مہ جبین
محفلین
آپکی یاد تھی بس آپکے بیمار کے پاس
کون آتا کسی گرتی ہوئی دیوار کے پاس
غمِ دنیا، غمِ عقبےٰ، غمِ ہجراں ، غمِ دل
میرے ہر دکھ کی دوا ہے مِرے سرکار کے پاس
ایک امیدِ کرم ، ایک شفاعت کا یقیں
یہ دوآئینے ہیں بے چہرہ گنہگار کے پاس
فرقتِ سرورِ دیںمیں ہیں گہر بار آنکھیں
دولتِ درد بہت ہے دلِ نادار کے پاس
آپ نے قول و عمل سے یہ سکھایا ہے ہمیں
حسنِ کردار بھی ہو صاحبِ گفتار کے پاس
جگمگائے کبھی میرا بھی مقدر یارب
میں بھی پہنچوں کبھی اُس پیکرِ انوار کے پاس
حسنِ تعبیر بھی ہوجائے گا اک روز عیاں
خوابِ طیبہ ہے ابھی دیدہء دیدار کے پاس
کوئی اس خواب کی تعبیر بتادے مجھ کو
آگیا گنبدِ خضرا مری دیوار کے پاس
رات دن نور برستا ہےمدینے میں ایاز
مطلعِ نور ہے اُس شہرِ ضیا بار کے پاس
ایاز صدیقی