خیر اکنامکس سے میرا تعلق تو نہیں ہے۔ 'ہوم اکنامکس' سے ضرور ہے۔ ہماری زوجہ نے گھر کا خرچ اور بجٹ بھی ہم پر ڈال رکھا ہے۔
اوپر زیک کے اعداد و شمار سے بھی ثابت ہوا اور میں بھی اپنے تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ میرے ماہانہ اور سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ 'کچن' کے اخراجات کا ہے اور اس کے بعد بچوں کی پڑھائی اور یوٹیلیٹی بلز۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خوراک اور تعلیم دونوں ہی کافی مہنگی ہیں۔
اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے کھیتوں میں کنکریٹ کے جنگل اگ آئے ہیں۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو وہیں ان کے رہنے کی وجہ سے قابل کاشت زمین میں کمی ہو جاتی ہے۔
پھر پاکستان میں فی ایکٹر پیداوار بھی دنیا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
سبزیوں کی قیمت میں اضافے کا فائدہ اگر ہمارے کسان بھائیوں کو ہو رہا ہوتا تو شاید اس مہنگائی کا احساس کم ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کا فائدہ کسان کو نہیں بلکہ 'مڈل مین' کو ہوتا ہے جو کسانوں سے تو "ٹکہ ٹنڈ" (کوڑیوں کے بھاؤ) خریدتے ہیں لیکن مارکیٹ میں اپنے من مرضی کا ریٹ نکالتے ہیں۔
اور اس کے بعد اہم حصہ حکومت کا ہے جنہوں نے قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری والے اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں، مثال کے طور پر، بجائے قیمت کو کنٹرول کرنے کے وہ کہتے ہیں کہ ہر دکاندار، ہر ٹھیلے والے، ہر ریڑھی والے کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ ہونی چاہیئے۔ اور یہ ان کے پاس ہوتی ہے۔ اس میں دیہاڑی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ فوٹو کاپی کے اوپر وہ اپنی سرکاری مہر لگاتے ہیں اور اس مہر کا "ہدیہ" دس بیس تیس روپے ہوتا ہے جو ان کی اپنی جیب میں جاتا ہے، روزانہ ہزاروں ٹھپے لگتے ہیں اور یوں پرائس کنڑول والوں کی دیہاڑی بھی لگتی ہے۔