حسان خان
لائبریرین
آ گئی موت شبِ ہجر میں ہیہات مجھے
اب کہاں یار سے امیدِ ملاقات مجھے
کبھی نالہ کبھی گریہ کبھی وحشت کبھی غش
کیا ہی او عشق کیا تو نے خوش اوقات مجھے
پہروں ہی بات مرے منہ سے نکلتی ہی نہیں
یاد آ جاتی ہے تیری جو کوئی بات مجھے
فرقتِ یار میں انسان ہوں میں یا کہ سحاب
ہر برس آ کے رلا جاتی ہے برسات مجھے
میں وہ ہوں جس نے پلایا ہے پیالہ سب کو
رند کیونکر نہ کہیں پیرِ خرابات مجھے
ہمہ تن چشم ہے تاروں سے اُڑانے کے لیے
تیری فرقت میں ہوئی دیو سیہ رات مجھے
کلمہ گوئی سے تو معذور رکھ اے زاہدِ شہر
نفی کے قبل بھلا حاصلِ اثبات مجھے
کسی نعمت سے میں واقف نہیں جز بادۂ تلخ
زاہدا اب تو سمجھ تارکِ لذات مجھے
جتنے ادنیٰ ہیں سمجھتا ہوں میں اعلیٰ ناسخ
صاف خورشید نظر آتے ہیں ذرات مجھے
(امام بخش ناسخ)