکے تصور میں نہ تھا!
محبت فیول کی طرح ہوتی ہے۔
دوسری دلہن کے پاس یہ فیول کثرت سے تھا۔
گاڑی اسی کے سہارے چل رہی تھی۔
لیکن لڑکے کی ناخوشی کو وہ شادی کے چند مہینوں میں ہی بھانپ گی تھی۔
لیکن کمال کا صبر ہے اسکا۔مسکراتا چہرہ اور مزاجا مزاحیہ۔ لپک کے ادھر۔ چھپک کر ادھر۔
وہ بھرے ہوے کوزے میں حتی الامکان کچھ نہ ڈالتی تھی لیکن یہی محبت کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
اسکی بچے سنبھالنے کی خواہش اور گھر کے کاموں کو خوشی خوشی پورا کرنے کی صدا روز بروز زور پکڑنے لگی۔
یہ توجہ اور ضرورت دونوں کی صدا تھی۔لڑکے کی بہترین کوشیش بھی ناکام ہوتی دکھای دے رہیں تھیں۔
لیکن نوکری کے بوجھ اور دیگر باتوں کی وجہ جو گزر چکی تھیں لڑکے میں نہ توانای تھی نہ وہ ولولہ نہ رہا تھا۔
وہ بات بے بات پر کچن دوڑ جاتی تاکہ گفتگو کا زیادہ موقع ہی نہ آے۔
تینوں بچے شور مچاتے دوڑتے بھاگتے دکھای دینے لگے۔
لڑکے کو قطر سے نوکری کی آفر ہوتی ہے ۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا قطر روانہ ہوتا ہے ۔
- میاں ظہوری
دوحا قطر - سو لفظوں کی کہانی
قطر کی نوکری گویا بادشاہ کے گھر میں ملازم ہونا تھا۔
کمپنی میں سہولیات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔
لڑکے سے بچوں کے بغیر نہ رہا جا رہا تھا۔
لڑکی بھی پورے زور و شور سے قطر آنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔
لڑکا دوحا سے تین ماہ بعد آتا ہے اور سب کو ساتھ لے جاتا ہے۔
پچاس سے زائد کارٹن میں سامان پیک تھا۔
یہ سخت تھکا دینے والا سفر تھا۔
بے انتہا پیکنگ۔ گھر کو خالی کرنا۔ سامان شفٹ کرنا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
جب دو ساتھ رہتے ہوے افراد کسی قسم کی تکلف رکھیں تو وہ بوجھ دل پر آتا ہے۔
تکلف اچھی ثابت نہیں ہو رہی تھی۔
لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنے اور لڑکا اپنے وجود اور باتوں کو کسی نادیدہ قوت کے تحت سمیٹ کر رکھتے۔
محبت دوستی لاتی ہے۔ دوستی عشق لاتا ہے۔
لیکن یہاں جذبات ان کہے اور زندگی میں یکسانیت سی ہو رہی تھی۔حالانکہ تفریح کا کوی موقعہ نہیں چھوڑا جا رہا تھا۔
بچوں کو سنبھالنے اور گھر کے کام زیادہ سے زیادہ کرنے کا اصرار زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔
لڑکے کا جسم کھنچ گیا۔
عرب اداروں کی سیاست دبانے اور شاہ کے تابع کرنے والی ہوتی ہے۔
یہ کھنچاو کو دھورا کر رہی تھی۔
گھر میں بچوں کا شور اور آفس میں کام کا زور نے اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔
آفس والوں کو کام بہت پسند آرہا تھا۔ وہ سیلری اور پوزیشن بڑھانا چاہتے تھے۔
لڑکا تناو اور کھنچاو کا شکار ہوکر بیمار پڑا۔ آفس میں بات خراب ہوی۔ جاب ختم ہوی۔
لڑکے نے اپنی یورنیوسٹی کے دوست سے رابطہ کیا۔
وہ ایک بڑی فرم میں قطر میں ہی ملازمت کر رہا تھا۔
اس نے کوی جواب نہ دیا۔
شام چھ بجے کا وقت تھا۔لڑکی عجیب صابرہ۔ ماتھے پر شکن نہیں۔ بلکہ مسکراہٹ۔
ایک طویل تھکا دینے والی پیکنگ کے بعد جہاز دوحا ایرپورٹ سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ایک سال تک بستر دراز۔
