بافقیہ

محفلین
ہر شخص اپنی فطرت، مزاج ، ذوق اور جذبات و احساسات کے باعث اپنا انتخاب رکھتا ہے۔ اور اسے اپنے انتخاب کا مکمل حق بھی ہے۔ کسی میں درد و کرب اور مصیبت و غم کا پہلو غالب رہتا ہے، تو کوئی فرحت و انبساط اور خوشی و مسرت کے مضامین میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کوئی امت کا درد دل میں لئے فکر امت میں گھلتا ہے، اور کوئی تشبیب و غزل اور جوانی و سرمستی کے مضامین کے انبار لگاتا ہے۔ کسی کو سنجیدہ مضامین و خیالات لبھاتے ہیں اور کوئی طنز و مزاح میں اپنی راحت فکر و نظر محسوس کرتا ہے۔
ضروری نہیں کہ سب کو غالب و میر پسند ہوں، یا ضروری نہیں کہ سب اقبال و ظفر کے اشعار سن کر بچھ بچھ جائیں۔ کوئی فیض و فراز کا حامی بھی ہوگا، کوئی اختر و جوش کا شیدائی بھی ہوگا۔۔۔
ہم نے خیال کیا : کیوں نہ اس محفل میں اس کا تذکرہ چھیڑا جائے۔ اور ادب نواز شخصیتوں کے خیالات و احساسات سے آگاہ ہوں۔ ہر ایک ضرور یہاں حاضر ہوں۔ اور اپنے پسندیدہ اور ہر دل عزیز شعراء کا تذکرہ کریں۔ اور ان کے مقبول اشعار بھی۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
علامہ جہاں ، امام فلسفہ و منطق حضرت مرزا اسد اللہ خان المتلخص بہ غالؔب ۔۔۔

اب ان کے بارے کیا کہوں۔

یہ ایک دو شعر ملاحظہ فرمائیں:۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

اور

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک
 

محمد وارث

لائبریرین
نجم الدولہ، دبیر الملک، نظامِ جنگ، قبلہ و کعبہ، مرشدی، مرزا اسد اللہ خان الغالب

دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اِس رہ گزر میں جلوۂ گُل، آگے گرد تھا
 

فرقان احمد

محفلین
غالب سے بڑھ کر کون! تاہم، بیسویں صدی میں ہمیں اپنے مزاج سے ملتی جلتی شاعری شاعری مجید امجد مرحوم کے ہاں ملتی ہے۔ کیا زبردست شاعر تھے!
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب سے بڑھ کر کون! تاہم، بیسویں صدی میں ہمیں اپنے مزاج سے ملتی جلتی شاعری شاعری مجید امجد مرحوم کے ہاں ملتی ہے۔ کیا زبردست شاعر تھے!
واہ کیا ہی اچھے شاعر تھے

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
 

فرقان احمد

محفلین
کچھ شعر حاضر خدمت ہوں ۔۔۔!!!
نظم کا عنوان ہے، امروز!

ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی اَن سنی دائمی راگنی کی کوئی تان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزردہ ، آوارہ ، برباد
جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں ڈھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دو چار کڑیاں ،
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا روماں ، یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ کہ میرے زمانے میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں مَیں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے بس یہی میرا حصہ !

مجھے کیا خبر ، وقت کے دیوتا کی حسیں رتھ کے پہیوں تلے پِس چکے ہیں
مقدر کے کتنے کھلونے ، زمانوں کے ہنگامے ، صدیوں کے صد ہا ہیولے
مجھے کیا تعلق ۔۔۔۔۔۔۔ میری آخری سانس کے بعد بھی دوش گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لازوال آبشارِ رواں کا وہ آنچل ، جو تاروں کو چھولے
مگر آہ یہ لمحئہ مختصر ۔۔۔۔۔ جو مری زندگی ، میرا زادِ سفر ہے !
مرے ساتھ ہے ، میرے بس میں ہے ، میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لئے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ !
یہ اک مہلتِ کاوشِ دردِ ہستی ! یہ اک فرصتِ کوششِ آہ و نالہ !

