محمد علم اللہ
محفلین
آہ ! مفتی محمدشعیب اصلاحی قاسمی
محمد علم اللہ اصلاحی
تھی امانت اٹھ گئی، کیوں کوئی واویلا کرے
آمدمومن ہے، رضواں، خلد کا در وا کرے
عمر طبعی کو پہنچ کر جب کوئی داعی اجل کو لبیک کہتاہے تو متعلقین اور متوسلین کو یہ تسلی رہتی ہے کہ ان کا عزیز کسی ناگہانی آفت، مہلک مرض،حادثہ یا قتل جےسی کسی اذےت کا شکار ہو کر فوت نہیں ہوا، باوجود اس کے متوفی ٰکے اعزہ،اقارب اور متوسلین کی آنکھیں دائمی فراق کے احساس سے اشک بار ہوہی جاتی ہیں اوران کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے، پھر اگر وفات پانے والا کوئی ایسا شخص ہو جس نے ایک بہت بڑی انسانی جمعیت کو اپنی شخصےت اور صفات حسنہ سے متاثر کےاہواور اپنے چشمہ فیض سے ایک عالم کو سیراب کیا ہو تو پھر اس کی مفارقت بہت سے انسانوں کے دلوں پر داغ بن جاتی ہے،مفتی محمد شعیب اصلاحی قاسمی ایسی ہی ایک فیض رساں شخصیت تھے جنھوں نے کتنے ہی سینوں کودین کے علم سے منور کیا،چوںکہ راقم السطور کو بھی مفتی صاحب کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے کا شرف حاصل رہا ہے ، اس لےے ان کی وفات کی خبر نے مجھے بھی غم زدہ کر دیا اور ان کی مربیانہ شفقتیں، بحیثیت استاذان کا صبروتحمل اور لطف و عنایت ایک ایک کر کے یاد آئے۔
مفتی صاحب صحت مند اور لانبے قد کے متشرع شخص تھے، انہوں نے جو علم حاصل کےا اس پر عمل بھی کےا، صلہ رحمی کرنا انہےں پسند آتا تھا، خوش مزاج تھے اور لطےف حس مزاح بھی رکھتے تھے، تحریر و تصنیف کابھی ذوق تھا اور جس طالب علم میں اس کے جوہر دےکھتے اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے،خودداری کے حامل تھے، انا کا ہلکا شائبہ تھا جسے ہم فطری کمزوری پر محمول کرتے ہےں اور یہ بشریت کے منافی نہیں ، موجودہ وقت میں مدرسة الاصلاح سے جس قدر طلبہ نے کسب فےض کےا انہےں مفتی صاحب کے لطف وکرم، عنایت،محبت، تنبےہ اور شفقت کاوافر حصہ ملا، اس پہلو سے ہم تمام اصلاحی برادران مفتی صاحب کے شاگرد ہونے کے ساتھ ان کے توجہات اور مہربانیوں کے گر ویدہ بھی ہیں۔
مفتی صاحب کا انتقال صرف اصلاحی برادری کے لئے نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے لئے عظیم سانحہ ہے ،وہ ایک قومی دینی اور ملی اثاثہ تھے اور ہم طلبہ کے لئے شفیق و ملنساراستاذجن کی یاد ہمیشہ ستاتی رہے گی، مفتی صاحب کے اندر اخلاص و للہیت،حلم و بردباری،رحمت و شفقت،جرات و بہادری،تواضع اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، انہےں ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی کہ کسی بھی طرح اپنے جائز مقا صد میں کامیابی اور اس کو پانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیں ،مولانا اس کے لئے طلبہ کو رغبت دلاتے ،پند و نصیحت کرتے، اسلاف اور بزرگان دین کے قصے سناتے اور اتنی کوششوں کے بعد بھی اگر کوئی طالب علم نہ مانتا تو چھڑی کا بھی سہارا لیتے ،لیکن اس میں بھی اپنائیت اور ہمدردی کا عنصر غالب ہوتا ،مولانا اکثر ہم طلبہ کو کہا کرتے ”علم ایک ایسی شے ہے جس کے لےے اگر آپ اپنا سب کچھ تج دیں گے تو وہ بمشکل اپنا تھوڑا حصہ آپ کو دے گی“اورعلامہ اقبال کا یہ شعر سناتے:
