علامہ شبلی نعمانی بالعموم ایک عظیم مؤرخ، زبردست ناقد اور نام ور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
لیکن آپ ایک اچھے اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ آپ کی مشہور نظم ’’شہر آشوب اسلام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
( آپ نے اپنے بھائی کی وفات پر ایک دردناک مرثیہ بھی لکھا تھا۔ جو واقعی اپنی نظیر آپ ہے۔ مطالبہ ہوا تو عنایت ہوگی
)
شہر آشوب اسلام
[ریاست ہائے بلقان نے مل کر ایک ساتھ ترکی پر حملہ کیا تھا۔ اور اس سے ترکی کو جو نقصان عظیم اٹھانا پڑا، اس پر تمام دنیائے اسلام نے خون کے آنسو بہائے تھے۔ ان ہی اشک فشانیوں کے چند قطرات یہ ہیں۔]
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک
چراغ کشتۂ محفل سے اُٹھے گا دُھواں کب تک
قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے
فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک
مراکش جا چکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک
یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
اُسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دہواں کب تک
یہ سب ہیں رقص بسمل کا تماشا دیکھنے والے
یہ سیر اُن کو دکھائے گا شہید نیم جاں کب تک
یہ وہ ہیں نالۂ مظلوم کی لے جن کو بھاتی ہے
یہ راگ اُن کو سنائے گا یتیم ناتواں کب تک
کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو
یہ ظلم آرائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کب تک
یہ جوش انگیزیٔ طوفان بیدادو بلاتا کے!
یہ لطف اندوزئ ہنگامۂ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحاں کب تک
نگارستان خوں کی سیر گر تم نے نہیں دیکھی!
تو ہم دکھلائیں تم کو زخم ہائے خونچکاں کب تک
یہ مانا گرمئ محفل کے ساماں چاہئیں تم کو
دکھائیں ہم تمھیں ہنگامۂ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا قصہ غم سے تمھارا جی بہلتا ہے
سنائیں تم کو اپنے درد دل کی داستاں کب تک
یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا
ہم اپنے خون سے سینچیں تمھاری کھیتیاں کب تک
عروس بخت کی خاطر تمھیں درکار ہے افشاں!
ہمارے زرہ ہائے خاک ہوں گے زرفشاں کب تک
کہاں تک لو گے ہم سے انتقام فتح ایوبیؔ
دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
سمجھ کر یہ کہ دُھندلے سے نشان رفتگاں ہم ہیں
مٹاؤ گے ہمارا اس طرح نام و نشان کب تک
زوال دولتِ عثماں ، زوال شرع ملت ہے
عزیز و! فکر فرزند و عیال و خانماں کب تک
خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ طیاریاں کیا ہیں
نہ سمجھے اب تو پھر سمجھو گے تم یہ چیستاں کب تک
پرستاران خاک و کعبہ دنیا سے اگر اُٹھے
تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قُدسیاں کب تک
جو گونج اُٹھے گا عالم شور ناموش کلیسا سے
تو پھر یہ نغمۂ توحید و گلبانگِ اذاں کب تک
بکھرتے جاتے ہیں شیرازۂ اوراق اسلامی
چلیں گی تند باد کفر کی یہ آندھیاں کب تک
کہیں اُڑ کر نہ دامانِ حرم کو بھی یہ چھو آئے
غبار کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک
حرم کی سمت بھی صیدا فگنوں کی جب نگاہیں ہیں
تو پھر سمجھو کہ مرغان حرم کا آشیاں کب تک
جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
کہ اب امن و امان شام و نجد و قیرواں کب تک
(دیوان شبلی ۱۲۲۔۱۲۵)