ائیرپورٹ، اسٹیشن، سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ - عذرا نقوی

کاشفی

محفلین
غزل
( عذرا نقوی)

ائیرپورٹ، اسٹیشن، سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ
جانے کون سے سُکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ

شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے
گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ

پُر نم آنکھوں، بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی
کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ

وہ کتنے خوش قسمت ہیں جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے
شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ

رات گئے یادوں کے جنگل میں‌ دیوالی ہوتی ہے
دیپ سجائے آجاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ

بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آجاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
 
Top