(10)
عمران مغربی گوشے والی زرد عمارت کے سامنے رک گیا!۔۔۔۔عمارت مختصر سی مگر خوبصورت تھی!۔۔۔۔یہاں ساری ہی عمارتوں میں نفاست اور سلیقے کو دخل تھا!
ایک ملازم نے اسے سردار دراب کے اپاہج بھائی سجاد تک پہنچا دیا! وہ اس وقت ایک آرام کرسی میں پڑا ہوا تھا!۔۔۔۔اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ رہی ہو گی!۔۔۔۔چہرے پر کچھ اس قسم کی توانائی تھی کہ وہ اپاہج معلوم نہیں ہوتا تھا! اس نے اپنے پیر کمبل میں لپیٹ رکھے تھے - - عمران کو اس کا جسم بھی خاصا توانا معلوم ہوا۔۔۔۔اس کے بازو بھرے ہوئے تھے۔ اور سینہ کافی فراخ تھا۔آنکھیں سرخ تھیں!۔۔۔۔ چہرے پر گھنی ڈاڑھی اور اوپر چڑھی ہوئی موٹی مونچھیں تھیں!
“تشریف رکھیئے!میں نے آپ کو پہچانا نہیں!۔۔۔۔“ اس نے مسکرا کر کہا!
“میں سردار صاحب کا نیا پرائیویٹ سیکرٹری ہوں!“
“اوہ - - اچھا! کیسے تکلیف کی - - !“
“کچھ نہیں یونہی ملنے چلا آیا۔اب جب کہ مجھے یہاں رہنا ہی ہے تو سب سے جان پہچان پیدا کرنی چاہئے!“
“ٹھیک ہے۔۔۔۔یہ تو بہت ضروری بات ہے!“ سجاد نے جواب دیا پھر اس نے کسی نوکر کو آواز دی ،جو جلد ہی واپس پہنچ گیا! مگر عجیب ہئیت میں۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈوری تھی جس میں دس پندرہ بڑے بڑے زندہ بچھو لٹک رہے تھے - - ! عمران نے اس طرح اپنے ہونٹ سکوڑ لئے جیسے سیٹی بجانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
مگر دوسرے ہی لمحہ میں سجاد کی چنگھاڑ سے سارا کمرہ گونجنے لگا!وہ بُری طرح نوکر پر برس رہا تھا!
“ابے تجھے کب عقل آئے گی الو کے پٹھے! کیا انہیں رکھ کر نہیں آ سکتا تھا۔ صورت حرام کتے کے پلے!“
“صاحب یہ ابھی آئے ہیں۔۔۔۔!“ نوکر مردہ سی آواز میں بیزار سے لہجے میں بولا!“میں انہیں رکھنے جا رہا تھا کہ آپ نے آواز دی!“
“آواز کے بچے! - - - دفع ہو جاؤ۔۔۔۔اصغر سے کہو کہ سیکرٹری صاحب کے لئے چائے تیار کرے۔۔۔۔سنا الو کے پٹھے!“ نوکر چپ چاپ چلا گیا!
سجاد بہت زیادہ غصے میں تھا اور اسے ٹھنڈا ہونے میں تقریباّ پانچ منٹ لگے۔ اس دوران میں وہ عمران کو کچھ اس انداز میں بار بار گھورتا رہا جیسے وہ بدتمیز نوکر کا کوئی قریبی رشتے دار رہا ہو!
“سیکرٹری صاحب!“دفعتاّ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!“یہاں اچھے نوکروں کے علاوہ اور سب کچھ مل سکتا ہے! یہ کم بخت اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ ان کی شکلیں دیکھی جائیں!“
“جی ہاں!“ عمران سر ہلا کر بولا!“یہ واقعی بیہودگی ہے! اگر وہ کم بخت مداری ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کو بھی ان بچگانے کھیلوں سے دلچسپی ہو!“
“ارے لاحول ولا قوۃ۔۔۔۔آپ بھی کمال کرتے ہیں!“ وہ زبردستی مسکرایا۔ “نہ وہ مداری ہے اور نہ مجھے ایسی کھیلوں سے دلچسپی ہے!۔۔۔۔وہ تو دوا کے لئے منگوائے ہیں میں نے- - ! میری ٹانگیں بالکل ہی بے جان نہیں ہیں۔ ان میں سردیوں کے زمانے میں اتنا درد ہوتا ہے کہ زندگی محال نظر آنے لگتی ہے!بچھوؤں کے تیل سے آرام رہتا ہے۔۔۔۔!“
“یقیناّ رہتا ہو گا!۔۔۔۔بچھو بہت گرم ہوتے ہیں!“ عمران سر ہلا کر بولا!
