بسم اللہ الر حمن الرحیم
توہمات وبدعات کی کوئی حد نہیں ہےکبھی کبھی یہ شرک تک پہنچ جاتی ہیں سنت ہر جگہ ایک ہی ہوگی کسی کام کو کرنے کا جو طریقہ عجم میںں سنت ہے عرب میں بھی وہی طریقہ سنت ہوگا
پر توہمات ہر جگہ بدل جاتی ہیں کسی علاقہ میں کوئی بات مشہور ہو گئی دوسرے علاقہ میں دوسری توہمات
مشہور ہویں یہ بھی ایک پہچان ہے توہمات و بدعات کو جانچنے کی
جو چیز قران میں آگئی جیسے جن وغیرہ ان سے کون انکار کر سکتا ہے ان کے مقابل توہمات کو نہیں رکھ سکتے میرے خیال میں توہمات کی ابتدا کسی کام یا بات سے ہوتی ہے دھیرے دھیرے بگڑتے بگڑتے وہ توہمات کی شکل اختیار کر جاتی ہیں لوگ ان پر اس حد تک یقین کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے عقائد میں شامل ہو جاتی ہے ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہےکسی علاقے میں شادی بیاہ میں ابٹن لگاتے وقت لڑکا لڑکی کو جس چوکی موڑھے وغیرہ پر بیٹھاتے اس کے نیچے ایک بلی کا بچہ رکھنا ضروری سمجھا جاتا تھا
کسی نے اس کی تحقیق کی تو یہ بات سامنے آئی کہ شادی والے گھر میں ایک بلی پلی ہوی تھی ابٹن لگاتے وقت وہ پریشان کرنے لگی کسی نے پکڑ کر اسے لڑکے کے موڑھے کے نیچے بند کر دی دھیرے دھیرے یہ مانا جانے لگا کہ ابٹن کے وقت بلی چاہے بلی کا بچہ ہی کیوں نہ ہو ضرور رکھنا پڑیگا نہیں تو اپشگن ہو جائے گا اور یہ بات حقیقت ہے یہ چیزیں ہندوؤں میں بہت زیادہ ہیں ان کے یہاں کوئی واضح طریقہ زندگی گزارنے کا نہیں ہے کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جو کچھ اپنے بڑوں سے سنتے آرہے ہیں اسی پر عمل کر رہے ہیں ہم میں بھی یہ رسمیں توہمات وغیرہ سب ان ہی سے آئی ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور اپنی رضا کے لئے ہر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے