میر آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں

یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں

حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں
اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں

مائل بغیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں

ہم رہ روانِ راہِ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسانِ صبح کوئی دم بہت ہے یاں

اس بت کدے میں معنیٰ کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورتِ آدم بہت ہے یاں

عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں

ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں

اعجازِ عیسوی سے نہیں بحثِ عشق میں
تیری ہی بات جانِ مجسّم بہت ہے یاں

میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں

دل مت لگا رُخِ عرق آلودہ یار سے
آئینے کو اُٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں

شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں

(میر تقی میرؔ)
 
Top