آج کل گھر گھر میں گھر کا چرچا ہے۔
بڑوں کے گھر کا، چھوٹوں کے گھر کا
گھر جو چھٹ گیا، گھر جس میں قید ہیں
گھر جس سے نکالا جا رہا ہے
اور گھر جس سے کوئی نکلتا نہیں
یہ سچ ہے کہ جس گھر میں رہیں اس سے ایک انسیت سی ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ کرائے کا ہو یا اپنا اور ہر ایک کی یہی دعا ہوتی ہے۔
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
پہلے ایک ’مکان‘ تھا اب ایک لمبے عرصے کے بعد گھر بنانا چاہتے ہیں۔ اور نئے آرمی چیف اپنے گھر کا خود بندوبست لیکن لگتا ہے کہ صدر مشرف نے اس شعر کا مطلب کچھ اور ہی سمجھا ہے اور وہ اس آرمی ہاؤس کو جو کہ کریں۔ ریٹائرڈ جنرل اور نئے صدر مشرف کے آرمی ہاؤس سے نہ جانے کی وجہ کوئی بھی ہو آرمی ہاؤس میں صدر کے رہنے کا چرچا بہت ہو رہا ہے۔ صدر کے ترجمان نے اس پر بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ سکیورٹی سے لے کر ایوانِ صدر کی سجاوٹ بناوٹ تک کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر ترجمان صاحب یا خود صدر صاحب اس کی کوئی بھی وجہ خود بتا دیتے تو لوگوں کے منہ بند ہو جاتے اور وہ نہ کہتے کہ بقول شاعر اگر وقت پر گھر یا مکان پر نہیں گئے تو وہ کھو سکتے ہیں یا آسان زبان میں وہ آپ کے ہاتھ سے چھوٹ سکتے ہیں۔ یہ شعر سب کے لیے ہے اب وہ اسے سمجھتے ہیں کہ نہیں یہ ان پر ہی چھوڑتا ہوں۔ دوسری طرف ہمارے پیارے پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے گھر یا مکان سرے سے ہیں ہی نہیں۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جن کے کم از کم گھر کچھ دن پہلے تک تھے اور اب انہیں وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔ مثال پاکستان کے ان ججوں کی ہے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ایک دو نہیں بیسیوں ہیں۔ یہ وہ جج تھے جنہوں نے ضمیر کی آواز سنی اور غیر آئینی اقدام کو نہ مانتے ہوئے اس کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے اکثر کو ضمیر کی آواز سننے کی سزا کے طور پر گھر چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا
ان ’باضمیر‘ ججوں میں سے اکثر کے گھر نہیں ہیں اور شروع شروع میں تو جب یہ سب جج حضرات کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا تھا ایک جج جسٹس خلیل رمدے نے تو یہ تک کہا تھا کہ ’اچھا ہے کہ ہمیں گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے کیونکہ اگر یہ ہمیں گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں تو ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارے پاس تو کوئی گھر بھی نہیں ہے۔
تو لیجیئے ان کے گھر کا بھی ایک شخص نے انتظام کر دیا ہے۔ آج صبح ہی ایک شخص نے جس نے اپنا نام چوہدری رشید نصر اللہ بتایا بی بی سی لندن کو فون کر کے کہا کہ اس کے پاس لاہور میں آٹھ گھر ہیں اور وہ بے لوث جذبے کے تحت یہ گھر جج صاحبان کو پیش کرنا چاہتا ہے چاہے وہ ان میں تمام عمر رہیں۔ وہ پاکستان کے ان باضمیر ججوں کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار ہے۔ میرے کہنے پر اس نے نہ صرف اپنا لندن میں ٹھکانا اور فون نمبر بتایا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس نے پاکستان میں اپنے سب رشتہ داروں سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیشکش کی ہے۔ رشید صاحب آپ کا جذبہ سر آنکھوں پر، ہم نے آپ کا پیغام آگے پہنچا دیا ہے اب آپ جانیے، جج صاحبان اور انکم ٹیکس والے۔ ہم نے اپنا کام کر دیا۔
بات آرمی ہاؤس سے شروع ہوئی تھی لندن تک چلی گئی۔ صدر صاحب جب جنرل تھے تو پاکستان کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے یہ پیارا گھر، پاکستان، سنوارنے آئے تھے۔ سنوارتے سنوارتے انہیں صدر بننے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی، پھر دو عہدوں کے ساتھ سنوارتے رہے اور بالآخر اب صرف نئے صدر بن کر اسی کوشش میں مصروف ہیں اور وہ بھی آرمی ہاؤس میں ایوانِ صدر کی بھی کنجی اپنے پاس رکھ کر۔ اور یہ حزبِ اختلاف، انسانی حقوق اور میڈیا والے تو بس یوں ہی الاپ رہے ہیں کہ
آیا تھا گھر سنوارنے احسان کر گیا
