مہ جبین
محفلین
آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر
حیراں ہوں 'اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر"
میں سنگِ بے عیار تھاآئینہ بن گیا
اُس شہرِ نور کے در و دیوار دیکھ کر
اللہ رے جمالِ محمد فلک فلک
حور و مَلَک ہیں نقش بہ دیوار دیکھ کر
اب ڈھونڈتے ہیں نقشِ کفِ پائے مصطفےٰ
چلتے جو تھے ستاروں کی رفتار دیکھ کر
گرمِ سفر ہیں لوگ رہِ مستقیم پر
حسنِ سلوک قافلہ سالار دیکھ کر
میں اپنے دل کے غارِ حرا میں ہوں محوِ دید
لوگ آرہے ہیں روضہء سرکار دیکھ کر
اچھا ہوا کہ مقطعِ جاں آگیا ایاز
کیا دیکھتے ، وہ" مطلعِ انوار دیکھ کر "
ایاز صدیقی