یہ صہبائے امروز ، جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدورِ حیات آ گئی ہے ، یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں ، پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے ، میرے دل زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں ، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں !
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے

مارچ 1945ء
 

فرقان احمد

محفلین
یہ نظم دیکھیے، اور بتائیے کہ کون زندگی سے یوں، اس انداز میں، مخاطب ہوا!

ﺯﻧﺪﮔﯽ، ﺍﮮ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺧﺮﻗﮧ ﭘﻮﺵ ﻭ ﭘﺎ ﺑﮧ ﮔِﻞ
ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮞ، ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭ ﭘﺮ، ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﻣﻠﺘﺠﯽ ﻭ ﻣﻀﻤﺤﻞ
ﺧﺮﻗﮧ ﭘﻮﺵ ﻭ ﭘﺎ ﺑﮧ ﮔِﻞ
ﺍﮮ ﺟﮩﺎﻥِ ﺧﺎﺭ ﻭ ﺧﺲ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ، ﺍﮮ ﺯﻧﺪﮔﯽ

ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﺩﺭ ﭘﺮ ﭼﻤﮑﺘﯽ ﭼﻠﻤﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﭦ ﺳﮯ
ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺯﻣﺰﻣﮯ
ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﯽ ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﻮﺭ ﻣﯿﮟ
ﮈﻭﺑﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﮔﺮﻡ، ﮔﮩﺮﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ
ﻣﻨﻘﻞِ ﺍٓﺗﺶ ﺑﺠﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﺼﻞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ، ﺑﺎﮨﺮ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ،
ﺧﺮﻗﮧ ﭘﻮﺵ ﻭ ﭘﺎ ﺑﮧ ﮔِﻞ
ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮎ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺎ ﺩﻝ
ﺟﺲ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺠﮯ
ﺩﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮔﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ، ﺍﮮ ﺯﻧﺪﮔﯽ

ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﺤﻮِ ﺭﻗﺺ
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮦٔ ﮔﻠﻔﺎﻡ ﭘﺮ
ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﺋﮯ، ﮐﺘﻨﮯ ﻋﮑﺲ
ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﮑﺮ ﻣﺤﻮِ ﺭﻗﺺ
ﺍﻭﺭ ﺍﮎ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﯿﺎﮞ ﭨﯿﮑﮯ ﺧﻢِ ﺍﯾﺎﻡ ﭘﺮ
ﮨﻮﻧﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺟﺎﻡ ﭘﺮ
ﺳﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻧﺎﭼﺘﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍٓﮨﻨﮓِ ﻗﺪﻡ
ﺟﺎﻭﺩﺍﮞ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺘﯽ ﮔﺘﮑﮍﯼ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ ﻭ ﺑﻢ
ﺍٓﻧﭽﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﻢ ﺟﮭﻤﺎﮨﭧ، ﭘﺎﺋﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﻢ ﭼﮭﻢﻢ
ﺍﺱ ﻃﺮﻑ، ﺑﺎﮨﺮ، ﺳﺮِ ﮐﻮﺋﮯ ﻋﺪﻡ
ﺍﯾﮏ ﻃﻮﻓﺎﮞ، ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻞِ ﺑﮯﺍﻣﺎﮞ
ﮈﻭﺑﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﮮ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ
ﺍﮮ ﻧﮕﺎﺭِ ﺩﻝ ﺳﺘﺎﮞ
ﺍﭘﻨﯽ ﻧﭧ ﮐﮭﭧ ﺍﻧﮑﮭﮍﯾﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺑﮭﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ، ﺍﮮ ﺯﻧﺪﮔﯽ!
 
