سال 2015میں انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، غالب اکیڈمی ، بستی نظام الدین اولیاءمیں ان کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا بھی انعقاد کیا گیا تھا،جس کی خبریں اخبار ات میں شائع ہوئی تھیں۔یہ اُس وقت کی بات ہے ، جب راقم کا شاعری سے دور دور تک کا واسطہ نہ تھا۔ ایک عام سامع اور قاری کی طرح محض شعر سننے اور اور اپنے مضامین میں نقل کردینا ہی کافی تصور کرتا تھا۔
امجد اسلام امجد کا نام میں نے اس وقت سناتھا، جب دورانِ درس استاد محترم نے اردو کے معروف اور باوقار شاعروں کا نام گنوایا تھا۔ جہاں حبیب جالب، فیض احمد فیض ، احمد فراز ، سعود عثمانی وغیرہ کا نام لیا گیا، وہیں امجد اسلام امجدکابھی ذکر کیاگیا۔ اس سے قدرے جانکاری ہوئی ، پھر جب ریختہ کے ذریعہ ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ، تو مزید جانکاری حاصل ہوئی ۔ شاعروں کی” مزخرفات “سے کون واقف نہیں ، متین و سنجیدہ شاعری پڑھنے اور سننے کواب تو ملتے ہی نہیں ، خال خال ہی ایسے افراد ملتے ہیں ۔ ان نایاب لوگوں میں امجد اسلام امجد کانام سنجیدگی اور متانت سے لیا جاتا ہے۔
آج وہ سفر آخر ت پر روانہ ہوگئے ۔ تاہم ان کی یادگاریں ہمیشہ رہیں گی ۔ ان کا انتقال محض ایک شخص کا انتقال نہیں ہے، بلکہ اردو ادب کے ایک درخشندہ باب کا غروب ہے۔ یقینا ان کے اہل خانہ ان کی رحلت سے افسردہ اور غمگین ہوں گے ، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کے ا نتقال سے اردو ادب سے وابستہ ہر ایک شخص افسردہ اور ملول ہے۔ اور ان كو انہى كى زبانى خراج عقيدت پيش كر رہے ھىں:
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی
آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
خشک ہونٹوں پر لرزتی اک دعا رہ جائے گی
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگا ن کو صبرجمیل کی توفیق بخشے ، آمین ۔
فاخر