حیدرآبادی
محفلین
جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی جناب قیصر تمکین 67 سال کی عمر میں 25-نومبر-2009ء کو عالمی اردو ادب کے منظر نامے سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
"قیصر تمکین" کی عرفیت اختیار کرنے والے اور لکھنؤ سے دینیات کی تعلیم حاصل کرنے والے حافظ قرآن "شریف احمد علوی" ، جن کے والد مشہور ادیب مشیر علوی ناظر کاکوروی ، دادا امیر احمد علوی اور پردادا محسن کاکوروی تھے ، ساٹھویں دہائی میں یوروپ منتقل ہوئے اور کئی دہائیوں کے قیام کے بعد لیڈز میں وفات پائی۔ پسماندگان میں بیوہ صبیحہ علوی اور تین دختران موجود ہیں۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی احمد ابراہیم علوی حیات ہیں جو لکھنؤ سے روزنامہ "آگ" کا اجراء کرتے ہیں۔
قیصر تمکین کا تخلیق کردہ ادب یوروپ میں آباد برصغیر کے مہاجرین کے سماجی اور خارجی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کی کہانیوں یا افسانوں میں ان مہاجرین کی خارجی حقیقت کا فنی تعین بھی ملتا ہے۔ سیاسی حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ قیصر تمکین کے یہاں روحانی چاندنی چٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اسی اور نوے کی دہائی میں اگر ایک طرف مرحوم کے دلچسپ افسانے ماہنامہ "شمع" (نئی دلی) میں شائع ہوا کرتے تھے تو دوسری طرف روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد) کے ادبی ایڈیشن میں مفید تنقیدی مضامین کا سلسلہ جاری رہا کرتا تھا۔
قیصر تمکین کو ان کے افسانوی مجموعہ "جگ ہنسائی" پر اترپردیش اردو اکیڈمی سے سال کی بہترین کتاب کا اعزاز حاصل ہوا تھا اور 2002ء میں لاہور کے نقوش ایوارڈ سے بھی وہ نوازے گئے تھے۔
اپنی فنی اور جمالیاتی اوصاف کی بدولت یوروپ میں تخلیق پانے والے ادب کو انہوں نے ایک نیا آہنگ دیا اور اس میں اتنی وسعت عطا کی کہ اس میں مہاجرین کی زندگی کی بصیرتوں کی سمائی ممکن ہوئی۔
یوروپ میں اردو لکھنے والوں کی نظریں اپنی رہنمائی کے لئے قیصر تمکین کے تخلیق کردہ ادب پر اٹھتی رہیں گی۔
قیصر تمکین کے افسانے ایسا مخلوط منظر پیش کرتے ہیں کہ جیسے قاری بیک وقت ایشیا اور یوروپ کے مناظر دیکھ رہا ہو۔ ان افسانوں کے ذریعے اپنے عہد کے انسانوں کی عادت و خصائل کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان انسانی کرداروں میں حسد ، ریا ، مکر ، مایوسی ، سردمہری ، بےحسی ، خودغرضی ، حرص و طمع پر مبنی کرداروں کی حیثیت نمایاں ہے۔ قیصر تمکین نے تمام موجودہ لسانیاتِ ادب کو آزمانے کے بجائے دو ٹوک اور حقیقی زبان کا استعمال کیا ہے۔
قیصر تمکین کے ایک تنقیدی مضمون کا ایک اہم اقتباس کچھ عرصہ قبل میں نے اردو محفل پر پیش کیا تھا ، جسے یہاں پڑھا جا سکتا ہے:
اخبارات - مقصدِ اشاعت ؟ ۔۔۔ انگریزی سے اردو تک !
روزنامہ "آگ" میں قیصر تمکین پر ایک تاثراتی مضمون یہاں ملاحظہ فرمائیں :
عصر حاضر کا عظیم اردو دانشور / از: آصف جیلانی
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی جناب قیصر تمکین 67 سال کی عمر میں 25-نومبر-2009ء کو عالمی اردو ادب کے منظر نامے سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
"قیصر تمکین" کی عرفیت اختیار کرنے والے اور لکھنؤ سے دینیات کی تعلیم حاصل کرنے والے حافظ قرآن "شریف احمد علوی" ، جن کے والد مشہور ادیب مشیر علوی ناظر کاکوروی ، دادا امیر احمد علوی اور پردادا محسن کاکوروی تھے ، ساٹھویں دہائی میں یوروپ منتقل ہوئے اور کئی دہائیوں کے قیام کے بعد لیڈز میں وفات پائی۔ پسماندگان میں بیوہ صبیحہ علوی اور تین دختران موجود ہیں۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی احمد ابراہیم علوی حیات ہیں جو لکھنؤ سے روزنامہ "آگ" کا اجراء کرتے ہیں۔
قیصر تمکین کا تخلیق کردہ ادب یوروپ میں آباد برصغیر کے مہاجرین کے سماجی اور خارجی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کی کہانیوں یا افسانوں میں ان مہاجرین کی خارجی حقیقت کا فنی تعین بھی ملتا ہے۔ سیاسی حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ قیصر تمکین کے یہاں روحانی چاندنی چٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اسی اور نوے کی دہائی میں اگر ایک طرف مرحوم کے دلچسپ افسانے ماہنامہ "شمع" (نئی دلی) میں شائع ہوا کرتے تھے تو دوسری طرف روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد) کے ادبی ایڈیشن میں مفید تنقیدی مضامین کا سلسلہ جاری رہا کرتا تھا۔
قیصر تمکین کو ان کے افسانوی مجموعہ "جگ ہنسائی" پر اترپردیش اردو اکیڈمی سے سال کی بہترین کتاب کا اعزاز حاصل ہوا تھا اور 2002ء میں لاہور کے نقوش ایوارڈ سے بھی وہ نوازے گئے تھے۔
اپنی فنی اور جمالیاتی اوصاف کی بدولت یوروپ میں تخلیق پانے والے ادب کو انہوں نے ایک نیا آہنگ دیا اور اس میں اتنی وسعت عطا کی کہ اس میں مہاجرین کی زندگی کی بصیرتوں کی سمائی ممکن ہوئی۔
یوروپ میں اردو لکھنے والوں کی نظریں اپنی رہنمائی کے لئے قیصر تمکین کے تخلیق کردہ ادب پر اٹھتی رہیں گی۔
قیصر تمکین کے افسانے ایسا مخلوط منظر پیش کرتے ہیں کہ جیسے قاری بیک وقت ایشیا اور یوروپ کے مناظر دیکھ رہا ہو۔ ان افسانوں کے ذریعے اپنے عہد کے انسانوں کی عادت و خصائل کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان انسانی کرداروں میں حسد ، ریا ، مکر ، مایوسی ، سردمہری ، بےحسی ، خودغرضی ، حرص و طمع پر مبنی کرداروں کی حیثیت نمایاں ہے۔ قیصر تمکین نے تمام موجودہ لسانیاتِ ادب کو آزمانے کے بجائے دو ٹوک اور حقیقی زبان کا استعمال کیا ہے۔
قیصر تمکین کے ایک تنقیدی مضمون کا ایک اہم اقتباس کچھ عرصہ قبل میں نے اردو محفل پر پیش کیا تھا ، جسے یہاں پڑھا جا سکتا ہے:
اخبارات - مقصدِ اشاعت ؟ ۔۔۔ انگریزی سے اردو تک !
روزنامہ "آگ" میں قیصر تمکین پر ایک تاثراتی مضمون یہاں ملاحظہ فرمائیں :
عصر حاضر کا عظیم اردو دانشور / از: آصف جیلانی