جون ایلیا آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں

Qaisar Aziz

محفلین
آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں
خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں

فن تو حسابِ تنہائی ہے شرط بھلا کس شے کی ہے
یعنی اُٹھیں اور بے خلخال و طبل و ترانہ رقص کریں

داد سے جب مطلب ہی نہیں تو عُذر بھلا کس بات کا ہے
ہم بھی بزمِ بے بصراں میں بے بصرانہ رقص کریں

ہم پہ ہُنر کے قدر شناساں ناز کناں ہیں، یعنی ہم
سازِ شکستِ دل کی صدا پر عشوہ گرانہ رقص کریں

تختۂ گُل ہو عُذر انگیزِ آبلہ پائی اپنے لیے
ہاں سرِ نشترہا ذکرانہ تا بہ کرانہ رقص کریں

مرضی مولا از ہمہ اولیٰ شوق ہمارا مولا ہے
ہم وہ نہیں جو بزم طرب میں پیشہ ورانہ رقص کریں

برسرِ شور و برسرِ شورش برسرِ شبخُوں برسرِ خوں
چل کہ حصار فتنہ گراں میں فتنہ گرانہ رقص کریں

کوئی نہیں جو آ ٹکرائے سب چوراہے خالی ہیں
چل کہ سرِ بازارِ تباہی بے خطرانہ رقص کریں

بعدِ ہُنر آموزی ہم کو تھا پندِ استاد، کہ ہم
با ہُنرانہ رقص میں آئیں بے ہُنرانہ رقص کریں

اپنے بدن پر اپنے خُوں میں غیر کا خُوں بھی شامل ہو
بار گہہِ پرویز میں چل کر تیشہ ورانہ رقص کریں

جونؔ ایلیا
 
ایک ایسی غزل جس کو بارہا پڑھنے سے بھی لُطف کم نہ ہوا۔

اور یہ شعر تو ایک مدت سے دل و دماغ میں بستا ہے۔
؎
بعدِ ہُنر آموزی ہم کو تھا پندِ استاد، کہ ہم
با ہُنرانہ رقص میں آئیں بے ہُنرانہ رقص کریں

خوبصورت انتخاب پہ ڈھیروں داد پیشِ خدمت ہے۔
 
Top