بربادیوں کا اور بھی سامان کر گیا
بڑوں کے گھر کا، چھوٹوں کے گھر کا
گھر جو چھٹ گیا، گھر جس میں قید ہیں
گھر جس سے نکالا جا رہا ہے
اور گھر جس سے کوئی نکلتا نہیں
یہ سچ ہے کہ جس گھر میں رہیں اس سے ایک انسیت سی ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ کرائے کا ہو یا اپنا اور ہر ایک کی یہی دعا ہوتی ہے۔
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
پہلے ایک ’مکان‘ تھا اب ایک لمبے عرصے کے بعد گھر بنانا چاہتے ہیں۔ اور نئے آرمی چیف اپنے گھر کا خود بندوبست لیکن لگتا ہے کہ صدر مشرف نے اس شعر کا مطلب کچھ اور ہی سمجھا ہے اور وہ اس آرمی ہاؤس کو جو کہ کریں۔ ریٹائرڈ جنرل اور نئے صدر مشرف کے آرمی ہاؤس سے نہ جانے کی وجہ کوئی بھی ہو آرمی ہاؤس میں صدر کے رہنے کا چرچا بہت ہو رہا ہے۔ صدر کے ترجمان نے اس پر بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ سکیورٹی سے لے کر ایوانِ صدر کی سجاوٹ بناوٹ تک کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر ترجمان صاحب یا خود صدر صاحب اس کی کوئی بھی وجہ خود بتا دیتے تو لوگوں کے منہ بند ہو جاتے اور وہ نہ کہتے کہ بقول شاعر اگر وقت پر گھر یا مکان پر نہیں گئے تو وہ کھو سکتے ہیں یا آسان زبان میں وہ آپ کے ہاتھ سے چھوٹ سکتے ہیں۔ یہ شعر سب کے لیے ہے اب وہ اسے سمجھتے ہیں کہ نہیں یہ ان پر ہی چھوڑتا ہوں۔ دوسری طرف ہمارے پیارے پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے گھر یا مکان سرے سے ہیں ہی نہیں۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جن کے کم از کم گھر کچھ دن پہلے تک تھے اور اب انہیں وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔ مثال پاکستان کے ان ججوں کی ہے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ایک دو نہیں بیسیوں ہیں۔ یہ وہ جج تھے جنہوں نے ضمیر کی آواز سنی اور غیر آئینی اقدام کو نہ مانتے ہوئے اس کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے اکثر کو ضمیر کی آواز سننے کی سزا کے طور پر گھر چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا
ان ’باضمیر‘ ججوں میں سے اکثر کے گھر نہیں ہیں اور شروع شروع میں تو جب یہ سب جج حضرات کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا تھا ایک جج جسٹس خلیل رمدے نے تو یہ تک کہا تھا کہ ’اچھا ہے کہ ہمیں گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے کیونکہ اگر یہ ہمیں گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں تو ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارے پاس تو کوئی گھر بھی نہیں ہے۔
تو لیجیئے ان کے گھر کا بھی ایک شخص نے انتظام کر دیا ہے۔ آج صبح ہی ایک شخص نے جس نے اپنا نام چوہدری رشید نصر اللہ بتایا بی بی سی لندن کو فون کر کے کہا کہ اس کے پاس لاہور میں آٹھ گھر ہیں اور وہ بے لوث جذبے کے تحت یہ گھر جج صاحبان کو پیش کرنا چاہتا ہے چاہے وہ ان میں تمام عمر رہیں۔ وہ پاکستان کے ان باضمیر ججوں کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار ہے۔ میرے کہنے پر اس نے نہ صرف اپنا لندن میں ٹھکانا اور فون نمبر بتایا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس نے پاکستان میں اپنے سب رشتہ داروں سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیشکش کی ہے۔ رشید صاحب آپ کا جذبہ سر آنکھوں پر، ہم نے آپ کا پیغام آگے پہنچا دیا ہے اب آپ جانیے، جج صاحبان اور انکم ٹیکس والے۔ ہم نے اپنا کام کر دیا۔
بات آرمی ہاؤس سے شروع ہوئی تھی لندن تک چلی گئی۔ صدر صاحب جب جنرل تھے تو پاکستان کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے یہ پیارا گھر، پاکستان، سنوارنے آئے تھے۔ سنوارتے سنوارتے انہیں صدر بننے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی، پھر دو عہدوں کے ساتھ سنوارتے رہے اور بالآخر اب صرف نئے صدر بن کر اسی کوشش میں مصروف ہیں اور وہ بھی آرمی ہاؤس میں ایوانِ صدر کی بھی کنجی اپنے پاس رکھ کر۔ اور یہ حزبِ اختلاف، انسانی حقوق اور میڈیا والے تو بس یوں ہی الاپ رہے ہیں کہ
آیا تھا گھر سنوارنے احسان کر گیا
بربادیوں کا اور بھی سامان کر گیا