- میاں ظہوری
تناو - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا اپنے جسم کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔
وہ سخت تناو میں تھا۔
اسی میں قطر کی جمع پونجھی سے ایک فلیٹ لے لیا۔انشا اللہ
جسم میں اتنا کھچاو تھا کہ لڑکاسال بھر تک بستر پر رہا۔
اسکی وجہ ایک طویل سفر اور ڈھلتی عمر تھا تو دوسری طرف قطر کی سخت تھکاوٹ۔
اسکے علاوہ ایک خاص قسم کا تکلف جو خیال پر مبنی تھا لیکن محبت معدوم تھی۔
لڑکی اس پوری گاڑی کا فیول تھی۔ لیکن وہ سرد مہر ہوی تو تناو دو چند ہو گیا۔
اب یہاں نہیں رہا جا سکتا۔
ایک دوست سعودی عرب آنے کا پوچھتے ہیں۔
کمپنی بے حد اچھی تھی۔ لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بیوی بچے کس کے پاس چھوڑ کر جاے۔
اکیلے۔ شاید یہی حل تھا ورنہ کوی سبیل آگے بڑھنے کی نظر نہیں آ رہی تھی۔
پانچ مہینے ویزا آنے میں لگے۔جہاز صبح کراچی کی نم آلود فضا کو چھور کر جدہ کا رخ کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے جدہ کے بادشاہ کی غلامی۔
- میاں ظہوری
جدہ - سو لفظوں کی کہانی
جدہ کی بادشاہت میں اترے ابھی چھ گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بادشاہ کی تپش کا اندازہ ہو گیا۔
گاڑی کا ڈرایور کہہ رہا تھا کہ میرا یہ کام نہیں۔ دیر سے پہنچا ہوں تو کیا۔
یہ ملک کحینچ کر رکھنے والا ہے۔
ہر سعودی کو بادشاہ کی ماننی ہوتی ہے اور ہر آنے والے کی سعودی کی۔
اپنی مرعات حاصل کرنے کے لیے لڑکے کو وہ جستجو کرنی پڑی کہ جس کے لیے اسکا جسم تیار نہ تھا۔
کمپنی بے حد اچھی تھی لیکن جب دل دماغ تھکے ہوں تو معمولی کام بھی پہاڑ لگتے ہیں۔
سیاست، چالیں، کنٹرول، رویہ۔ اف یہ کیسی جگہ ہے۔
بولا گیا کہ ویزا ختم ہونے والا ہے۔ اور ویزا دے نہیں رہے۔
بولا گیا کہ اگر ویزا نہ لگا تو بلیک لسٹ۔ ایک مسکراہٹ اور ڈانٹ لیکن ویزے کی سبیل کچھ نہیں۔
ویزا لینے کے لیے بحرین جانا ہوگا۔لیکن پانچ سو ریال کی ٹیکسی اور جہاز کا ٹکٹ آپکا۔
وہاں ہر ملازم کو اپنی تنخوا ہ کا کچھ حصہ پھسنانا ہوتا ہے کہ مہینے بھر بعد کمپنی واپس دے دے۔
جدہ سے دمام جانا تھا اور وہاں سے ٹیکسی میں بحرین۔
ایکزٹ ہو اور ویزا لگے۔ لیکن ایکزٹ نہ ہوا۔لڑکے کو دو دن کے لیے پاکستان آنا پڑا۔
جدہ واپس پہنچنے پر لڑکے کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر یہاں رہ رہا ہو۔
باس لڑکے کو بے حد پسند کرنے لگا تھا۔اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کام کے لیے سال مختص ہے وہ دو ماہ میں ہی مکمل ہو جاے گا۔
لڑکا ہوم سک ہو رہا تھا۔ اس سے زیادہ احساس پہلو تہی تھا۔
یہاں سے جانے کا فیصلہ غلط تھا۔ لیکن یہاں آنے کی اساس صحیح نہ تھی۔
وہ روکتے رہ جاتے ہیں۔
رات آٹھ بجے جد ہ کا سفر سوا ماہ میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔اور طیارہ صحرے عرب سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ال رگگا دبیی روانگی۔
- میاں ظہوری
ال رگگا دبیی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے نے قطر سے آنے کے بعد تناو اور کھنچاو کی تشخیص شور اورکمپنی سیاست کا دباو کی تھی۔
ماحول میں محبت کے بجاے تکلف نے اسے سہہ چند کر دیا تھا۔
یہ اسکو قریبا ایک سال سے بستر پر رکھے ہوے تھا۔
اسکو رفع کرنے کے لیے اس نے جدہ کی نوکری کی حامی بھری تھی۔
اسکی دولہن راضی بمعنی زبان تھی لیکن بزبان دل اگر سنیں تو آنکھیں کچھ اور کہہ رہیں تھیں۔
مسکراتے چہرے پر پلکوں میں بھری نمی کسی اور ہی بات کی خبر دے رہی تھی۔
اس ناراضی اور والدین سے اوپری تعلق اس کو جلد ہی جدہ سے کراچی واپس لے آیا تھا۔
لیکن نہ اسکا جسم ابھی پوری طرح کراچی آنے کے لیے تیار ہوا تھا نہ ہی کراچی میں کچھ تبدیل ہوا تھا۔
لیکن وہ کراچی میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
لڑکی اس منظر سے عاجز تھی۔
وہ بات بے بات کچن دوڑ جاتی کہ تکلف کی باتیں مذید لڑکے کی طبیعت خراب نہ کریں۔
لڑکا کراچی میں ایک کینیڈین ادارے میں نوکری کر رہا تھا۔
لیکن جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
شور، گھریلو ذمہ داریاں۔
دولہن و بچوں کے ساتھ لطف و کرم سے رہنا نوکری کے بوجھ کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔
نوکری ختم ہوتی ہے
لڑکا اس منظر پر ہے جو دولہن کو نہیں بھاتا۔
لڑکا دبیی کا ویزا نکالتا ہے اور ایک دفعہ پھر ایک غیر رضامندی کے ماحول میں سفر کا بیگ بناتا ہے۔
طیارہ پیتیس ہزار فٹ پر بحیرہ عرب کے اوپر سے دوڑے چلا جا رہا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کراچی ایرپورٹ پر دوستی۔
- میاں ظہوری
کراچی ٹو دبیی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے نے دبیی جانے سے پہلے ایک یو ٹیوب کے لڑکے سے دوستی کی تھی ۔
وہ آنے والوں کو نوکری اور پلنگ کراے پر دیتا تھا۔
وہ یہ کام اپنے لنکس بڑھانے کے لیے کر رہا تھا۔
لیکن اللہ کو کچھ منطور تھا۔ کراچی ایرپورٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا۔
لڑکے نے اس سے پوچھا کہ آپ دبیی جا رہے ہیں۔
اس نے سر حامی میں ہلایا۔
اس نے پوچھا اور آپ۔ لڑکے نے دبیی بتایا۔
اس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں دبیی میں۔میرے پاس کوی جواب نہ تھا۔
وہ بھانپ گیا۔ اس نے کہا کہ میں ال رگگا میں رہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو میں پلنگ کا پتہ کروں۔
اندھا کیا چاہے۔ دو آنکھیں۔
بس دبیی ایرپورٹ سے ٹیکسی کے ذریعے وہ لڑکا ال رگگا لے گیا اور ایک جگہ دلا دی۔
وہیں لڑکوں سے کھانے کا طے ہو گیا۔اس لڑکے نے سم دلا دی۔ پہلے دن کمرے کے لوگوں نے کھانا گفٹ کیا۔
لڑکا جہاں تک ممکن ہوتا جاب کے لیے اپلای کرتا ورنہ آرام جو درکار تھا۔
بستروں میں کھٹمل تھے۔اور زبان پر پینٹ نیچے اتارنے کے قصے۔
شام کو ال رگگا میں عورتیں ملنےلگتیں۔ وہ شام کو جلد کھانا کھاتیں اور گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتیں۔
کچھ فلپینی مرد مساج مساج مساج کی آوازیں جا بجا آہستہ الفاظ میں کہتے ملتے۔
سڑکوں پر سینکڑوں مساج کے کارڈ پڑے ہوتے۔
لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا بابا آپ انیس دن بعد واپس آجایے گا۔
اس عجیب ما حول میں بھلا کیا آرام ملنا تھا۔
کراچی واپسی کوی خشک کن خیال نہ تھا۔
اسلام آباد پر فضا ہے۔ کیوں نہ وہاں کچھ وقت گزار لیا جاے۔
دبیی کی بلند و بالا عمارتوں کو اپنی پشت دکھاتے ہوے پی آی اے کا طیارہ اسلام آباد کی طرف محو پرواز تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد کے چند دن۔
- میاں ظہوری
اسلام آباد کے چند دن - سو لفظوں کی کہانی
ٹھیک انیسویں دن، جیسا کہ لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا جہاز دبیی سے اڑ چکا تھا۔
اسلام آباد سے ایک جاب کی آفر آی تھی لیکن وہ جگہ پر ہو چکی تھی۔
کیا اسلام آباد کے ہوٹِل میں رہا جاے؟
کسی نے مشورہ دیا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ڈی ایچ اے سٹی ہے وہاں کراے پر اسٹوڈیو لے لو۔
لڑکا مالک مکان کو دس ہزار روپے ایڈوانس دے کر ہوٹل واپس آیا۔
اسکا ارادہ یہیں جاب کرنے کا ارادہ تھا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
رشتوں میں کشش اور کھنچاو ہوتاہے۔
وہ بلاتے ہیں۔
وہ پاوں کی زنجیر بن جاتے ہیں اگر انکی اجازت نہ ہو۔
کسی کا چین، کسی کا قرار لڑکے کی کراچی موجودگی میں تھا۔
مالک مکان کو کال کر کے منع کیا۔
جسم کی ہر نس ایک دھاگہ بنی ہوی محسوس ہو رہی تھی۔
ہر دھاگی تنا ہوا تھا۔
ایک نادیدہ طاقت بار بار لڑکے کو کراچی کیوں لیے آتی ہے؟
کیا پھر کراچی جانا ہو گا جہاں دولہن کو بستر پر لیٹا ہو لڑکا پسند نہیں۔
کیا پھر اسی تکلف والی محبت میں شب و روز گزارنے ہوں گے۔
رگوں کے دھاگے تن کر ٹوٹنے کے قریب تھے۔
ذہن سے تمام خیال اچٹتے ہوے محسوس ہو رہے تھے۔
ہر تدبیر ناکام ہوتے دکھای دے رہی تھی۔
بالآخر میٹرو سے بلیو ایریا جا کر لڑکے نے ٹکٹ حاصل کیا۔
اسلام آباد کے خوبصورت مارگلا ہلز کو اپنے پیچھے چھوڑے پرواز کراچی کی طرف اڑے چلی جا رہی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے طبعیت مزید خراب اور کولا لمپور روانگی۔
- میاں ظہوری
کولا لمپور - سو لفظوں کی کہانی
اسلام آباد سے واپسی پر لڑکا بستر پر یا مسجد کے فرش پر ہوتا تھا۔
باطنی طور پر نہ جانے کون کون سی قوتیں تھیں جو رگوں کو کحنچ رہیں تھیں۔
بعض کو شبہ ہوتا کہ جن یا جادو ہو گیا ہے۔
اسی دوران لڑکے نے کولا لمپور کے دو انٹرویو دیے جو دونوں کامیاب ہوے۔
گھر والوں کی اجازت سے لڑکا کولا لمپور آ گیا۔
کولا لمپور ہریالی سے پر ہے۔ بارش ایسی کہ فارسٹ گمپ کی مووی ماند پڑ جاے۔
گرج ایسی کہ جراسک پارک کو دہلا جاے۔
اور چمک ایسی کی سیونگ پرایویٹ رایان کی انکھیں چندھیا جایں۔
اس دلکش منظر سے لڑکے کے اندر کا منظر تبدیل ہوا۔
کان، آنکھیں، دل، دماغ، چمک، لپک، جھپک ایک ایک کر کے واپس آنے لگیں۔
دوست جانتے ہیں کہ یہاں سے ایک راستہ رشیا اور ایک چین جاتا ہے۔
لیکن فی الحال وہ مناسب قوت کے انتظار میں ہے کہ اگلا قدم کیا ہو۔
اللہ آپ سب کو سلامت رکھے۔
منظر عارضی طور پر منقطع ہو گیا ہے اب کوی دوسرا کوی منظر تراشے۔
- میاں ظہوری