چونکہ یہ پیغام اسلام اور عصر حاضر میں ہے ، لہذا، اصولی طور پر اس کا اسلامی جواب بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اسلام کی واحد کتاب جو کہ رسول اللہ نے پیش کی وہ قرآن ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اللہ تعالی کے الفاظ یعنی قرآن کی وہ آیات جو ذہن میں اس مد میں آتی ہیں، یہ تمہید باندھوں گا۔
تمہید:
ہم ہیں کیا؟ ہمارے بنیادی بلڈنگ بلاکس سیل ہیں ، جس میں کہیں ڈی این اے بھی آتا ہے۔ یہ بایالوجیکل سیل کیا ہوتا ہے۔ یہ تو مجھے پتہ نہیں ۔ لیکن اس ڈی این اے میں پڑھا ہے کہ کوئی 4 بلین سے زائید مالیکیول ہوتے ہیں۔ اور یہ ایک طرح کا پروگرام ہوتا ہے جو کے چلتا رہتا ہے ، اس سے سیل تقسیم ہوتے رہتے ہیں اور بڑھتے رہتے ہیں، ہم میں سے ہر ایک گواہ ہے کہ اس نے آدمی کے بچے کو بڑا ہوتے دیکھا ہے۔ میری ذاتی ناقص رائے یہ ہے کہ یہ ڈی این اے ایک سوفٹویر پروگرام ہے جو کہ ایٹم کی الیکٹریکل اور میگنیٹک پراپرٹی کی مدد سے لکھا گیا ہے۔ یہ پروگرام کیا کچھ بناتا ہے۔ آنکھ، ناک، کان، ھڈی، کھال، خلیہ اور پتہ نہہیں کیا کیا۔ کتنی ہی قسم کے جذبات، حلم، بردباری، عقل، دکھ، غصہ، جلن، حسد، مقابلہ، محبت ، یہ سب کچھ ایک ایسا سوفٹویر جو مادے کی مقناطیسی ، کیمیکل اور طبیعاتی اور الیکٹریکل پراپرٹیز سے لکھا گیا ہے۔ یہ پروگرام تخلیق 70 سے 90 سال کی مدت میں پورا ہوجاتا ہے ، جو کہ بذات خود ایک ڈیزائین ہے۔ اگر ہم ہر 70 سے 100 سال میں تبدیل نہ ہوتے رہیں تو ہماری ترقی، خیالات کا ارتقاء ناممکن ہو۔
یہ بحث انسان کے ارتقاءکی نہیںبلکہ انسان کی تخلیق کا اسلامی بیان ہے کہ اسلامی نکتہ نظر کے مطابق انسان کو اللہ تعالی نے تخلیق کیا۔ اس کو اس قابل بنائا کہ وہ سرد و گرم کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہے اور ہر 70 سے 100 سال میں نئے ماڈل کی ایک کھیپ آجائے۔
اللہ تعالی نے تخلیق انسانی کے کئی مطلب بیان فرمائے ہیں:
1۔ کہ اللہ تعالی خود فخر کرتا ہے کہ وہ انسان بنانے کی ٹیکنالوجی سے واقف ہے۔ یعنی یہ امر اللہ تعالی کے لئے باعث فخر ہے کہ اس نے عقل انسانی اور انسان کو تخلیق کیا۔ کہ اللہ کا علم علم کامل ہے ، وہ جانتا ہے کہ مادے کی کیا پراپرٹیز ہیں کہ جن کی مدد سے ایک ایسا سوفٹویر ترتیب دیا جائے کہ جب مناسب حالات ہوںتو یہی سوفٹویر چل پڑے اور اس سے عقل انسانی اور انسان وجود میں آئے۔
2۔ اس تخلیق کا مقصد اللہ تعالی نے زمین میں اپنا ڈپٹی یا خلیفہ بنانا بتایا۔ تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ مادے کی پراپرٹیز سے ایک ایسا سافٹ ویر لکھا جاسکتا ہے جو مکمل عقل رکھتا ہو اور اس زمیں میں ایک پائیدار امن قائم کرسکتا ہو۔ اور اس قدر علم کا احاطہ کرسکتا ہو جو کہ اس کا سکھایا گیا ہو۔ یہ سکھانا، کسی مکتب میں نہیں بلکہ اس بنیادی سافٹ ویر میں مکمل معلومات ہوں کہ یہ سافٹ ویر جب ایک خاص سائز کا نڑھ کر ہوجائے تو خود سے سوچ سکے۔ اس طرح اللہ تعالی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس طرح کی تخلیق ممکن ہے جو مکمل طور پر عقل مند اور خود مختار ہو۔
3۔ اس تخلیق کو قائم رکھنے اور جاری رکھنے اور اس کا مناسب ارتقاء کرنے کے لئے ایک بہت بڑا ڈیزائین بنایا کہ لوگ مرد و عورت سے پھیلتے رہیں اور نئی نسلیں آتی رہیں جو کہ پچھلی نسلوں سے سوچ میں بہتر ہوں۔ سوچ سکتی ہوں۔
ان تین ممکنہ امور کی آیات کل۔