آپ کے علاقے میں ٹماٹروں کی قیمت؟

جاسم محمد

محفلین
یعنی ٹماٹر کی قیمت کے معاملہ میں اب ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ ہو گئے ہیں۔
شکریہ عمران خان
ڈالر بچانے کیلئے ماضی میں ملنے والی سرکاری سبسڈیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ پھر بھارت سے جو سستے ٹماٹر آتے تھے وہ حالیہ کشمیر تنازعہ کے بعد آنا بند ہو گئے ہیں۔ شکریہ مودی کہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
پچھلے بدھ کو میں پچاس روپیے کے تین کلو کے حساب سے لایا تھا، لیکن بہت اچھے ٹماٹر پچیس روپیے سے تھے۔ آج یہاں ہی ٹھیلے والا بیس روپیے کی آواز لگا رہا تھا جو اچھے ہی تھے۔ ممبئی کا بھاؤ تو نہیں معلوم، مگر ان لائن اور یہاں کے اخباروں میں بھی تیس روپیے سے کم نہیں۔ پاکستان کے بھاؤ کا دسواں حصہ!
جب یہ ٹماٹر پاکستان ایکسپورٹ نہیں ہوتے تو بھارت میں غیرمعمولی سستے ہو جاتے ہیں :)
 

سین خے

محفلین
یعنی لگ بھگ تین سو روپیے کلو ۔ یہی قیمت پاکستان میں بھی ہے۔ تب تو مہنگے نہ ہوئے؟

یہ شائد مہنگے نہیں ہیں کیونکہ پاکستان اور امریکا میں قوت خرید کا بہت بڑا فرق ہے :) ویسے اس بارے میں زیک بھائی اور دیگر امریکی محفلین زیادہ بہتر طور پر بتا سکیں گے :)
 

سین خے

محفلین
ایک کلو 2.9 سنگاپور ڈالر میں ملتے ہیں۔ یعنی 330 روپے قریبا۔

یہاں ریاض میں تقریباََ نو یا دس ریال فی کلو ہیں ۔یعنی کوئی ساڑھے تین ، چار سو روپے کلو ۔
ویسے عموماََ چار ریال کلو ہوتے ہیں ۔

آپ کے یہاں قوت خرید کے حساب سے ٹماٹر مہنگے ہیں یا نہیں؟
 

سین خے

محفلین
ہندوستان میں عام قیمت ہے۔۔۔ اللہ کا شکر ہے۔۔۔ چالیس روپئے۔۔۔
لیکن پیاز کی قیمت روز افزوں ہے۔۔۔ ۱۰۰ روپئے تک پہنچ چکی ہے۔۔۔

پچھلے بدھ کو میں پچاس روپیے کے تین کلو کے حساب سے لایا تھا، لیکن بہت اچھے ٹماٹر پچیس روپیے سے تھے۔ آج یہاں ہی ٹھیلے والا بیس روپیے کی آواز لگا رہا تھا جو اچھے ہی تھے۔ ممبئی کا بھاؤ تو نہیں معلوم، مگر ان لائن اور یہاں کے اخباروں میں بھی تیس روپیے سے کم نہیں۔ پاکستان کے بھاؤ کا دسواں حصہ!

شاندار :) بھارت کے روپے کی قدر بھی ہم سے بہتر ہے اور قوت خرید کے حساب سے بہت ہی مناسب قیمت معلوم ہو رہی ہے۔

بافقیہ بھائی ویسے پیاز ہمارے یہاں بھی بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ کل چیز اپ سے لے کر آئی تو 85 روپے کلو ملی۔ ٹھیلے والے تو اس سے بھی زیادہ کی دے رہے ہیں۔ جو ہوا چل رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر ہم اور آپ ایک ہی جیسی قیمت میں پیاز خرید رہے ہوں گے :D:p
 

سین خے

محفلین
ہر ملک میں قوت خرید purchasing power ،مختلف مہنگائی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اب اپنا تو economics سے دور دور تک تعلق نہیں ہے تو زیادہ بہتر طور پر اس پر رائے زنی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایک یونٹ کرنسی میں کوئی شہری کتنی اشیاء خرید سکتا ہے، شائد ppp اور cpi وغیرہ کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کوئی چیز کتنی مہنگی ہے اور کیا ایک عام شہری اسے آسانی سے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔ تنخواہ بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔

اب جو محفلین اس بارے میں معلومات رکھتے ہیں وہ کچھ بتائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ محمد وارث بھائی کی تو یہی فیلڈ ہے وہ زیادہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔

محمدظہیر بھائی کا بھی نام دماغ میں آرہا ہے۔ ان کی فیلڈ بزنس ہے :) آجکل ویسے چپ کے روزے سے ہیں :D:p
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جاسم بھائی آپ بھی بتائیں کہ ناروے میں ٹماٹر مہنگے سمجھے جاتے ہیں یا نہیں۔
مہنگائی کے حساب سے ناروے ٹاپ 10 میں ہے اس لئے مناسب ہے۔
Screenshot-2019-11-24-Cost-of-Living-Index-by-Country-2019-Mid-Y.png

Cost of Living Index by Country 2019 Mid-Year
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم بھائی آپ بھی بتائیں کہ ناروے میں ٹماٹر مہنگے سمجھے جاتے ہیں یا نہیں۔
پاکستان میں سبزیاں سستی کیوں نہیں ہوتی۔ چند تلخ حقائق

کوئی ’محکمہ زراعت‘ ہوتا تھا۔
22/11/2019 شاہد یوسف خان

گاؤں کے ایک چھوٹے کاشتکار سے پوچھا کہ گزشتہ کئی سالوں سے کپاس کی فصلیں کسانوں کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہیں تو آپ لوگ سبزیاں کاشت کیوں نہیں کرتے؟

انہوں نے بتلایا کہ اس نے پِچھلے سال یہ تجربہ بھی کر کے دیکھا تھا گوبھی وغیرہ کاشت کر کے جب فصل تیار ہوئی تو بیوپاری ’توڑے‘ کے پیسے دینے کو بھی تیار نہیں ہوئے۔ اور یوں ہوا کہ سبزی منڈی پر دھکے کھانے کے باوجود بھی فصل پر کیا جانے والا خرچہ بھی نہیں نکلا اُلٹا نقصان اُٹھانا پڑا بس پھر سبزیاں لگانے کا دل نہیں چاہا۔

اس لیے پھر کپاس ہی لگانا پڑی اس امید کے ساتھ کہ نئی حکومت آگئی ہے شاید یہ کسانوں کے بارے اچھے منصوبے رکھتی ہو، سہولیات سبسڈی کے علاوہ کوئی نِرخ مقرر کریں اور پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کے لیے کوئی کنٹرول پالیسی مقرر ہو لیکن جب فصلوں کو نقصان ہوتا رہا نہ تو محکمہ زراعت کے لوگوں کو آتے دیکھا اور اس طرح پیسٹی سائیڈ ڈیلرز نے بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ موسم گندم کاشت کرنے کا ہے لیکن وہ اس بار تمباکو کاشت کرنا چاہ رہے ہیں ”

جنوبی پنجاب کے اضلاع میں سبزیاں کاشت کرنے کا رواج کم ہے، ربیع و خریف میں گندم اور کپاس کاشت کی جاتی ہے۔

پاکستان میں کوئی ایسی مخلوق ہی نہیں ہے جو گندم کے علاوہ کوئی دوسری اجناس کا سرکاری سطح پر نرخ مقرر کرے۔ گندم کا نرخ بھی کسان کے لیے معقول نہیں ہوتا اگر وہ مناسب کیا جائے تو غیرزرعی علاقوں کے لیے روٹی بھی مہنگی پڑ جائے گی۔

ہمارے علاقوں میں لوگ تمباکو کی کاشت کو ایک عرصے تک حرام و نقصان دہ سمجھتے رہے ہیں لیکن جب دوسری فصلوں کے حوالے سے مسلسل نقصانات برداشت کرنے پڑے تو آہستہ آہستہ اس فصل کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے اگر حکومت نے آئندہ سالوں میں کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو کسان جو اب تمباکو کاشت کر رہے ہیں آگے چل کر پوست بھی کاشت کرلیں گے۔

تمباکو کی کاشت انتہائی مشکل اور نگہداشت والی کاشت ہوتی ہے بلکہ کاشت سے لے کر خریداری تک مسلسل زمیندار، کاشتکار کی دن رات نگرانی مانگتی ہے۔