بچھو ہی نہیں مسٹر! اس میں اور بھی گرم چیزیں پڑتی ہیں اور بھی کیڑے مکوڑے شامل ہیں! شیر کی چربی۔۔۔۔گوہ کی چربی۔۔۔۔اور سوینا مچھلی۔۔۔۔اور نجانے کیا کیا الا بلا۔۔۔۔بڑا قیمتی تیل ہوتا ہے۔۔۔۔ایک بار سامان اکٹھا کیا تھا۔۔۔۔مگر کچھ بچھو کم پڑ گئے۔۔۔۔انہیں گدھوں کی غفلت کی وجہ سے بھاگ نکلے! مجھے تو راتوں کو نیند نہیں آتی ۔۔۔۔اگر ان کھوئے ہوئے بچھوؤں میں سے کوئی پلنگ پر چڑھ آئے تو۔۔۔۔“ وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر خاموش ہو گیا!
“وہ واقعی تشویش کی بات ہے!“ عمران فکرمندانہ لہجے میں بولا! چند لمحے خاموش رہا پھر بولا! “ کتنے عرصے کی بات ہے! میرا مطلب یہ ہے کہ بعض اقسام کے بچھو۔۔۔۔اپنے مخصوص ٹھکانے سے الگ ہونے کے بعد پندرہ دن سے زیادہ زندہ نہیں رہتے!“
“اوہو- - ! تب تو وہ ابھی زندہ ہوں گے!“ سجاد نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا! “ یہ پچھلے ہی ہفتے کی بات ہےتاریخ مجھے یاد نہیں ۔۔!“
“تب تو وہ جناب ابھی زندہ ہی ہوں گے۔۔!“
“اللہ مالک ہے!“ سجاد نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا!۔۔۔۔“مشیت۔۔۔۔میں کسے دخل ہو سکتا ہے۔۔۔۔اب یہ دیکھئے ۔۔۔۔“ سجاد نے اپنے پیروں پر سے کمبل ہٹا دیا۔ اس کی پتلی پتلی ٹانگیں بھاری بھرکم جسم پر عجیب معلوم ہو رہی تھیں۔
“مجھے ان پیروں پر ہنسی آتی ہے!“ سجاد مسکرا کر بولا!“ آپ خود دیکھئے۔۔۔۔ہے نا مضحکہ خیز بات۔۔۔۔کمر سے اوپر میں ہاتھی ہوں۔۔۔۔اور کمر سے نیچے ہرن۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر گہرے غم کے آثار نظر آنے لگے۔۔۔۔اور اس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا!“ٹھیک ہے جناب مشیت میں کسے دخل ہو سکتا ہے!“
“آپ اس سے پہلے کہاں تھے سیکرٹری صاحب!“ سجاد نے دفعتاّ خلوص سے کہا! “ نہ جانے کیوں آپ سے بڑی محبت معلوم ہوتی ہے!“
“ارے یہاں آپ سب لوگ بہت اچھے ہیں!مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں! عقیل صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ سے بڑی محبت معلوم ہوتی ہے!۔۔۔ڈاکٹر نجیب صاحب بھی یہی کہہ رہے تھے!۔۔۔۔سردار صاحب مگر نہیں سردار صاحب کبھی مجھے پسند کرتے ہیں اور کبھی ناپسند!“
“وہ بہت اچھے آدمی ہیں سیکرٹری صاحب!“ سجاد نے محبت آمیز لہجے میں کہا! “آہستہ آہستہ ان سے واقف ہوں گے۔ وہ دل کے برے نہیں ہیں۔۔۔۔اور زبان کا کیا!۔۔۔۔دل صاف ہونا چاہئے۔۔۔۔کیوں جناب!“
“درست فرمایا۔۔۔۔!“
“لیکن ٹھہرئیے ۔۔! ابھی آپ نے عقیل کا نام لیا تھا!۔۔۔۔کیا اس نے آپ سے گھل مل جانے کی کوشش کی تھی!“
“جی ہاں۔۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں!“
“دنیا کا کوئی آدمی برا نہیں ہے جناب! لیکن۔۔۔۔آپ اس کے چکر میں ہر گز نہیں پڑئیے گاورنہ آپ کو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے! میں آج تک سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ کس قماش کا آدمی ہے۔۔۔۔مگر میں یہ بات فضول ہی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔جس کی اصلیت میں فرق ہو!“
“میں نہیں سمجھا!اصلیت سے کیا مراد ہے آپ کی!“
“کچھ نہیں جانے دیجیئے! یہ ہمارے لئے کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے! بہر حال میں آپ کو ایک مفید مشورہ دے رہا ہوں۔۔۔۔اس سے زیادہ ربط ضبط نہ رکھئیے گا!ورنہ نقصان کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا!“
“میں آپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا!“