نیرنگ خیال
لائبریرین
مرا کون ہے؟بہت عمدہ تحریر ہے۔۔۔
لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ مرنے والا کون تھا؟؟؟
مرا کون ہے؟بہت عمدہ تحریر ہے۔۔۔
لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ مرنے والا کون تھا؟؟؟
جن کے بارے میں ابا نے بتایا تھا۔۔۔مرا کون ہے؟
نہ جانے کون بیچارہ اپنا سفر مکمل کر گیا۔۔۔جن کے بارے میں ابا نے بتایا تھا۔۔۔
نہ جانے کون بیچارہ اپنا سفر مکمل کر گیا۔۔۔
یہ والے صاحب۔۔۔لاہور کے ابتدائی قیام کے دوران ایک دن بابا نے بتایا کہ یار وہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ میرے ذہن میں وہ آدمی موجود نہ تھا تو بابا نے نشانی کے طور پر بتایا کہ یار وہ کبھی کبھار امامت بھی کرواتا تھا ا وراذان بھی دے دیا کرتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ سر شرمندگی سے جھک گیا۔ تو وہ یک چشم گُل گزر گیا۔
انہی کے بارے میں لکھا تھایہ والے صاحب۔۔۔
سب سے پہلے تو ہمیشہ کی طرح حوصلہ افزائی کرنے پر شکرگزار ہوں۔ایک اور خوبصورت تحریر۔
عمومی رویوں کی نشاندہی کرتی ہوئی۔
یہ آپ ہی نہیں تھے/ہیں۔۔۔۔یہ "وہ"بھی ہے۔
یہ "میں"بھی ہوں۔
شرمندگی کا احساس تب جاگتا ہے جب ایک زیادتی یا ندامت اس سے منسوب ہو۔۔۔۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے اس پر ندامت ہے یا نہیں۔اس شخص کے اس قدر گرم جوشی سے ملنے سے ایک شرمندگی کا احساس جاگتا ہے۔
یہ بات درست ہے۔ اور شاید تحریر متضاد کیفیات کے اظہار لئے ہے۔ سو ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں جانا اتنا سہل بہرحال نہیں ہوتا۔آخر میں گو آپ کے جملے مذاحیہ پیرائے میں ہیں۔۔۔لیکن میں نہیں ہنس سکی۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ "کیوں کہ ہم کمینے ہوتے ہیں اورمعافی مانگنا ہی نہیں چاہتے۔" اور شوگر کوٹڈ بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو جھٹکنا چاہتے ہیں۔ یہ بات چاہتے ہیں کہ امتداد زمانہ کی گرد ان باتوں کو دھندلا دے۔ اور کہیں شرمساری و ندامت بھی دفن ہوجائے۔ہم معافیاں آگے ہی آگے کیوں لے جاتے ہیں نیرنگ!
سارے کام پورے اور یہ کام ادھورا؟؟؟
میری ان سے کافی ملاقاتیں ہیں۔ وہ ابو کے جاننے والے بھی ہیں۔ اور ہمارے گھر کے پاس ہی ان کی دکان بھی ہے۔اب آپ جائیں تو ان سے ایک تفصیلی ملاقات ضرور کیجیے گا۔
ان سے پوچھیے گا کہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ان کی آواز بھیگ کیوں جاتی ہے؟
وہ تو ابو سے ان کی ملاقات رہتی ہے سو وہ سب کو ہی جانتے ہیں۔ اسی لئے تو ان کو یہ خبر بھی تھی کہ میں اسلام آباد ہوتا ہوں۔ان سے پوچھیے گا کہ انہوں نے آپ کو یاد کیسے رکھا؟
ان سے پرانی باتیں ضرور شئیر کیجیے گا۔
اور ہاں!معافی میں دیر نہیں کرنی۔
حوصلہ افزائی پر شکرگزار ہوں عرفان صاحب۔ نوازشاعلی ادبی ذوق کی ترجماں تحریر!
