زبیر مرزا
محفلین
السلام علیکم
جناب شعیب صفدر صاحب نے بلاگرز کو اس بار اُن کے پہلے روزے کی روداد بیان کرنے کی جانب مائل کیا اور یوں معصومیت اور بچپن کی یادوں سے بھری تحریریں سامنے آئیں - سوچا اس میں محفلین کو بھی شریک کیا جائے - یہاں مکمل تحریر نہیں صرف اقتباسات اور بلاگ کے لنک ہوں گے تاکہ لکھنے والے کو آپ داد اُس کے بلاگ پرجائے کردیں اس کے ساتھ ہی آپ بھی اپنے پہلے روزے کا احوال لکھنا چاہیں توچشم ماروشن دل ماشاد-
ابتداء گھمن صاحب کی تحریر سے
روزے کے دوران ہماری غائب دماغی کے کئی قصے ہیں جو اب فیملی میں ہمیں تنگ کرنے کو مکمل تو نہیں دہرائے جاتے بس پنچ لائن کہہ دی جاتی ہے وجہ یہ کہ قصے ازبر ہوچکے سب کو، مثلاً ایک بار ہم گھر میں ہی بہنوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے تو دوران کھیل گیند کچن کی طرف گئی ہم گیند پکڑ کر کچن میں داخل ہوئے امی پکوڑے بنا رہی تھیں ہم نے سوال کیا "روزہ کھلنے میں کتنا وقت ہے؟" جواب آیا بیس منٹ ہیں. ہم نے کہا ٹھیک ہے چلیں پھر ایک پکوڑا ہی دے دیں. اب بھی اکثر "ایک پکوڑا ہی دے دیں" کہہ کر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے.
http://pensive-man.blogspot.com/2015/06/blog-post_28.html
بلقم خود
ہمارے بچپن کے دور میں بچے بڑوں کے ساتھ اپنے شوق سے نمازپڑھنے چلے جاتے تھے ، تروایح مکمل نہ بھی پڑھیں لیکن مسجد باقاعدہ جاتے پوراماہِ رمضان - موضوعات اس ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء نہیں بلکہ اپنے دوستوں میں روزوں کی تعداد ہوا کرتی-روزہ رکھنا ایک عزاز سمجھا جاتا اور دوستوں اور محلے میں معتبر ہوجانے کی علامت اس کو شمار کیا جاتا لہذا روزے رکھنے کا شوق نہایت کم عمری سے پروان چڑھتا اوربڑھتاگھرمیں بڑے بہن بھائیوں کو دیکھ کر بھی اس صف میں شامل ہونے کی کوشش ہوتی- افطار میں ایک غیرمعمولی کشش محسوس ہوتی اور ماہ رمضان رونقوں کا مہینہ ہوتا ہرجانب خوب چہل پہل ہوتی -مجھے اپنے پہلے روزے کے نام پرفقط ایک فوٹوگراف یادہے جو اس موقع پہ قریبی اسٹوڈیو سے بنوائی گئی تھی جس میں میرے ساتھ میرا چھوٹاسابھائی ہے-
http://sharekheyal.blogspot.com/2015/07/blog-post.html
رمضان رفیق کی تحریر
اللہ تے نبی دے پیارو
سحری دا وقت ختم ہون چہ ایک گھنٹہ رہ گیا
جلدی جلدی اٹھ کے روزہ رکھ لو
وقفے وقفے سے ان اعلانات کی گونج کے پس منظر میں سے ماں جی کی واضح آواز سنائی دیتی۔۔۔۔ہن اٹھ وی جاو ۔۔۔۔۔لکڑیوں
والے چولہے پر پھونکنی سے پھونکیں مارتی ماں جی۔۔۔۔جلدی جلدی پراٹھے پکاتیں جاتیں اور باری باری ہم سب کو آوازیں لگاتی جاتیں۔۔۔ایسے میں ماں جی کی آواز پر سب سے پہلے ابو جی ان کی مدد کو جاگتے اور ہم ادھ کھلی آنکھوں سے آخری پراٹھا پکنے کا انتظار کرتے۔۔۔جب سب چیزیں دستر خوان پر آ موجود ہوتیں تو ابو جی کی گونجدار آواز سنائی دیتی ہن اٹھ وی جاو۔۔۔بس پھر نیند فورا ہی کہیں بھاگ جاتی اور ہم یوں اچانک بستر سے نکل کر منہ ہاتھ دھونے نکل کھڑے ہوتے جیسے ہم جیسا مستعد اور فرماں بردار کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔۔۔۔دادا جی کے لئے دیسی گھی کی چوری، سب کے لئے پراٹھے اور کوئی سا بھی سالن۔۔۔۔اور آخر میں ابو جی کے ہاتھ کی چائے۔۔۔۔چائے دیتے ہوئے کہتے۔۔۔۔لو جی گلے دی ٹکور کر لو۔۔۔۔۔۔۔افطاریوں کی سب باتیں بھول سکتیں ہیں مگر وہ روح افزا کا بڑا کمنڈل جس میں برف تیر رہی ہوتی تھی اب تک نہیں بھولتا۔۔۔۔پاکستان کی گرمیوں کے روزے اور ٹھنڈا ٹھار لال رنگ کا شربت جو ٹھنڈ کلیجے ڈالتا تھااس کیفیت کے بھی کیا کہنے۔۔۔۔
http://tehreer-say-taqreer-tak.blogspot.dk/2015/07/blog-post.html
