جہالت کی انتہاء نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل صحیح ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض پابندی وقت کے ساتھ۔
اس میں آپ اور میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ ہاں کسی کی نماز کسی وجہ سے اول وقت میں قضا ہو گئی ہو، وہ جماعت سے ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے لیے یہی چھوٹ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے نماز ادا کر لے۔ یہ نہیں کہ اذان تو تین بجے ہوئی اور جماعت چار بجے ہو گی۔
یہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شہر میں نمازوں کے مختلف اوقات ہوتے ہیں، اور تو اور فجر کی اذانیں ہی آدھ گھنٹہ تک ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ یہاں پورے شہر میں کسی بھی نماز کی ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہے۔
پاکستان میں ایک ہی شہر میں جمعہ کی نماز کے بھی مختلف اوقات ہوتے ہیں کہ دو گھنٹے تک جمعہ کی نماز ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ جمعہ کی نماز کا بھی وہی وقت ہوتا ہے جو ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔ خطبے کی وجہ سے یہاں زیادہ سے زیادہ دس منٹ کی تاخیر کی جاتی ہے۔
اور بنت حوا صاحبہ نے جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ فاروق بھائی نے قرآن کی وہ آیت بھی بتا دی ہے جس میں نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرنے کا حکم آیا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کے مختلف مکاتب فکر کی ہی مختلف آراء ہیں جو عام قاری کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ وہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔
محترم پہلی بات تو یہ ہے کہ دین کے معاملے میں بغیر تدبر کیے رائے دے دینا انتہائی درجہ کی جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسرے
جس آیت کا محترم فاروق سرور خان صاحب نے حوالہ دیا ہے ہم بھی اسی ضمن میں گفتگو کررہے ہیں کہ اس سے مراد کسی بھی مسجد کے امام کا مقرر کردہ وقت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد کسی بھی نماز کا وہ
ابتدائی اور انتہائی وقت(
مقررہ وقت) ہے کہ جس کی
حد بندی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کے زریعے فرمادی ہوئی ہے
اور فقھاء امت نے اپنی اپنی کتابوں میں ان اوقات کی نشاندہی بخوبی کردی ہوئی ہے یاد رہے کہ دین اسلام میں نمازوں کے اوقات کا تعلق سورج کے نکلنے اور غروب ہونے سے متعلق ہے ۔ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک نماز کے
ابتدائی اور انتہائی اوقات مقرر فرمادیئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر نماز کا
مستحب وقت کی بھی نشاندہی فرمادی ہوئی ہے ۔جب بھی کسی نماز کا وقت شروع جائے تو اس کے لیے اول وقت میں اذان دے دینا مستحب ہے لیکن یہ کوئی
فرض یا واجب نہیں ہے ۔ ۔ ۔ لہذا پاکستان میں جو مختلف مساجد میں نماز کے لیے(اصل میں نماز کے کے نہیں جماعت کے لیے ہیں) جو مختلف اوقات مقرر ہیں ان کا تعلق نماز کی
جماعت کے ساتھ ہوتا ہے نہ کے
مطلق نماز کے ساتھ اور ان
مساجد کے اوقات میں
اختلاف در اصل نمازیوں یعنی
مقتدیوں کی
سہولت کے پیش نظر ہیں ۔ ۔ ۔
اب اس مثال کو یوں سمجھیے ۔ ۔ ۔ فرض کیا پاکستان میں آجکل کے وقت کے مطابق ظہر کے وقت کی
ابتداء ٹھیک دو بجے ہوجاتی ہے اور نماز ظہر کا وقت
پانچ بجے تک رہتا ہے ۔ ۔ ۔ اب ایک مسجد
میں 2 بجے اذان ہوئی اور ٹھیک 15 منٹ بعد جماعت کا وقت ہے اسی طرح دوسری مسجد میں 2:15 اذان ہوئی اور ڈھائی بجے تک جماعت کھڑی ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔ اب دونون مساجد والوں میں سے کوئی ایک بھی قرآن کی پیش کردہ
مجوزہ آیت کا
مخالف نہیں ٹھرے گا کیونکہ دونوں نے ہی نماز کو
وقت مقررہ کے اندر اندر پڑھا (
ہاں البتہ مستحب وقت کونسا ہے اسکی بحث الگ ہے) اب اگر ایک شخص نماز ظہر پڑھنا چاہے گا اگر تو وہ اپنے محلے کی مسجد کے
مقررہ وقت کے مطابق سوا دو بجے یا پھر 2:30 پڑھتا ہے تب بھی اس نے قرآن کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ ہم بیان کرچکے کہ ظہر کا
متحقق مقررہ وقت 2 بجے سے لیکر پانچ بجے تک رہتا ہے اس وقت کے اندر اندر جو کوئی بھی جس وقت چاہے نماز ادا کرئے اس کی پڑھی ہوئی نماز ادا ہی کہلائے گی نہ کہ
قضا(
کیوں کہ قضا نماز وقت مقررہ کے گزر جانے کے بعد نماز پڑھنے کو کہتے ہیں) چاہے وہ
جماعت کے ساتھ پڑھے یا منفرد ۔ ۔ ۔ ۔اب آپ ہی بتائیے کہ اس بیان کردہ طریقہ پر عمل کرنے والے نے کس آیت کی خلاف ورزی کی ۔ ۔ ۔
ا