نیکی کا نشہ بس اسی عمر میں تھا یا اب بھی ہے ۔۔۔؟؟ ویسے میرا یہ خیال ہے کہ نیکی کا نشہ ساری عمر رہنا چاہے اور پتہ نہیں کون سی شام زندگی کی آخری شام ہو جائے اور وہ دن بھی نیکی کے نشے میں گزرا ہو تو کیا کہنے ۔۔جب میری عمر کوئی دس سال کے قریب تھی۔ان دنوں نیکی کا نشہ سا چڑھا رہتا تھا
موقع نہیں گنوانا چاہیے موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ۔۔۔۔ موقع گنوا دیا
بعد میں ملامت کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔دل نے بہت ملامت کی
پشیمان ہوں کہ شاید آپ کو رنجش ہوئی۔معذرت۔اور اب آپ سے ایک سوال:
بچوں کی معصومانہ شرارتوں کو جن سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا، یا جو زمانہ شعور سے پہلے کی گئی ہیں۔ اور محض یاد بن کر ذہن سے چپک گئی ہیں ان پر واقعی انسان کو اپنے بڑوں سے معافی مانگنی چاہیے؟ اور اگر مانگنی چاہیے تو کیوں؟ شرارت اگر بچے نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ اپنی رائے کا بےدھڑک اظہار اگر ان کے ہاں بھی نہ ہوگا تو کہاں سے آئے گا۔ بچوں کی شرارتوں سے لطف بڑے نہیں لیں گے انہیں معاف نہیں کریں گے اور درگزر سے کام نہیں لیں گے تو کون لے گا؟
بجا ارشاد۔۔سلامت رہیں۔۔جس سے کسی بڑے کی دل شکنی یو، بے عزتی ہوتی ہو تو پھر اس بچے کے بڑوں کو چاہیے کہ اسے بڑوں کے احترام اور ان سے معافی کے لئے کہیں۔
بہت نوازش غدیر۔۔۔ شکریہ تمہارا۔عمدہ تحریر میں چھپا گہرا پیغام۔۔ہم اپنی سستی اور کاہلی کو دلیل دیتے ہیں ہم دراصل اپنی کوتاہی کو جواز دیتے ہیں ہم میں اتنا ظرف ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی زندہ وجود سے اپنی غلطی کا اقرار کر پائیں ہم صرف مردوں سے معافی مانگ سکتے ہیں زندوں سے نہیں۔ اب اس واقعہ سے جڑی چاشنی ختم ہوئی کیونکہ اب وہ خواہش بھی نہ رہی
بلاشبہ جنااب۔۔ اخروی کامیابی سب کا مطمع نظر ہونی چاہیے۔نیکی کا نشہ بس اسی عمر میں تھا یا اب بھی ہے ۔۔۔؟؟ ویسے میرا یہ خیال ہے کہ نیکی کا نشہ ساری عمر رہنا چاہے اور پتہ نہیں کون سی شام زندگی کی آخری شام ہو جائے اور وہ دن بھی نیکی کے نشے میں گزرا ہو تو کیا کہنے ۔۔
بلاشبہ۔۔۔ سب کتابیں ایسا ہی کہتی ہیں۔موقع نہیں گنوانا چاہیے موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ۔۔۔
یہ بھی ہے۔بعد میں ملامت کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔
بہت نوازش سر۔۔۔ویسے تحریر بڑی شاندار ہے اور انداز بیاں تو اور بھی شاندار ہے ۔۔سلامت رہیں۔۔
نہیں معذرت کی ضرورت نہیں جاسمن صاحبہ۔ میں اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر رہا۔ ایک آدھ دن میں کوشش کرتا ہوں کہ ذرا تفصیلی لکھ سکوں۔پشیمان ہوں کہ شاید آپ کو رنجش ہوئی۔معذرت۔
شکریہآپ اپنی جگہ درست کہہ رہے ہیں۔
کچھ شریک کیجیے۔میں نے تو کم لیکن میرے بڑے بھائی نے ایسی بے شمار شرارتیں کی ہیں۔۔۔جن سے کی گئیں وہ اب دنیا میں نہیں۔
یہ تو ہے۔ اضطراب بےسکونی کا سبب ہے۔اگر میرے ذہن میں تھوڑا سا بھی اضطراب ہو تو جب تک اسے دور نہ کر لوں۔۔چین نہیں آتا۔۔۔میں نے اس نیت سے کہا کہ اگر آپ کے ذہن میں بھی ایسا کوئی تھوڑا سا اضطراب ہوا تو ان سے معافی سے دور ہوگا۔
یہاں بھی متفق ہوں۔دوسری طرف ایک اور بھی نظریہ ہے کہ اگر کسی بچے سے کوئی ایسی شرارت سرزد ہوجائے(یہ بات آپ کے واقعہ کے تناظر میں نہیں ہے)جس سے کسی بڑے کی دل شکنی یو، بے عزتی ہوتی ہو تو پھر اس بچے کے بڑوں کو چاہیے کہ اسے بڑوں کے احترام اور ان سے معافی کے لئے کہیں۔