عطار ہو رومی ہو، رازی ہوغزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
مجھے یاد پڑتا ہے جمعرات کے دن مدرسہ میں چھٹی کے بعدعموما اور گرمی ،عید الفطر و عید الاضحی کی چھٹیوں میں خصوصا گھر جانے سے پہلے مفتی صاحب تمام طلبہ کو مسجد میں جمع کرکے دیر تک پند و نصیحت کرتے اور سمجھاتے کہ گھروں میں کس طرح رہنا ہے ،ماں باپ،بڑے بزرگ،گاوں محلہ اور چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ کس انداز سے پیش آنا ہے۔
مدرسہ سے فراغت کے بعد دو یا تین مرتبہ مفتی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا لیکن اس درمیان بھی وہی تڑپ اور درد مندی دیکھنے کو ملی،مولانا جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس جیسی جدید عصری درس گاہوں میں آنے والے طلبہ کی بڑی ہمت افزائی کرتے لیکن اس درمیان یہ کہنا ہر گز نہ بھولتے کہ” اپنا تشخص اور وقار ملحوظ خاطر رکھنا“۔مولانا کو ان طلبہ سے بڑی تکلیف ہوتی جو مغربی تہذیب اور جدید فیشن پرستی سے مرعوب ہوکر اپنی روش بدل لےتے تھے، مفتی صاحب نے کئی مرتبہ راقم الحروف اور دیگر کئی ساتھیوں سے کہا:” مدرسہ سے فراغت کے بعدیونیورسٹیاں اسلامی تعلیمات اور اس کی روح کو متعارف کرانے کے لئے خوب صورت ذریعہ ہیں طلبہ کو اس سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہےے اور ان عارضی رعنائیوں سے قطعاً متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ مرعوبیت کی علامت ہے اور مرعوبیت شناخت کو تباہ کرتی اور قوموں کو مزید ذلت ورسوائی کے اندھےروںمیں ڈال دیتی ہے“۔
ہر بڑے انسان کے بہت سے خواص خود اس کے اپنے قریب رہنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہےں اور دور رہنے والے اس کی قدر ومنزلت کو خوب سمجھتے ہےں،مدرسہ میں رہتے ہوئے مفتی صاحب کے علمی مقام ومرتبہ سے واقفےت کے باجود ان کے بہت سے مکارم پردہ راز میں تھے، لیکن دوسرے دن تقریباً تمام بڑے اخباروں میں ان کے انتقال کی خبروں اور سیاسی ،سماجی اور علمی شخصیات کے تعزیت نامے اور تاثرات نے مفتی صاحب کے متعلق میرے علم و خبر گراں قدر اضافہ کےا اور میں نے جانا کہ وہ خدمت خلق ،جد و جہد ،شرافت و نجابت اور ایثار و قربانی میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے تھے اور علامہ اقبال کے اس شعر:
مقام ہم عصروں سے ہو اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں تجھ کو
کاعملی نمونہ اور زندہ مثال بن گئے تھے۔مفتی صاحب بلند پایہ علمی شخصیت تھے ،آپ نے تقریبا ًہر فن کی کتابوں کا درس دےا، حدیث، فقہ،ادب، اسرار شریعت ، فلسفہ و منطق سب پر آپ کو یکساں عبور تھا ،طلبہ آپ کے زےر درس مضمون سے کافی خوش رہتے ،مولانا کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مضامین جو آپ کے ذمہ نہیں تھے اگر ان مےں کہیں دشواری محسوس ہوتی اور کوئی نکتہ سمجھ میں نہ آ رہا ہوتا،حل کے لئے ان کی جانب رجوع کیا جاتا تو فورا ًچٹکیوں میں حل کر دیا کرتے ،میں نے مدرسہ میں کئی اساتذہ کو ان سے استفادہ اور اسباق کی تیا ری کرتے دیکھا ہے۔
مدرسة الاصلاح کے طلبہ کے متعلق عام تصوریہ پایا جاتا ہے کہ وہ صرف قرآن مجید پر اپنی توجہ صرف کرتے ہیں اور ان کی پہچان بھی قرآنی اسکالر کے طور پر ہوتی ہے لیکن مفتی صاحب ہر فن پر یکساں مہارت رکھتے تھے، وہ علاقہ میں ایک بڑے مفتی کی حیثیت رکھتے تھے، لوگ اپنے عائلی اور نجی معاملات میں مشورہ اور تصفیہ کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے ،عوام کو ان پر بڑا اعتماد اور بھروسہ تھا،وہ مسائل جوچیلنج کی حیثیت رکھتے تھے آپ ان کو بھی بہ آسانی حل کر دیتے، آپ ایک اچھے منتظم بھی تھے جس کی جےتی جاگتی مثال مدرستہ الاصلاح میں ان کا بارہ سالہ زرےں عہد صدارت ہے ،اس درمیان میں آپ بہت سے سردو گرم حالات کاسامنا کرتے ہوئے بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ دارےوں سے عہدہ برآ ہوئے۔
مفتی صاحب کے عہد صدارت میں طلبہ ان سے اوروہ طلبہ سے بہت قریب رہتے، ان کی خفگی بھی شفقت کا ہی اےک حصہ ہوتی اور یہی وجہ تھی کہ طلبہ ان سے خوف نہےں کھاتے تھے بلکہ اپنے مسائل بے تکلف ان سے بےان کرسکتے تھے، خاطر داری اور مہمان نوازی ان کی طبےعت مےں رچی بسی تھی،ان کے زمانہ صدارت سے پہلے مدرسة الاصلاح کے طلبہ مےںآزادروی اور روشن خےالی عام تھی، لےکن جب مفتی صاحب نے تعلیمی وتربیت ذمہ دارےاں اٹھائےں تو اس بے لگام آزادی پر قدغن لگائی اور طلبہ کو وعظ و تلقےن اور تنبےہ وتحریض کرتے رہے، ان کی یہ کوشش بارآور ہوئی اور مدرسة الاصلاح کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اسلامی وضع اختےار کی اور جو کچھ وہ تعلیم حاصل کرتے رہے اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان میں پیدا ہوا اور یہ سلسلہ بحمد اللہ جاری ساری ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ان کے مساعی ِجمیلہ کا بھر پور صلہ بخشے اور اسے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول کرے۔
مفتی صاحب نے اپنے مدرسة الاصلاح کے زمانہ قیام مےں سماج کے ہر طبقہ مےں مدرستہ الاصلاح کی نمایندگی کی اور اللہ کی بخشی ہوئی علمی اورفقہی بصیرت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے رہے،قرب وجوار کے چھوٹے بڑے مدارس کی سرپرستی اور علمی رہنمائی کی ذمہ داری بھی قبول کی ، فلاح عام کے کاموں مےں بڑھ چڑھ کر حصہ لےا، علاقہ کے مسلمانوں کی خےر خواہی کے جذبہ سے مسلم فنڈ قایم کےاجو علاقہ کے مسلمانوں کا بےنک ہے جس سے ضرورت مند لوگ اپنی ضرورےات کی تکمےل کے لےے قرض حاصل کر سکتے ہےں، علاقہ کے مسلمانوں کی شرعی امور مےں رہنمائی کے لےے محکمہ شرعیہ قائم کےا، آپ کو تعلیم و تعلم کا بھی بڑا شوق تھا یہی وجہ ہے کہ منصب صدارت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی آپ نے مدرسہ سے اپنا رشتہ نہیں توڑا اورپہلی ہی سی خوش دلی اور دل جمعی سے پڑھاتے رہے، آپ کو نئی نسل کے اندر اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کو متعارف کرانے کی بے حد فکر رہتی اس کے لےے آپ نے تنظیم الفاروق کی مدد سے اعظم گڈھ ،جونپور اور آس پاس کے دیہی علاقوں میں مکاتب و مدارس کا جال بچھا دیا تھا، انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ آنے والے وقت میں مسلمان بچے صحیح رہنمائی نہ ہونے کہ وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، اس اندیشہ کے پےش نظر انہوں نے تقریبا 22 مکاتب اور مدارس قائم کےے تھے ،حالاںکہ معاشی بحران کے اس دور میں سبھی جانتے ہیں کہ کسی مکتب یا مدرسہ کو چلانا کس قدر مشکل ہے، لیکن مفتی صاحب نے یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی مدد، اپنے رفےقوں کے تعاون اور عوام کے اےثار سے انجام دےا، ضرورت ہے کہ ان کے خدمات کو سراہا جائے اور ان کے قائم کےے ہوئے اسباب کی افادےت کوعام کر نے کی کوشش کی جائے، یہی ان کے خدمات کا خراج تحسین ہوگا۔
مفتی صاحب محمد شکےل ندوی کی دعوت پر بحرےن جارہے تھے، مسقط ہوائی اڈے پر وقفہ کے دوران فرشتہ اجل آپہنچااور انہوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی، اور کوئی نفس نہےں جانتا کہ وہ کس سرزمےن میں موت پائے گا“ اللہ تعالیٰ کے ان کے حسنات اور اعمال صالحہ کو ان کے لےے نجات کا ذریعہ بنائے اور بشری لغزشوں سے صرف نظر کر کے اپنے دامن رحمت ومغفرت میں جگہ دے،......آمین
مفتی صاحب کے انتقال سے مدرسةالاصلاح نہ صرف ایک اچھے استاذ سے خالی ہوگیابلکہ افتائاور ارشاد کی جس مسند پروہ جلوہ افروز تھے وہ لمبے عرصہ کے لئے خالی ہوگئی ہے،اللہ تعالیٰ مدرسہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے.....آمین
محمد علم اللہ اصلاحی
تھی امانت اٹھ گئی، کیوں کوئی واویلا کرے
آمدمومن ہے، رضواں، خلد کا در وا کرے
عمر طبعی کو پہنچ کر جب کوئی داعی اجل کو لبیک کہتاہے تو متعلقین اور متوسلین کو یہ تسلی رہتی ہے کہ ان کا عزیز کسی ناگہانی آفت، مہلک مرض،حادثہ یا قتل جےسی کسی اذےت کا شکار ہو کر فوت نہیں ہوا، باوجود اس کے متوفی ٰکے اعزہ،اقارب اور متوسلین کی آنکھیں دائمی فراق کے احساس سے اشک بار ہوہی جاتی ہیں اوران کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے، پھر اگر وفات پانے والا کوئی ایسا شخص ہو جس نے ایک بہت بڑی انسانی جمعیت کو اپنی شخصےت اور صفات حسنہ سے متاثر کےاہواور اپنے چشمہ فیض سے ایک عالم کو سیراب کیا ہو تو پھر اس کی مفارقت بہت سے انسانوں کے دلوں پر داغ بن جاتی ہے،مفتی محمد شعیب اصلاحی قاسمی ایسی ہی ایک فیض رساں شخصیت تھے جنھوں نے کتنے ہی سینوں کودین کے علم سے منور کیا،چوںکہ راقم السطور کو بھی مفتی صاحب کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے کا شرف حاصل رہا ہے ، اس لےے ان کی وفات کی خبر نے مجھے بھی غم زدہ کر دیا اور ان کی مربیانہ شفقتیں، بحیثیت استاذان کا صبروتحمل اور لطف و عنایت ایک ایک کر کے یاد آئے۔
مفتی صاحب صحت مند اور لانبے قد کے متشرع شخص تھے، انہوں نے جو علم حاصل کےا اس پر عمل بھی کےا، صلہ رحمی کرنا انہےں پسند آتا تھا، خوش مزاج تھے اور لطےف حس مزاح بھی رکھتے تھے، تحریر و تصنیف کابھی ذوق تھا اور جس طالب علم میں اس کے جوہر دےکھتے اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے،خودداری کے حامل تھے، انا کا ہلکا شائبہ تھا جسے ہم فطری کمزوری پر محمول کرتے ہےں اور یہ بشریت کے منافی نہیں ، موجودہ وقت میں مدرسة الاصلاح سے جس قدر طلبہ نے کسب فےض کےا انہےں مفتی صاحب کے لطف وکرم، عنایت،محبت، تنبےہ اور شفقت کاوافر حصہ ملا، اس پہلو سے ہم تمام اصلاحی برادران مفتی صاحب کے شاگرد ہونے کے ساتھ ان کے توجہات اور مہربانیوں کے گر ویدہ بھی ہیں۔
مفتی صاحب کا انتقال صرف اصلاحی برادری کے لئے نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے لئے عظیم سانحہ ہے ،وہ ایک قومی دینی اور ملی اثاثہ تھے اور ہم طلبہ کے لئے شفیق و ملنساراستاذجن کی یاد ہمیشہ ستاتی رہے گی، مفتی صاحب کے اندر اخلاص و للہیت،حلم و بردباری،رحمت و شفقت،جرات و بہادری،تواضع اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، انہےں ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی کہ کسی بھی طرح اپنے جائز مقا صد میں کامیابی اور اس کو پانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیں ،مولانا اس کے لئے طلبہ کو رغبت دلاتے ،پند و نصیحت کرتے، اسلاف اور بزرگان دین کے قصے سناتے اور اتنی کوششوں کے بعد بھی اگر کوئی طالب علم نہ مانتا تو چھڑی کا بھی سہارا لیتے ،لیکن اس میں بھی اپنائیت اور ہمدردی کا عنصر غالب ہوتا ،مولانا اکثر ہم طلبہ کو کہا کرتے ”علم ایک ایسی شے ہے جس کے لےے اگر آپ اپنا سب کچھ تج دیں گے تو وہ بمشکل اپنا تھوڑا حصہ آپ کو دے گی“اورعلامہ اقبال کا یہ شعر سناتے:
عطار ہو رومی ہو، رازی ہوغزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
مجھے یاد پڑتا ہے جمعرات کے دن مدرسہ میں چھٹی کے بعدعموما اور گرمی ،عید الفطر و عید الاضحی کی چھٹیوں میں خصوصا گھر جانے سے پہلے مفتی صاحب تمام طلبہ کو مسجد میں جمع کرکے دیر تک پند و نصیحت کرتے اور سمجھاتے کہ گھروں میں کس طرح رہنا ہے ،ماں باپ،بڑے بزرگ،گاوں محلہ اور چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ کس انداز سے پیش آنا ہے۔
مدرسہ سے فراغت کے بعد دو یا تین مرتبہ مفتی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا لیکن اس درمیان بھی وہی تڑپ اور درد مندی دیکھنے کو ملی،مولانا جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس جیسی جدید عصری درس گاہوں میں آنے والے طلبہ کی بڑی ہمت افزائی کرتے لیکن اس درمیان یہ کہنا ہر گز نہ بھولتے کہ” اپنا تشخص اور وقار ملحوظ خاطر رکھنا“۔مولانا کو ان طلبہ سے بڑی تکلیف ہوتی جو مغربی تہذیب اور جدید فیشن پرستی سے مرعوب ہوکر اپنی روش بدل لےتے تھے، مفتی صاحب نے کئی مرتبہ راقم الحروف اور دیگر کئی ساتھیوں سے کہا:” مدرسہ سے فراغت کے بعدیونیورسٹیاں اسلامی تعلیمات اور اس کی روح کو متعارف کرانے کے لئے خوب صورت ذریعہ ہیں طلبہ کو اس سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہےے اور ان عارضی رعنائیوں سے قطعاً متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ مرعوبیت کی علامت ہے اور مرعوبیت شناخت کو تباہ کرتی اور قوموں کو مزید ذلت ورسوائی کے اندھےروںمیں ڈال دیتی ہے“۔
ہر بڑے انسان کے بہت سے خواص خود اس کے اپنے قریب رہنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہےں اور دور رہنے والے اس کی قدر ومنزلت کو خوب سمجھتے ہےں،مدرسہ میں رہتے ہوئے مفتی صاحب کے علمی مقام ومرتبہ سے واقفےت کے باجود ان کے بہت سے مکارم پردہ راز میں تھے، لیکن دوسرے دن تقریباً تمام بڑے اخباروں میں ان کے انتقال کی خبروں اور سیاسی ،سماجی اور علمی شخصیات کے تعزیت نامے اور تاثرات نے مفتی صاحب کے متعلق میرے علم و خبر گراں قدر اضافہ کےا اور میں نے جانا کہ وہ خدمت خلق ،جد و جہد ،شرافت و نجابت اور ایثار و قربانی میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے تھے اور علامہ اقبال کے اس شعر:
مقام ہم عصروں سے ہو اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں تجھ کو
کاعملی نمونہ اور زندہ مثال بن گئے تھے۔مفتی صاحب بلند پایہ علمی شخصیت تھے ،آپ نے تقریبا ًہر فن کی کتابوں کا درس دےا، حدیث، فقہ،ادب، اسرار شریعت ، فلسفہ و منطق سب پر آپ کو یکساں عبور تھا ،طلبہ آپ کے زےر درس مضمون سے کافی خوش رہتے ،مولانا کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مضامین جو آپ کے ذمہ نہیں تھے اگر ان مےں کہیں دشواری محسوس ہوتی اور کوئی نکتہ سمجھ میں نہ آ رہا ہوتا،حل کے لئے ان کی جانب رجوع کیا جاتا تو فورا ًچٹکیوں میں حل کر دیا کرتے ،میں نے مدرسہ میں کئی اساتذہ کو ان سے استفادہ اور اسباق کی تیا ری کرتے دیکھا ہے۔
مدرسة الاصلاح کے طلبہ کے متعلق عام تصوریہ پایا جاتا ہے کہ وہ صرف قرآن مجید پر اپنی توجہ صرف کرتے ہیں اور ان کی پہچان بھی قرآنی اسکالر کے طور پر ہوتی ہے لیکن مفتی صاحب ہر فن پر یکساں مہارت رکھتے تھے، وہ علاقہ میں ایک بڑے مفتی کی حیثیت رکھتے تھے، لوگ اپنے عائلی اور نجی معاملات میں مشورہ اور تصفیہ کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے ،عوام کو ان پر بڑا اعتماد اور بھروسہ تھا،وہ مسائل جوچیلنج کی حیثیت رکھتے تھے آپ ان کو بھی بہ آسانی حل کر دیتے، آپ ایک اچھے منتظم بھی تھے جس کی جےتی جاگتی مثال مدرستہ الاصلاح میں ان کا بارہ سالہ زرےں عہد صدارت ہے ،اس درمیان میں آپ بہت سے سردو گرم حالات کاسامنا کرتے ہوئے بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ دارےوں سے عہدہ برآ ہوئے۔
مفتی صاحب کے عہد صدارت میں طلبہ ان سے اوروہ طلبہ سے بہت قریب رہتے، ان کی خفگی بھی شفقت کا ہی اےک حصہ ہوتی اور یہی وجہ تھی کہ طلبہ ان سے خوف نہےں کھاتے تھے بلکہ اپنے مسائل بے تکلف ان سے بےان کرسکتے تھے، خاطر داری اور مہمان نوازی ان کی طبےعت مےں رچی بسی تھی،ان کے زمانہ صدارت سے پہلے مدرسة الاصلاح کے طلبہ مےںآزادروی اور روشن خےالی عام تھی، لےکن جب مفتی صاحب نے تعلیمی وتربیت ذمہ دارےاں اٹھائےں تو اس بے لگام آزادی پر قدغن لگائی اور طلبہ کو وعظ و تلقےن اور تنبےہ وتحریض کرتے رہے، ان کی یہ کوشش بارآور ہوئی اور مدرسة الاصلاح کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اسلامی وضع اختےار کی اور جو کچھ وہ تعلیم حاصل کرتے رہے اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان میں پیدا ہوا اور یہ سلسلہ بحمد اللہ جاری ساری ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ان کے مساعی ِجمیلہ کا بھر پور صلہ بخشے اور اسے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول کرے۔
مفتی صاحب نے اپنے مدرسة الاصلاح کے زمانہ قیام مےں سماج کے ہر طبقہ مےں مدرستہ الاصلاح کی نمایندگی کی اور اللہ کی بخشی ہوئی علمی اورفقہی بصیرت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے رہے،قرب وجوار کے چھوٹے بڑے مدارس کی سرپرستی اور علمی رہنمائی کی ذمہ داری بھی قبول کی ، فلاح عام کے کاموں مےں بڑھ چڑھ کر حصہ لےا، علاقہ کے مسلمانوں کی خےر خواہی کے جذبہ سے مسلم فنڈ قایم کےاجو علاقہ کے مسلمانوں کا بےنک ہے جس سے ضرورت مند لوگ اپنی ضرورےات کی تکمےل کے لےے قرض حاصل کر سکتے ہےں، علاقہ کے مسلمانوں کی شرعی امور مےں رہنمائی کے لےے محکمہ شرعیہ قائم کےا، آپ کو تعلیم و تعلم کا بھی بڑا شوق تھا یہی وجہ ہے کہ منصب صدارت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی آپ نے مدرسہ سے اپنا رشتہ نہیں توڑا اورپہلی ہی سی خوش دلی اور دل جمعی سے پڑھاتے رہے، آپ کو نئی نسل کے اندر اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کو متعارف کرانے کی بے حد فکر رہتی اس کے لےے آپ نے تنظیم الفاروق کی مدد سے اعظم گڈھ ،جونپور اور آس پاس کے دیہی علاقوں میں مکاتب و مدارس کا جال بچھا دیا تھا، انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ آنے والے وقت میں مسلمان بچے صحیح رہنمائی نہ ہونے کہ وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، اس اندیشہ کے پےش نظر انہوں نے تقریبا 22 مکاتب اور مدارس قائم کےے تھے ،حالاںکہ معاشی بحران کے اس دور میں سبھی جانتے ہیں کہ کسی مکتب یا مدرسہ کو چلانا کس قدر مشکل ہے، لیکن مفتی صاحب نے یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی مدد، اپنے رفےقوں کے تعاون اور عوام کے اےثار سے انجام دےا، ضرورت ہے کہ ان کے خدمات کو سراہا جائے اور ان کے قائم کےے ہوئے اسباب کی افادےت کوعام کر نے کی کوشش کی جائے، یہی ان کے خدمات کا خراج تحسین ہوگا۔
مفتی صاحب محمد شکےل ندوی کی دعوت پر بحرےن جارہے تھے، مسقط ہوائی اڈے پر وقفہ کے دوران فرشتہ اجل آپہنچااور انہوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی، اور کوئی نفس نہےں جانتا کہ وہ کس سرزمےن میں موت پائے گا“ اللہ تعالیٰ کے ان کے حسنات اور اعمال صالحہ کو ان کے لےے نجات کا ذریعہ بنائے اور بشری لغزشوں سے صرف نظر کر کے اپنے دامن رحمت ومغفرت میں جگہ دے،......آمین
مفتی صاحب کے انتقال سے مدرسةالاصلاح نہ صرف ایک اچھے استاذ سے خالی ہوگیابلکہ افتائاور ارشاد کی جس مسند پروہ جلوہ افروز تھے وہ لمبے عرصہ کے لئے خالی ہوگئی ہے،اللہ تعالیٰ مدرسہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے.....آمین