یوں تو ہر سال 5 اپریل کو ہماری عمر سے ایک سال گر جاتا ہے
،لیکن دنیا نے نقصان پر بھی اگر جشن منانا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں
۔ پشتو مثل مشہور ہے کہ (دہ کلی سرہ مڑ، لکہ نہ مڑ) ترجمہ کیلئے بقول
ابن سعید ماہر لسانیات سے رابطہ کیجئے ۔
لیکن ٹھریئے! ویسے بھی صرف جشن ہی منانا ہے
تو کیوں نہ اسکو ایسے دن منایا جائے کہ جس سے مشہوری بھی ہو ،اور ڈبل خوشی بھی
۔
۔ تو پھر 23 مارچ مناسب ہے ؟
لیکن کوئی دوسری تاریخ بھی ڈھونڈو۔۔۔
ہاں 14 اگست بھی ٹھیک ہے
(لیکن یہ تاریخ پہلے سے بُک شدہ ہے) ،
تو پھر 6 ستمبرکیسا رہے گا،
لیکن نہیں جنگوں سے کچھ نہیں ہونے والا
،ویسے بھی اس کے بعد ہم نے بہت مار کھائی ہے۔جنگ تو وہ فائدہ دیتی ہیں کہ جو برائے تعمیر ہو،
صرف تخریب برائے تخریب کا کیا فائدہ۔
تو پھر کیا کریں جناب ۔کوئی تاریخ تو پسند بھی کرلو۔۔۔
اچھا لالہ جی ،اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہوتا
،آج کل ویسے بھی بلڈ پریشر کا مرض بڑتا جا رہا ہے۔
بلڈ پریشر سے یاد آیا ،
اکثر مریض اسی مرض کے سبب روزہ نہیں رکھتے ۔ اور بعد میں فطرانہ دیتے ہیں۔
اچھا ۔۔۔۔ یہ تو واقعی کام کی بات مل گئی تو پھر کیوں نہ عید الفطر کے دن رکھ لیتے ہیں
،گویا ہماری ڈبل عید ،
لیکن اسمیں تو عیسوی تاریخ بدلتی رہے گی ،
تو بدلے نا ،ہمیں اس سے کیا۔
ہمیں تو بس عید کے دن سال گرہ کا جشن منانا ہے۔
لیکن یہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔بقول
شمشاد اب وہ پرانا وقت نہیں کہ بادشاہ لوگ تاریخیں کم یا زیادہ کرلیں،
لیکن ہمیں بھی جواب معلوم ہے کہ اولڈ اِز گولڈ۔
اسی لئے بزرگان محفل ہمارئے سروں پر شفقت کا سایہ ہیں
،اللہ اس سائے تو قائم و دائم رکھے۔
تو جناب ہمیں تو عید والا دن ہی سال گرہ کیلئے مناسب لگا۔
لیکن اگر آپ لوگ اس دن کے انتخاب میں ساتھ نہ دیں ،تو پھر اکیلے سالگرہ منانے کا مزہ کیا
(بیا خو لکہ زانتہ مرگ۔وی مورے نہ توبہ ۔ دینہ تیر شو)،
مجبورا اسی اپریل کی طرف لوٹنا پڑئے گا۔