چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الٰہ آباد گئی اور جانکی بائی کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ میرا دل خان بہادر سید اکبر حسین سے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔ جانکی بائی نے کہا کہ آج میں وقت مقرر کر لوں گی کل چلیں گے۔ چنانچہ دونوں دوسرے دن اکبر الہ آبادی کے ہاں پہنچیں۔ جانکی بائی نے تعارف کرایا اور کہا کہ یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہر جان ہیں۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا لہذا ان کو آپ سے ملانے لائی ہوں
اکبر نے کہا " زہے نصیب، ورنہ نہ میں نبی ہوں ، نہ امام ، نہ غوث ، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابلِ زیارت خیال کیا جاؤں۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر رہ گیا ہوں، حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں"
گوہر نے کہا "یادگار کے طور پر ایک شعر ہی لکھ دیجئے"
اکبر الہ آبادی نےکاغذ پر یہ لکھ کے حوالے کیا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
اکبر نے کہا " زہے نصیب، ورنہ نہ میں نبی ہوں ، نہ امام ، نہ غوث ، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابلِ زیارت خیال کیا جاؤں۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر رہ گیا ہوں، حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں"
گوہر نے کہا "یادگار کے طور پر ایک شعر ہی لکھ دیجئے"
اکبر الہ آبادی نےکاغذ پر یہ لکھ کے حوالے کیا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا