آ آ کے چھیڑے ہیں ہمیں اکثر وہ خواب میں -- اصلاح کے لئے

ایک تازہ غزل آپ سب کی آرا ، تنقید، اس کی اصلاح اور فہمائش کے لئے حاضر ہے
غزل کا وزن کچھ زیادہ نہیں بس یوں ہے ... :p

مستفعلن مفاعیلن فاعلاتن
آپ کے تبصروں اور تاثرات کا منتظر رہونگا ... شکریہ

یا رب یہ زندگی ہے مری کس عذاب میں
آ آ کے چھیڑے ہیں ہمیں اکثر وہ خواب میں

پریوں کی جستجو تھی اسے، شوق سے وہ ُگل
سنتا کہانیاں تھا شب ِما ہتاب میں

لیلیٰ کہیں زلیخا، حرمت کو چھوڑتی
کوشش میں کوئی ہیر ہو موج ِ چناب میں

گوندھے تھی زلف جیسے وہ، ِہجَر میں دل مرا
بل کھا رہا تھا ویسے ہی بس پیچ و تاب میں

صنف ِ سخن کو بدلا تب بات کچھ بنی
مہکا جواب آ یا عر ق ِ گلاب میں
قطع

ہمّت کی داستاں نئی ترتیب کریں اب
لکھتے ہیں باب اک نیا ہم اس کتاب میں

بھڑکا نہ ُگل ہوا یہ ، نہ ہی ماند وہ پڑا
کھل کر مقا بلا تھا دیے آفتاب میں

تیرے قدم بھی بھو لے رقص ِ ِخرام کو
دھن میرے گیت کی بھی نہ رہی چنگ و رباب میں

غالب مصیبتیں ہیں، خدا ! زندگی پہ یوں
ِچڑیا گھری ہو جیسے، غول ِعُقاب میں

ساحل بھی چھوٹا پیچھے، تیز ہے ہوا، اب
لو ! بادباں بھی الجھا، اپنی طناب میں

بادل جو ِگھر کے آیے، رُکا کام بھی ہوا
آنسو نکل بہے تھے برستے سحاب میں

خود کو شہید لکھتا ہے وفا کے باب میں
کہتا ہے بے وفا تجھے، کاشف جواب میں
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات۔۔ بحر ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
دوسری بات۔ اس پر تمام مصرعے تقطیع نہیں ہوتے
 
دوبارہ تصحیح کے بعد غزل لے کر حاضرہوا ہوں ۔
وزن ہے ۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یا پھر
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

یا رب یہ زندگی ہے مری کس عذاب میں
چھیڑے مجھےہےاکثر آکر وہ خواب میں

پریوں کی جستجوتھی،توپھرشوق سےوہُ گل
سنتا کہانیاں تھاشب ِماہتاب میں

لیلیٰ کہیں زلیخا، حرمت کو چھوڑتی
کوشش میں کوئی ہیر ہو موج ِ چناب میں

بالوں کوگوندھتی تھی وہ،حسرت میں د ل مرا
کھاتاتھابل،ہوزلف جیسےپیچ وتاب میں

صنف ِ سخن کو بدلا تب بات کچھ بنی
مہکا جواب آ یا عر ق ِ گلاب میں

قطع


ترتیب اب کریں نئی ہمّت کی داستاں
لکھتے ہیں باب اک نیا ہم اس کتاب میں

بھڑکا نہ ُگل ہوا ، نہ کبھی ماند وہ پڑا
کھل کر مقا بلا تھا دیے آفتاب میں

تیرے قدم بھی بھو لے رقص ِ ِخرام کو
دھن گیت کی بھی نہ میرےڈھلی چنگ ورباب میں

کل تک تودلّگی تھی، ہردم نئی تھی چھیڑ
اب مسکراکےدیکھتےہوبس جواب میں

باتوں میں ا ک امنگ نہ وہ لہجہ شرارتی
شوخی وہ کیاہوئی جوکبھی تھی جناب میں

غالب مصیبتیں ہیں، مری زندگی پہ یوں
چڑیا گھری ہو جیسے، غول ِعُقاب میں

ساحل بھی دورچھوٹا ، اب تیز ہے ہوا
لو ! بادباں بھی الجھا، اپنی طناب میں

بادل جو ِگھر کے آیے، رُکا کام یہ ہوا
آنسو نکل بہے تھے برستے سحاب میں

سمجھاؤں،ہےوہ دوست مہرباں ترا ابھی
کاشف وہ پھربھی تڑپےاک اضطراب میں
 
Top