اس کا کام انتہائی سخت ہوتا ہے اور کام کرنے والے کسان بیچارے انتہائی زہرآلودہ بدبو کو بھی ہضم کرلینے کے علاوہ ٹی بی و یرقان کی بیماریوں میں بھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ آگاہی و بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی پہنچ جاتے ہیں، لیکن معاوضہ بہتر مل جاتا ہے اور زمیندار کو بھی فصل بیچنے کے بعد کچھ سکھ کا سانس ملتا ہے۔

اس طبقے کو نظرانداز کر کے مسلسل بحران تو پیدا کیے جا رہے ہیں لیکن اس بارے سنجیدگی بالکل بھی صفر ہے۔ حالیہ ٹماٹروں کا بحران آج کل کا نہیں ہے یہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے لیکن بھلا ہو اہل اقتدار کا وہ بروقت علاج یہ کرتے ہیں کہ ٹماٹر یا دیگر اجناس باہر سے درآمد کرلیتے ہیں اس سال ایران سے ٹماٹر منگوا لیے گئے اس سے پہلے بھارت سے منگوا لیے جاتے تھے لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس کا کوئی مستقل حل کسانوں کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔ پنجاب میں وزٹ کریں ہزاروں ایکڑ زمینیں فری پڑی ہیں جن کو زمیندار اس مہنگائی کی وجہ سے کاشت نہیں کرنا چاہتے یا سرکاری زمینوں کو سرکار ڈی ایچ اے وغیرہ تو بنا لیتی ہے لیکن مثبت استعمال کرنے کا گُر ابھی تک ڈی ایچ اے یا بحریہ کو فروخت کرنا رکھا ہوا ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ شائد مہنگے نہیں ہیں کیونکہ پاکستان اور امریکا میں قوت خرید کا بہت بڑا فرق ہے :) ویسے اس بارے میں زیک بھائی اور دیگر امریکی محفلین زیادہ بہتر طور پر بتا سکیں گے :)

ہر ملک میں قوت خرید purchasing power ،مختلف مہنگائی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اب اپنا تو economics سے دور دور تک تعلق نہیں ہے تو زیادہ بہتر طور پر اس پر رائے زنی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایک یونٹ کرنسی میں کوئی شہری کتنی اشیاء خرید سکتا ہے، شائد ppp اور cpi وغیرہ کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کوئی چیز کتنی مہنگی ہے اور کیا ایک عام شہری اسے آسانی سے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔ تنخواہ بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔

اب جو محفلین اس بارے میں معلومات رکھتے ہیں وہ کچھ بتائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ محمد وارث بھائی کی تو یہی فیلڈ ہے وہ زیادہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔

محمدظہیر بھائی کا بھی نام دماغ میں آرہا ہے۔ ان کی فیلڈ بزنس ہے :) آجکل ویسے چپ کے روزے سے ہیں :D:p

This map shows how much each country spends on food
 
یہ شائد مہنگے نہیں ہیں کیونکہ پاکستان اور امریکا میں قوت خرید کا بہت بڑا فرق ہے :) ویسے اس بارے میں زیک بھائی اور دیگر امریکی محفلین زیادہ بہتر طور پر بتا سکیں گے :)
متفق۔
ہم پاکستانی کماتے روپیوں میں ہیں اور خرچ ڈالروں میں کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
متفق۔
ہم پاکستانی کماتے روپیوں میں ہیں اور خرچ ڈالروں میں کرتے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی خزانہ سے ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کی قیمت کو ۱۰۰ روپے کے آس پاس رکھا ہوا تھا۔ جس سے قوم میں یہ تاثر گیا کہ ملکی معیشت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ مصنوعی معیشت اور عارضی طور پر مہنگائی میں کمی کا غبارہ ایک نہ ایک دن تو پھٹنا ہی تھا۔
جب نئی حکومت نے آکر یہ پالیسی ختم کی اور ڈالر اپنی اصل قیمت پر واپس آیا تو پوری قوم کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جیسے کسی نشئی کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی دنیا میں جھٹکے سے واپسی ہوتی ہے۔ ویسے ہی پاکستانی قوم سستے ڈالر کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی معیشت میں واپس آ چکی ہے۔ اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر عمران خان کو گالیاں بھی نکال رہی ہے کہ ہم سے سستے ڈالر کا نشہ کیوں چھڑوایا۔ وہ سستے ڈالر کا نشہ دینے والے بھگوڑے ڈاکٹر اسحاق ڈار کو واپس بلواؤ۔ حکومت نے قوم کی فریاد پر انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن وہ بھگوڑا ڈاکٹر اب ملک واپس آنے کو تیار نہیں۔ کہتا ہے میرا سستا نشہ ختم ہو گیا ہے:)
 