آخری تدوین:

فائضہ خان

محفلین
خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے
میں نے اک شخص سے اجرت پہ محبت کی ہے

خود کو دھتکار دیا میں نے تو اس دنیا نے
میری اوقات سے بڑھ کر مری عزت کی ہے

جی میں آتا ہے مری مجھ سے ملاقات نہ ہو
بات ملنے کی نہیں بات طبیعت کی ہے

اب بھی تھوڑی سی مرے دل میں پڑی ہے شاید
زرد سی دھوپ جو دیوار سے رخصت کی ہے

آج جی بھر کے تجھے دیکھا تو محسوس ہوا
آنکھ نے سورۂ یوسف کی تلاوت کی ہے

حال پوچھا ہے مرا پونچھے ہیں آنسو میرے
شکریہ تم نے مرے درد میں شرکت کی ہے

انجم سلیمی
 

بافقیہ

محفلین
شہنشاہ ظرافت اکبر الہ آبادی کی یہ غزل دیکھیں بالکل نہیں لگتا کہ آپ کا کلام ہے۔ گرچہ آپ کا سنجیدہ کلام بھی موجود ہے۔


آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی

کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی

یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں
کب تری یہ کج خیالی جائے گی
 

بافقیہ

محفلین
حضرت داغ کا تذکرہ رہ جائے۔ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟

آپ کی ایک غزل

بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

دلوں پر سیکڑوں سکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں

الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں

یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دل ناداں
ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی تو من کے بیٹھے ہیں

اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے
ہمیں پروا نہیں ہم سے اگر وہ تن کے بیٹھے ہیں

سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزم دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں

فسوں ہے یا دعا ہے یا معمہ کھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے آگے مرے مدفن کے بیٹھے ہیں

بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں

یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں

کسی کی شامت آئے گی کسی کی جان جائے گی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں


قسم دے کر انہیں یہ پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں

کوئی چھینٹا پڑے تو داغؔ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
 

اے خان

محفلین
ترتیب وار
غالب
میر
ابن انشا
ساحر لدھیانوی
عبدالحمید عدم
قتیل شفائی
فیض احمد فیض
فراز
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
ترتیب وار
غالب
میر
ابن انشا
ساحر لدھیانوی
عبدالمجید عدم
قتیل شفائی
فیض احمد فیض
فراز
عبدالحمید عدم تو نہیں؟؟؟!!!

کہتا ہے :۔

اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردش آسماں ٹھٹھک جائے

ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے :)
 

بافقیہ

محفلین
یہ نظیر اکبر آبادی بھی کیا شئے ہیں !!! واہ ۔۔۔
آنجناب ’’عوامی شاعر‘‘ سے موسوم ہیں۔
’’ آدمی نامہ‘‘ ’’بنجارہ نامہ‘‘ ’’روٹی نامہ‘‘ وغیرہ آپ ہی کے شاہکار ہیں۔

یہ ایک نظم بھی ملاحظہ فرمائیں:۔

دارالمکافات

ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اور سستوں کو یہ سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلا دے پان ملے جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو اور کسی کی جاں بخشے تو اس کی بھی حق جان رکھے
جو اور کسی کی آن رکھے تو اس کی بھی حق آن رکھے
جو یاں کا رہنے والا ہے یہ دل میں اپنے جان رکھے
یہ ترت پھرت کا نقشہ ہے اس نقشے کو پہچان رکھے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی پار اترنی ہے
جو غرق کرے پھر اس کو بھی ڈبکوں ڈبکوں کرنی ہے
شمشیر تبر بندوق سناں اور نشتر تیر نہرنی ہے
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو اوپر اونچا بول کرے تو اس کا بول بھی بالا ہے
اور دے پٹکے تو اس کو بھی کوئی اور پٹکنے والا ہے
بے ظلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
اس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندی نالا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو مصری اور کے منہ میں دے پھر وہ بھی شکر کھاتا ہے
جو اور تئیں اب ٹکر دے پھر وہ بھی ٹکر کھاتا ہے
جو اور کو ڈالے چکر میں پھر وہ بھی چکر کھاتا ہے
جو اور کو ٹھوکر مار چلے پھر وہ بھی ٹھوکر کھاتا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو اور کسی کو ناحق میں کوئی جھوٹی بات لگاتا ہے
اور کوئی غریب اور بیچارہ حق نا حق میں لٹ جاتا ہے
وہ آپ بھی لوٹا جاتا ہے اور لاٹھی پاٹھی کھاتا ہے
جو جیسا جیسا کرتا ہے پھر ویسا ویسا پاتا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

