مغزل
محفلین
امیر مینائی کا کلام
سركتي جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نكلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے كرليا پردہ
حيا یکلخت آئي اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت كا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
كبھي فرصت ميں كرلينا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر اُن كو عدو كا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے ديتے ہيں جواب آہستہ آہستہ
ہمارے اور تمھارے پيار ميں بس فرق ہے اتنا
ادھر تو جلدي جلدي ہے اُدھر آہستہ آہستہ
( قافیہ بتاتا ہے کہ یہ شعر کہیں اور سے آیا ہے ۔ مگر جگجیت نے یوں ہی گا یا ہے )
وہ بيدردي سے سر كاٹيں امير اور ميں كہوں اُن سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
----------------------------------------
شاعر کا نام معلو م نہیں :
ڈھلے گی رات آئے گی سحر، آہستہ آہستہ
پیو اُن انکھڑیوں کے نام پر، آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو، چاندنی سے دل کو بہلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر، آہستہ آہستہ
دکھا دینا اُسے زخم جگر، آہستہ آہستہ
سمجھ کر، سوچ کر، پہچان کر، آہستہ آہستہ
یکایک ایسے جل بُجھنے میں لُطف جاں کُنی کب تھا
جلے اک شمع پر ہم بھی مگر، آہستہ آہستہ
---------------------------------------------
ایک اور ’’ ساتھی ‘‘ کا کلام
گزرتی جاتی ہے سر سے کتاب آہستہ آہستہ
بھلاتا جارہا ہوں سب حساب آہستہ آہستہ
خفا ہونے لگے جب ان سےہم تو چڑھ گیا غصہ
سزا یک لخت دےدی اور عذاب آہستہ آہستہ
کہ شب بھر فلم دیکھی ہے خدارا اب تو سونے دو
کبھی فرصت ملی تو ہوگا نصاب آہستہ آہستہ
انہیں ہے خوف چھاپے کا ہمیں ہے نقل کی جلدی
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے خبری میں گھر آئیں میرے تو میں کہوں ان سے
سلام آہستہ آہستہ آداب آہستہ آہستہ
------------------------------------------------
شاید ’’ ولی دکنی ‘‘ کا کلام -- battingeyelashes
کیا مجھ عشق نے ظالم کو آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کو کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دلبر کی بجھایا آتشِ غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شبِ خلوت میں گلرو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کو کیا بےخود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بیہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سے اے آتشیںرو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ادا و ناز سے آتا ہے وہ روشنجبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
ولی مجھ دل میں آتا ہے خیالِ یار بےپروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
( کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ سے لیا گیا کلام )
سركتي جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نكلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے كرليا پردہ
حيا یکلخت آئي اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت كا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
كبھي فرصت ميں كرلينا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر اُن كو عدو كا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے ديتے ہيں جواب آہستہ آہستہ
ہمارے اور تمھارے پيار ميں بس فرق ہے اتنا
ادھر تو جلدي جلدي ہے اُدھر آہستہ آہستہ
( قافیہ بتاتا ہے کہ یہ شعر کہیں اور سے آیا ہے ۔ مگر جگجیت نے یوں ہی گا یا ہے )
وہ بيدردي سے سر كاٹيں امير اور ميں كہوں اُن سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
----------------------------------------
شاعر کا نام معلو م نہیں :
ڈھلے گی رات آئے گی سحر، آہستہ آہستہ
پیو اُن انکھڑیوں کے نام پر، آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو، چاندنی سے دل کو بہلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر، آہستہ آہستہ
دکھا دینا اُسے زخم جگر، آہستہ آہستہ
سمجھ کر، سوچ کر، پہچان کر، آہستہ آہستہ
یکایک ایسے جل بُجھنے میں لُطف جاں کُنی کب تھا
جلے اک شمع پر ہم بھی مگر، آہستہ آہستہ
---------------------------------------------
ایک اور ’’ ساتھی ‘‘ کا کلام
گزرتی جاتی ہے سر سے کتاب آہستہ آہستہ
بھلاتا جارہا ہوں سب حساب آہستہ آہستہ
خفا ہونے لگے جب ان سےہم تو چڑھ گیا غصہ
سزا یک لخت دےدی اور عذاب آہستہ آہستہ
کہ شب بھر فلم دیکھی ہے خدارا اب تو سونے دو
کبھی فرصت ملی تو ہوگا نصاب آہستہ آہستہ
انہیں ہے خوف چھاپے کا ہمیں ہے نقل کی جلدی
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے خبری میں گھر آئیں میرے تو میں کہوں ان سے
سلام آہستہ آہستہ آداب آہستہ آہستہ
------------------------------------------------
شاید ’’ ولی دکنی ‘‘ کا کلام -- battingeyelashes
کیا مجھ عشق نے ظالم کو آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کو کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دلبر کی بجھایا آتشِ غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شبِ خلوت میں گلرو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کو کیا بےخود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بیہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سے اے آتشیںرو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ادا و ناز سے آتا ہے وہ روشنجبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
ولی مجھ دل میں آتا ہے خیالِ یار بےپروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
( کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ سے لیا گیا کلام )