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی خزانہ سے ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کی قیمت کو ۱۰۰ روپے کے آس پاس رکھا ہوا تھا۔ جس سے قوم میں یہ تاثر گیا کہ ملکی معیشت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ مصنوعی معیشت اور عارضی طور پر مہنگائی میں کمی کا غبارہ ایک نہ ایک دن تو پھٹنا ہی تھا۔
جب نئی حکومت نے آکر یہ پالیسی ختم کی اور ڈالر اپنی اصل قیمت پر واپس آیا تو پوری قوم کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جیسے کسی نشئی کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی دنیا میں جھٹکے سے واپسی ہوتی ہے۔ ویسے ہی پاکستانی قوم سستے ڈالر کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی معیشت میں واپس آ چکی ہے۔ اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر عمران خان کو گالیاں بھی نکال رہی ہے کہ ہم سے سستے ڈالر کا نشہ کیوں چھڑوایا۔ وہ سستے ڈالر کا نشہ دینے والے بھگوڑے ڈاکٹر اسحاق ڈار کو واپس بلواؤ۔ حکومت نے قوم کی فریاد پر انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن وہ بھگوڑا ڈاکٹر اب ملک واپس آنے کو تیار نہیں۔ کہتا ہے میرا سستا نشہ ختم ہو گیا ہے:)
شکر ہے کہ عوام آپ (یعنی پی ٹی آئی ) کے گمراہ کن اور غلط پروپیگنڈا سے عرصہ چودہ ماہ میں ہی بیزار آ کی ہے۔ لفافہ جرنلسٹوں کی نوکریاں تو آپ نے اقتدار میں آتے ہی ختم کروادی تھیں۔ آج آپ کے پسندیدہ اینکر آپ پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ ہیں۔ آپ نے ملک کو ہائیپر انفلیشن کا شکار بنادیا ہے۔

کہاں گئے وہ سہانے خواب؟
 

جاسم محمد

محفلین
شکر ہے کہ عوام آپ (یعنی پی ٹی آئی ) کے گمراہ کن اور غلط پروپیگنڈا سے عرصہ چودہ ماہ میں ہی بیزار آ کی ہے۔ لفافہ جرنلسٹوں کی نوکریاں تو آپ نے اقتدار میں آتے ہی ختم کروادی تھیں۔ آج آپ کے پسندیدہ اینکر آپ پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ ہیں۔ آپ نے ملک کو ہائیپر انفلیشن کا شکار بنادیا ہے۔

کہاں گئے وہ سہانے خواب؟
پچھلے دس سال میں ڈالر ۶۰ روپے سے ۱۲۰ روپے تک گیا۔ کوئی ہائپر انفلیشن نہیں ہوئی۔ ایک سال میں ۱۲۰ روپے سے ۱۵۵ روپے ہوگیا اور نیچے آرہا ہے۔ تو ہائپر انفلیشن ہو گئی؟ یہ معاشی سائنس سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب کم از کم حکومت ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کیلئے مارکیٹ میں ڈالر قومی خزانہ سے لے کر نہیں پھینک رہی۔
اس وقت جو قیمت ہے وہ حقیقی ہے مصنوعی نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر ملک میں قوت خرید purchasing power ،مختلف مہنگائی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اب اپنا تو economics سے دور دور تک تعلق نہیں ہے تو زیادہ بہتر طور پر اس پر رائے زنی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایک یونٹ کرنسی میں کوئی شہری کتنی اشیاء خرید سکتا ہے، شائد ppp اور cpi وغیرہ کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کوئی چیز کتنی مہنگی ہے اور کیا ایک عام شہری اسے آسانی سے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔ تنخواہ بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔

اب جو محفلین اس بارے میں معلومات رکھتے ہیں وہ کچھ بتائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ محمد وارث بھائی کی تو یہی فیلڈ ہے وہ زیادہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔

محمدظہیر بھائی کا بھی نام دماغ میں آرہا ہے۔ ان کی فیلڈ بزنس ہے :) آجکل ویسے چپ کے روزے سے ہیں :D:p
خیر اکنامکس سے میرا تعلق تو نہیں ہے۔ 'ہوم اکنامکس' سے ضرور ہے۔ ہماری زوجہ نے گھر کا خرچ اور بجٹ بھی ہم پر ڈال رکھا ہے۔ :)

اوپر زیک کے اعداد و شمار سے بھی ثابت ہوا اور میں بھی اپنے تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ میرے ماہانہ اور سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ 'کچن' کے اخراجات کا ہے اور اس کے بعد بچوں کی پڑھائی اور یوٹیلیٹی بلز۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خوراک اور تعلیم دونوں ہی کافی مہنگی ہیں۔

اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے کھیتوں میں کنکریٹ کے جنگل اگ آئے ہیں۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو وہیں ان کے رہنے کی وجہ سے قابل کاشت زمین میں کمی ہو جاتی ہے۔

پھر پاکستان میں فی ایکٹر پیداوار بھی دنیا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

سبزیوں کی قیمت میں اضافے کا فائدہ اگر ہمارے کسان بھائیوں کو ہو رہا ہوتا تو شاید اس مہنگائی کا احساس کم ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کا فائدہ کسان کو نہیں بلکہ 'مڈل مین' کو ہوتا ہے جو کسانوں سے تو "ٹکہ ٹنڈ" (کوڑیوں کے بھاؤ) خریدتے ہیں لیکن مارکیٹ میں اپنے من مرضی کا ریٹ نکالتے ہیں۔

اور اس کے بعد اہم حصہ حکومت کا ہے جنہوں نے قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری والے اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں، مثال کے طور پر، بجائے قیمت کو کنٹرول کرنے کے وہ کہتے ہیں کہ ہر دکاندار، ہر ٹھیلے والے، ہر ریڑھی والے کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ ہونی چاہیئے۔ اور یہ ان کے پاس ہوتی ہے۔ اس میں دیہاڑی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ فوٹو کاپی کے اوپر وہ اپنی سرکاری مہر لگاتے ہیں اور اس مہر کا "ہدیہ" دس بیس تیس روپے ہوتا ہے جو ان کی اپنی جیب میں جاتا ہے، روزانہ ہزاروں ٹھپے لگتے ہیں اور یوں پرائس کنڑول والوں کی دیہاڑی بھی لگتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اور اس کے بعد اہم حصہ حکومت کا ہے جنہوں نے قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری والے اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں، مثال کے طور پر، بجائے قیمت کو کنٹرول کرنے کے وہ کہتے ہیں کہ ہر دکاندار، ہر ٹھیلے والے، ہر ریڑھی والے کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ ہونی چاہیئے۔ اور یہ ان کے پاس ہوتی ہے۔ اس میں دیہاڑی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ فوٹو کاپی کے اوپر وہ اپنی سرکاری مہر لگاتے ہیں اور اس مہر کا "ہدیہ" دس بیس تیس روپے ہوتا ہے جو ان کی اپنی جیب میں جاتا ہے، روزانہ ہزاروں ٹھپے لگتے ہیں اور یوں پرائس کنڑول والوں کی دیہاڑی بھی لگتی ہے۔
درست !!! اس زمانے میں پرائس کنٹرول میکنزم کو لاگو کرنا اتنا مشکل نہیں ، کوئی بھی پروسیجر سے ہٹ کر کام کرے اس کی رپورٹنگ اور ایسکلیشن متعلقہ حُکام تک پہنچنے میں وقت نہیں لگتا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے کرپشن کا بھی ایک نچلے درجے کا میکنزم (بطور سسٹم) متوازی طور پر کارفرما ہوتا ہے جو آپس کی لین دین اور اونچ نیچ کو ہینڈل کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک عنصر خلاف ورزی کرے تو گرفت میں لانا آسان ہوتا ہے لیکن جب یہ عناصر مکنزم ور سسٹم بنا کے کام کرتے ہیں تو اس کی کمر توڑنا حکومت کی اصل ذمہ داری ہونی چاہیئے یہ عوام کے بس کی بات نہیں ۔جرمانے اور سزاؤں کے لاگو کیے جانے پر ہی اس کا سب سے زیادہ انحصار ہے ۔ شاید اس کے لیے میرے خیال میں نئی قانون سازی کی ضرورت تو نہیں ہو گی البتہ قوانین کو ہر سطح پر لاگو کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
خیر اکنامکس سے میرا تعلق تو نہیں ہے۔ 'ہوم اکنامکس' سے ضرور ہے۔ ہماری زوجہ نے گھر کا خرچ اور بجٹ بھی ہم پر ڈال رکھا ہے۔ :)

