آپ کرنے کو تو بے داد کئے جاتے ہیں

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
آپ کرنے کو تو بے داد کئے جاتے ہیں
حوصلے دل کے مگر اور بڑھے جاتے ہیں

شکوہ کرتا ہوں تو ہوتی ہے شکا یت ان کو
چپ جو رہتا ہوں شکایت کے مزے جاتے ہیں

مجھ کو کچھ ہوش نہیں ہے مری منزل ہے کہاں
قدمِ شوق مگر ہیں کہ اٹھے جاتے ہیں

لے چلے سب تری محفل سے مرادیں دل کی
ہم بھی اک حسرتِ نا کام لئے جاتے ہیں

مدّتیں گزریں کہ جو ہو بھی چکے خواب و خیال
ہم ابھی تک وہی دن یاد کئے جاتے ہیں

یہ نا سمجھے کہ ہے یہ کم نگہی جانِ وفا
ان سے ہم شکوہء اغماض کئے جاتے ہیں

اے نگاہِ کرم دوست یہ معلوم نہ تھا
امتحان اتنے محّبت میں لئے جاتے ہیں

خالی ہوتی ہی چلی جاتی ہے بزمِ ساقی
رِند جتنے ہیں سب اک ایک اٹھے جاتے ہیں

کرچلے آپ تغافل کی تلافی کیا خاک
دل کے ارمان تو دل میں ہی رہے جاتے ہیں

زخم ہائے دل مایوس تو رِستے رِستے
میں سمجھتا ہوں کہ نا سور ہوئے جاتے ہیں

عارفی اپنی ان آہوں میں اثر ہو کہ نہ ہو
اپنے کرنے کا ہے جو کام کیئے جاتے ہیں

ڈاکٹر محّمد عبدالحئ صاحب کی صہبائے سخن سے انتخاب
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب شراکت

اے نگاہِ کرم دوست یہ معلوم نہ تھا
امتحان اتنے محّبت میں لئے جاتے ہیں
 

زبیر مرزا

محفلین
واہ بہت عمدہ کلام

اے نگاہِ کرم دوست یہ معلوم نہ تھا
امتحان اتنے محّبت میں لئے جاتے ہیں
خالی ہوتی ہی چلی جاتی ہے بزمِ ساقی
رِند جتنے ہیں سب اک ایک اٹھے جاتے ہیں
 

سید زبیر

محفلین
خالی ہوتی ہی چلی جاتی ہے بزمِ ساقی
رِند جتنے ہیں سب اک ایک اٹھے جاتے ہیں

اتنے عمدہ کلام کی شراکت کا شکریہ
 
Top