محمد نعمان
محفلین
اور وہ وقت آن ہی پہنچا جب یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا۔ سہانا موسم تھا۔حالانکہ بادل بھی نہ تھے، موسم بھی خشک تھا، گرمی بھی تھی۔ پر وہ کہتے ہیں نا کہ سب موسم ہی اچھے ہیں جب دل کا موسم اچھا ہو۔اب آپ پوچھیں گے کہ دل کا موسم کیوں اچھا تھا۔تو بھئی دل کا موسم اس دن اچھا نہ ہوتا تو کب ہوتا۔دیکھیں میں آپ کو پوری بات بتاتا ہوں۔داخلوں کا موسم تھا جیسے عید کے بعد شادیوں کا سیزن ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی۔کئی جگہوں پر داخلے کے لیے پرفارمے جمع کرائے تھے مابدولت نے۔پہلے تو انجینیئرنگ کے ٹیسٹ نے ہی آسمان سے زمین پر دے مارا جب ہم سیکنڈ ایئر میں سیکنڈ ڈیویژن ہونے کے باوجود ملک کی ٹاپ کی یونیورسٹی میں اپنے آپ کو انجنیئرنگ کا چار سالہ کورس کرتے اور چار سالوں بعد ایک ریڈی میڈ انجنیئر بن کے ایک اعلی سی جاب، جو اپنی مرضی کے شہر میں ہم کر رہے ہوں گے، کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پر شومئی قسمت کہ خواب تو ٹوٹا کہ انٹری ٹیسٹ میں فیل ہونا تو دور کی بات ہم انٹری ٹیسٹ دینے کے لیے الیجیبل ہی نہ تھے۔ ہاں میں بتا رہا تھا کہ اس دن موسم سہانا کیوں تھا ۔ تو جناب یوں تھا کہ جب ہر طرف سے منہ کی کھائی تو ہارٹ ہی فیل ہو جاتا اگر ہمیں اگلے ہی دن بروقت ایگریکلچر کے شعبے میں داخلے کا کنفرمیشن نہ ہو جاتا۔
تو بھائی صاحب، آپ ہمیں یوں نہیں کہہ سکتے کہ ہم بخوشی ایگریکلچر میں نہیں آئَے، کیونکہ آپکو بتایا تو ہے کہ پہلے ہی دن سے مابدولت کا موسم سہانا تھا۔ پہلے کے دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے۔ وقت کا کام ہے گزرتے رہنا اور ہمارا کام ہے وقت کو گزرتے ہوئے دیکھتے رہنا، دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ ہم بالکل فارغ نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ ہم سٹی کیمپس سے ہجرت کرا کے نئے کیمپس لائے گئے جو شہر سے بہت باہر دور تھا۔دو سال پہلے کے گزارنے کے بعد اور دو سال بعد کے گزارنے کے بعد، کم از کم اتنی عقل تو آ ہی گئی کہ ہم اب کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر یہ نہی سوچتے کہ ' آج پھر پھسلنا پڑے گا ' -------- بلکہ وقت ذائع کیے بغیر چھلکے پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔
مزید میرے بلاگ پر
تو بھائی صاحب، آپ ہمیں یوں نہیں کہہ سکتے کہ ہم بخوشی ایگریکلچر میں نہیں آئَے، کیونکہ آپکو بتایا تو ہے کہ پہلے ہی دن سے مابدولت کا موسم سہانا تھا۔ پہلے کے دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے۔ وقت کا کام ہے گزرتے رہنا اور ہمارا کام ہے وقت کو گزرتے ہوئے دیکھتے رہنا، دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ ہم بالکل فارغ نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ ہم سٹی کیمپس سے ہجرت کرا کے نئے کیمپس لائے گئے جو شہر سے بہت باہر دور تھا۔دو سال پہلے کے گزارنے کے بعد اور دو سال بعد کے گزارنے کے بعد، کم از کم اتنی عقل تو آ ہی گئی کہ ہم اب کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر یہ نہی سوچتے کہ ' آج پھر پھسلنا پڑے گا ' -------- بلکہ وقت ذائع کیے بغیر چھلکے پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔
مزید میرے بلاگ پر