عدیل منا
محفلین
وحدت امت
مولانا مفتی محمد شفیع
مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا"مزاج کیسے ہیں؟" انہوں نے کہا کہ ہاں! ٹھیک ہیں میاں! مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی۔۔۔۔میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی تو حضرت نے فرمایا کہ "میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی!" میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا "ہماری عمروں کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر اپنے مسلک کی ترجیح قائم کردیں۔اپنے مسلک کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا!۔۔۔۔اب غورکرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا "ارے میاں اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطا پر، اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا؟ (نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا، برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالٰی نہ امام شافعی رحمۃ اللہ کو رسوا کرے گا نہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو، نہ امام مالک رحمۃ اللہ کو اور نہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کو۔۔۔۔اور نہ میدانِ حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ کس امام نے صحیح کہا تھا اور کس نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔
"تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں، نہ محشر میں۔ اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو "صحیح اسلام" کی دعوت تھی، جو سب کے نزدیک مجمع علیہ اور وہ مسائل جو سب کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام علیہ السلام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی، یہ ضروریات دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہورہی ہیں اور اغیار سبھی دین کے چہرے مسخ کر رہے ہیں اور منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہئے تھا، وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک اور بت پرستی چلی آرہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں!۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی۔
مولانا مفتی محمد شفیع
مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا"مزاج کیسے ہیں؟" انہوں نے کہا کہ ہاں! ٹھیک ہیں میاں! مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی۔۔۔۔میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی تو حضرت نے فرمایا کہ "میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی!" میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا "ہماری عمروں کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر اپنے مسلک کی ترجیح قائم کردیں۔اپنے مسلک کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا!۔۔۔۔اب غورکرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا "ارے میاں اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطا پر، اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا؟ (نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا، برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالٰی نہ امام شافعی رحمۃ اللہ کو رسوا کرے گا نہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو، نہ امام مالک رحمۃ اللہ کو اور نہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کو۔۔۔۔اور نہ میدانِ حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ کس امام نے صحیح کہا تھا اور کس نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔
"تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں، نہ محشر میں۔ اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو "صحیح اسلام" کی دعوت تھی، جو سب کے نزدیک مجمع علیہ اور وہ مسائل جو سب کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام علیہ السلام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی، یہ ضروریات دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہورہی ہیں اور اغیار سبھی دین کے چہرے مسخ کر رہے ہیں اور منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہئے تھا، وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک اور بت پرستی چلی آرہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں!۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی۔