اوپر زیک کے اعداد و شمار سے بھی ثابت ہوا اور میں بھی اپنے تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ میرے ماہانہ اور سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ 'کچن' کے اخراجات کا ہے اور اس کے بعد بچوں کی پڑھائی اور یوٹیلیٹی بلز۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خوراک اور تعلیم دونوں ہی کافی مہنگی ہیں۔

اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے کھیتوں میں کنکریٹ کے جنگل اگ آئے ہیں۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو وہیں ان کے رہنے کی وجہ سے قابل کاشت زمین میں کمی ہو جاتی ہے۔

پھر پاکستان میں فی ایکٹر پیداوار بھی دنیا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

سبزیوں کی قیمت میں اضافے کا فائدہ اگر ہمارے کسان بھائیوں کو ہو رہا ہوتا تو شاید اس مہنگائی کا احساس کم ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کا فائدہ کسان کو نہیں بلکہ 'مڈل مین' کو ہوتا ہے جو کسانوں سے تو "ٹکہ ٹنڈ" (کوڑیوں کے بھاؤ) خریدتے ہیں لیکن مارکیٹ میں اپنے من مرضی کا ریٹ نکالتے ہیں۔

اور اس کے بعد اہم حصہ حکومت کا ہے جنہوں نے قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری والے اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں، مثال کے طور پر، بجائے قیمت کو کنٹرول کرنے کے وہ کہتے ہیں کہ ہر دکاندار، ہر ٹھیلے والے، ہر ریڑھی والے کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ ہونی چاہیئے۔ اور یہ ان کے پاس ہوتی ہے۔ اس میں دیہاڑی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ فوٹو کاپی کے اوپر وہ اپنی سرکاری مہر لگاتے ہیں اور اس مہر کا "ہدیہ" دس بیس تیس روپے ہوتا ہے جو ان کی اپنی جیب میں جاتا ہے، روزانہ ہزاروں ٹھپے لگتے ہیں اور یوں پرائس کنڑول والوں کی دیہاڑی بھی لگتی ہے۔
ان تمام حقائق سے آگہی کے بعد ہی آپ نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔ اب ذرا تبدیلی کا حال بھی سُن لیں۔ تبدیلی حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ۵۰ ہزار سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی تو وہ ہڑتال پر نکل گئے۔ مجبوراً حکومت کو انہیں تین ماہ کی ایکسٹینشن دینا پڑی۔ اب حکومت سوچ رہی ہے کہ جی ایس ٹی کی بجائے مغرب کی طرح وی اے ٹی ٹیکس نافذ کر دیا جائے۔ اور یوں تاجر کی بجائے صارف سے براہ راست ٹیکس لیا جائے۔ یہ سب کیسے ہوگا کچھ پتا نہیں۔
اب آجائیں ایف بی آر کا حال۔ حکومت جانتی ہے کہ آدھے سے زیادہ ٹیکس سرکاری خزانہ میں جانے کی بجائے ٹیکس افسران کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے ٹیکس فائلنگ سے لیکر ٹیکس وصولی تک کا سارا نظام آن لائن کیا جانا ہے تاکہ درمیان سے ٹیکس چور ٹیکس افسران نکل جائیں۔ جس دن حکومت نے یہ تجویز ٹیکس افسران کے سامنے رکھی تو اس دن سے وہ حکومتی میٹنگز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
یعنی ایک طرف عام عوام ہے جو ۷۰ سالہ نظام سے تنگ آئی ہوئی ہے اور تبدیلی چاہتی ہے۔ دوسری طرف چھوٹا سا مافیا ہے جو اس کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ نظام کو چھیڑا جائے۔ ابھی یہ صرف جنگ کا آغاز ہے۔ ابھی بہت دور تک جانا ہے۔
 
Top