جو اور کی پگڑی لے بھاگے اس کا بھی اور اچکا ہے
جو اور پہ چوکی بٹھلاوے اس پر بھی دھونس دھڑکا ہے
یاں پشتی میں تو پشتی ہے اور دھکے میں یاں دھکا ہے
کیا زور مزے کا جمگھٹ ہے کیا زور یہ بھیڑ بھڑکا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

ہے کھٹکا اس کے ہاتھ لگا جو اور کسی کو دے کھٹکا
اور غیب سے جھٹکا کھاتا ہے جو اور کسی کے دے جھٹکا
چیرے کے بیچ میں چیرا ہے اور پٹکے بیچ جو ہے پٹکا
کیا کہیے اور نظیرؔ آگے ہے زور تماشا جھٹ پٹکا

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
 

رانا

محفلین
پروین شاکر اور ارشاد عرشی ملک پسندیدہ شاعرہ رہی ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری کون واقف نہ ہوگا۔ یہاں عرشی ملک کی ایک غزل اور ایک نظم شئیر کررہا ہوں۔ دونوں کافی لمبی ہیں اس لئے دونوں کے صرف ابتدائی چند اشعار پیش ہیں:

ذرا پہلے بتادینا
ارشاد عرشیؔ ملک

اچانک روٹھ جانے سے ذرا پہلے بتا دینا
ہمیں سُولی چڑھانے سے ذرا پہلے بتا دینا

کسک دل کی بھری محفل میں ہم کیسے چھپائیں گے
یہ آنکھیں بھیگ جانے سے ذرا پہلے بتا دینا

ہمارا امتحاں لینا ،مگر مت دفعتاً لینا
ہمیں تم آزمانے سے ذرا پہلے بتا دینا

رقیبوں پر نوازش شوق سے کرنا مگر ہم کو
یہ دُکھتی رگ دبانے سے ذرا پہلے بتا دینا

ہمارے شہرِ دل میں موسمِ شامِ غریباں ہے
یہاں تم چہچہانے سے ذرا پہلے بتا دینا

بس اِک وعدہ کرو پیارے کہ جب رستہ بدلنا ہو
کسی حیلے بہانے سے ذرا پہلے بتا دینا

تمہاری شوخ چشمی سے ہمیں کھٹکا ہی رہتا ہے
گُلِ تازہ کِھلانے سے ذرا پہلے بتا دینا

بہت ہی ناتواں ہیں ہم خوشی بھی سہہ نہیں سکتے
ہمیں جلوہ دکھانے سے ذرا پہلے بتا دینا

یہ امریکہ ہے
ارشاد عرشیؔ ملک

امریکہ سا گو کوئی ستم گار نہیں ہے
پر کون ہے جو اس کا طلب گار نہیں ہے

ہندی ہو کہ روسی ہو کہ چینی ہو کہ ہم ہوں
ویزہ ،کسے اس ملک کا درکار نہیں ہے

آزادیِ افکار پہ مرتے ہیں یہاں سب
اس واسطے پابندیِ اظہار نہیں ہے

موبائل و اخبار میں رہتے ہیں مگن سب
ہاتھوں میں کسی شخص کے ہتھیار نہیں ہے

یاں جنس کی تعلیم تو بچپن سے ہے لازم
بچوں کے لئے کچھ پھی پُر اسرار نہیں ہے

اس ملک میں شادی ہے فقط وقت گزاری
تا عمر کا بندھن انہیں درکار نہیں ہے

یہ جسم کی آواز پہ کہہ دیتے ہیں لبیک
دل پر کوئی دستک کا روادار نہیں ہے

پوجا یہاں کرتے ہیں سبھی نفس کے بُت کی
اللہ کسی شخص کو درکار نہیں ہے

راکٹ پہ ترقی کے ہر اِک شخص ہے بیٹھا
پہنچے گا کہاں اس سے سروکار نہیں ہے

یہ ڈھول سُہانا ہے اگر دُور بجے تو
دل پاس سے سننے کا روا دار نہیں ہے
 
Top