جناب شعیب صفدر صاحب نے بلاگرز کو اس بار اُن کے پہلے روزے کی روداد بیان کرنے کی جانب مائل کیا اور یوں معصومیت اور بچپن کی یادوں سے بھری تحریریں سامنے آئیں - سوچا اس میں محفلین کو بھی شریک کیا جائے - یہاں مکمل تحریر نہیں صرف اقتباسات اور بلاگ کے لنک ہوں گے تاکہ لکھنے والے کو آپ داد اُس کے بلاگ پرجائے کردیں اس کے ساتھ ہی آپ بھی اپنے پہلے روزے کا احوال لکھنا چاہیں توچشم ماروشن دل ماشاد-
ابتداء گھمن صاحب کی تحریر سے
روزے کے دوران ہماری غائب دماغی کے کئی قصے ہیں جو اب فیملی میں ہمیں تنگ کرنے کو مکمل تو نہیں دہرائے جاتے بس پنچ لائن کہہ دی جاتی ہے وجہ یہ کہ قصے ازبر ہوچکے سب کو، مثلاً ایک بار ہم گھر میں ہی بہنوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے تو دوران کھیل گیند کچن کی طرف گئی ہم گیند پکڑ کر کچن میں داخل ہوئے امی پکوڑے بنا رہی تھیں ہم نے سوال کیا "روزہ کھلنے میں کتنا وقت ہے؟" جواب آیا بیس منٹ ہیں. ہم نے کہا ٹھیک ہے چلیں پھر ایک پکوڑا ہی دے دیں. اب بھی اکثر "ایک پکوڑا ہی دے دیں" کہہ کر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے.
http://pensive-man.blogspot.com/2015/06/blog-post_28.html
بلقم خود
ہمارے بچپن کے دور میں بچے بڑوں کے ساتھ اپنے شوق سے نمازپڑھنے چلے جاتے تھے ، تروایح مکمل نہ بھی پڑھیں لیکن مسجد باقاعدہ جاتے پوراماہِ رمضان - موضوعات اس ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء نہیں بلکہ اپنے دوستوں میں روزوں کی تعداد ہوا کرتی-روزہ رکھنا ایک عزاز سمجھا جاتا اور دوستوں اور محلے میں معتبر ہوجانے کی علامت اس کو شمار کیا جاتا لہذا روزے رکھنے کا شوق نہایت کم عمری سے پروان چڑھتا اوربڑھتاگھرمیں بڑے بہن بھائیوں کو دیکھ کر بھی اس صف میں شامل ہونے کی کوشش ہوتی- افطار میں ایک غیرمعمولی کشش محسوس ہوتی اور ماہ رمضان رونقوں کا مہینہ ہوتا ہرجانب خوب چہل پہل ہوتی -مجھے اپنے پہلے روزے کے نام پرفقط ایک فوٹوگراف یادہے جو اس موقع پہ قریبی اسٹوڈیو سے بنوائی گئی تھی جس میں میرے ساتھ میرا چھوٹاسابھائی ہے-
http://sharekheyal.blogspot.com/2015/07/blog-post.html
رمضان رفیق کی تحریر
اللہ تے نبی دے پیارو
سحری دا وقت ختم ہون چہ ایک گھنٹہ رہ گیا
جلدی جلدی اٹھ کے روزہ رکھ لو
وقفے وقفے سے ان اعلانات کی گونج کے پس منظر میں سے ماں جی کی واضح آواز سنائی دیتی۔۔۔۔ہن اٹھ وی جاو ۔۔۔۔۔لکڑیوں
والے چولہے پر پھونکنی سے پھونکیں مارتی ماں جی۔۔۔۔جلدی جلدی پراٹھے پکاتیں جاتیں اور باری باری ہم سب کو آوازیں لگاتی جاتیں۔۔۔ایسے میں ماں جی کی آواز پر سب سے پہلے ابو جی ان کی مدد کو جاگتے اور ہم ادھ کھلی آنکھوں سے آخری پراٹھا پکنے کا انتظار کرتے۔۔۔جب سب چیزیں دستر خوان پر آ موجود ہوتیں تو ابو جی کی گونجدار آواز سنائی دیتی ہن اٹھ وی جاو۔۔۔بس پھر نیند فورا ہی کہیں بھاگ جاتی اور ہم یوں اچانک بستر سے نکل کر منہ ہاتھ دھونے نکل کھڑے ہوتے جیسے ہم جیسا مستعد اور فرماں بردار کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔۔۔۔دادا جی کے لئے دیسی گھی کی چوری، سب کے لئے پراٹھے اور کوئی سا بھی سالن۔۔۔۔اور آخر میں ابو جی کے ہاتھ کی چائے۔۔۔۔چائے دیتے ہوئے کہتے۔۔۔۔لو جی گلے دی ٹکور کر لو۔۔۔۔۔۔۔افطاریوں کی سب باتیں بھول سکتیں ہیں مگر وہ روح افزا کا بڑا کمنڈل جس میں برف تیر رہی ہوتی تھی اب تک نہیں بھولتا۔۔۔۔پاکستان کی گرمیوں کے روزے اور ٹھنڈا ٹھار لال رنگ کا شربت جو ٹھنڈ کلیجے ڈالتا تھااس کیفیت کے بھی کیا کہنے۔۔۔۔
http://tehreer-say-taqreer-tak.blogspot.dk/2015/07/blog-post.html
آخری تدوین: