راحت حسن، جن سے یہ اطلاع ملی تھی، نے یہ نظم بھیجی ہے سمت کے لئے۔ اسے پہلے یہاں پیش کر رہا ہوں:
Rahat Hasan
Prem Nishan, Dodhpur, ALIGARH-202002
اے دوست! (نظم)
(منظور ہاشمی کی یاد میں ۔تاریخِ وفات ۲۹ جنوری ۲۰۰۸)
کیا کریں گھر میں شبِ ہجر چراغاں ، اے دوست!
ہو گئے تم تو کسی اور کے مہماں ،اے دوست!
محفلیں سرد ہیں، دالان ہیں خالی خالی
کر گئے تم تو سبھی شہر کو ویراں، اے دوست!
چل دیے تم تو بہاروں کا خزانہ لے کر
ہو گئے آن میں گلشن بھی بیاباں ، اے دوست!
آہ بھرتے ہیں کبھی گریہ کناں ہوتے ہیں
دوست، احباب ہیں اس درجہ پریشاں، اے دوست!
کون اس دور میں رکھتا ہے جنوں کی دولت
کس پہ ظاہر کریں اب چاکِ گریباں، اے دوست!
تم نے آباد کیا تھا یہ خرابہ دل کا
جیتے جی بھولنا تم کو نہیں آساں، اے دوست!
’سخن آباد‘ کے آگے کا سفر جاری تھا
چل دیے پھر یہ کہاں بے سرو ساماں، اے دوست!
تم سا مشفق جو میسّرہو تو کیسے آخر
تم سا ملتا ہی نہیں کوئی بھی انساں، اے دوست!
رونمائی تمہیں منظور نہیں تو راحتؔ
کیا کریں ہم بھی کسی نقش کا ارماں، اے دوست!
٭