جاسم محمد
محفلین
ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو انٹرپول نے برطانیہ میں گرفتار کر لیا
ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی
برطانیہ میں انٹرپول نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر اپنے سرمایہ کاروں سے دھوکہ دہی کا الزام ہے۔
عارف نقوی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے سب سے بڑے شراکت دار ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ عارف نقوی کے ساتھی عبدالودود کو امریکہ میں گرفتار کیا گیا ہے، دونوں پر پراسیکیوٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ہزاروں ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا غلط استعمال کیا۔ امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت پر یہ کارروائی کی گئی ہے۔ عارف نقوی اپنے خلاف الزامات کی تردید کر چکے ہیں کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سےفنڈز کو ٹرانسفر کر کےکوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔
عارف نقوی کون ہے؟
عارف نقوی سنہ 1960 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سےگریجوئیشن کی، جس کے بعد کراچی میں امریکن ایکسپریس سے منسلک ہوگئے۔
سنہ 1994 میں عارف نقوی نے 50 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے دبئی میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے پہلے دبئی میں کپولا کے نام سے کمپنی بنائی اور اس کے ساتھ ابراج کے نام سے سرمایہ کار گروپ قائم کیا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے والا پہلا گروپ تھا۔
سنہ 2016 میں ابراج نے کریم کار میں بھی سرمایہ کاری کی اور دو سال کے بعد وہاں سے سرمایہ نکال لیا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionابراج گروپ مشرق وسطی اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ تھا
ابراج گروپ کا عروج اور زوال
ابراج گروپ مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ تھا۔ سنہ 2002 میں قائم اس گروپ کے 25 ممالک کے ساتھ ساتھ دبئی، استنبول، میکسیکو سٹی، ممبئی، نیروبی اور سنگاپور میں ریجنل دفاتر ہیں۔
پوری دنیا میں گروپ کی 17 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جس میں سنہ2017 کے اختتام تک کمی آتی گئی اور یہ 3 عشاریہ 8 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور اس کی وجہ سرمایہ کاروں کی بےاعتمادی بنی جن میں عالمی بینک اور بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔
دونوں اداروں نے بھارت، پاکستان اور نائیجریا میں سکول اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے، عارف نقوی پر الزام ہے کہ دونوں اداروں کے فنڈ ابراج گروپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے جس کے بعد عارف نقوی کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے گئے اور سرمایہ کاروں کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
ابراج گروپ اور کے الیکٹرک
ابراج گروپ نے سنہ 2009 میں 1.4 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کے الیکٹرک کے اکثریتی شیئر خرید کر انتظامی اختیار حاصل کیا۔ پاکستان کے سب سے گنجان آبادی والے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے اس ادارے کے 25 لاکھ صارفین ہیں اور یہ ادارہ نہ صرف بجلی کی پیداوار کرتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی اور منتقلی بھی اسی کے ذمے ہے۔
ابراج گروپ نے جب کے الیکٹرک کا انتظام سنبھالا تو اس وقت بجلی کے بحران کا سامنا تھا۔
کے الیکٹرک‘ کی فروخت کی کوشش
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ابراج گروپ جب مالی بحران کا شکار ہوا، تو ان ہی دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گروپ اپنے 66 فیصد شیئر ایک ارب 70 کروڑ ڈالر میں چین کی شہنگائی الیکٹرک کمپنی کو فروخت کرنا چاہتا تھا، جس کی کوششیں گزشتہ دور حکومت سے جاری ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ کے الیکٹرک کی فروخت میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے تعاون کے لیے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی نے ایک بزنس مین کو 20 بلین ڈالر کی پیشکش کی تھی تاہم میاں نواز شریف اور عارف نقوی ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔
عارف نقوی کی گرفتاری سے قبل وزیر اعظم عمران خان اور شہنگائی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ میں ملاقات ہوچکی ہے جس میں عارف نقوی بھی شریک تھے۔ کے الیکٹرک کی فروخت سے قبل کمپنی کو نجکاری کمیشن سے نیشنل سکیورٹی سرٹیفیکیٹ مطلوب ہے جبکہ مختلف سرکاری محکموں کے کمپنی پر واجبات بھی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
عارف نقوی اور ستارہ امتیاز
عارف نقوی نے اپنی پاکستانی شہریت برقرار رکھی ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے بزنس اسکول انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹرینش کے طلب علموں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کراچی میں امن فاؤنڈیشن کے نام سے فلاحی ادارا قائم کیا ہے، جو نہ صرف جدید ایمبولینس کی سہولت فراہم کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو جدید فنی تعلیم بھی دیتا ہے۔ عارف نقوی کے ساتھ ان کی اہلیہ فائزہ نقوی بھی اس ادارے کو چلاتی ہیں۔
حکومت پاکستان نے سنہ 2011 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں اوسلو بزنس فار پیس ایوارڈ دیا گیا۔ وہ انٹرپول فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی اور اقوام متحدہ کے بعض بورڈز کے رکن بھی ہیں۔
ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
- 47 منٹ پہلے
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی
برطانیہ میں انٹرپول نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر اپنے سرمایہ کاروں سے دھوکہ دہی کا الزام ہے۔
عارف نقوی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے سب سے بڑے شراکت دار ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ عارف نقوی کے ساتھی عبدالودود کو امریکہ میں گرفتار کیا گیا ہے، دونوں پر پراسیکیوٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ہزاروں ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا غلط استعمال کیا۔ امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت پر یہ کارروائی کی گئی ہے۔ عارف نقوی اپنے خلاف الزامات کی تردید کر چکے ہیں کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سےفنڈز کو ٹرانسفر کر کےکوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔
عارف نقوی کون ہے؟
عارف نقوی سنہ 1960 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سےگریجوئیشن کی، جس کے بعد کراچی میں امریکن ایکسپریس سے منسلک ہوگئے۔
سنہ 1994 میں عارف نقوی نے 50 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے دبئی میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے پہلے دبئی میں کپولا کے نام سے کمپنی بنائی اور اس کے ساتھ ابراج کے نام سے سرمایہ کار گروپ قائم کیا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے والا پہلا گروپ تھا۔
سنہ 2016 میں ابراج نے کریم کار میں بھی سرمایہ کاری کی اور دو سال کے بعد وہاں سے سرمایہ نکال لیا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionابراج گروپ مشرق وسطی اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ تھا
ابراج گروپ کا عروج اور زوال
ابراج گروپ مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ تھا۔ سنہ 2002 میں قائم اس گروپ کے 25 ممالک کے ساتھ ساتھ دبئی، استنبول، میکسیکو سٹی، ممبئی، نیروبی اور سنگاپور میں ریجنل دفاتر ہیں۔
پوری دنیا میں گروپ کی 17 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جس میں سنہ2017 کے اختتام تک کمی آتی گئی اور یہ 3 عشاریہ 8 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور اس کی وجہ سرمایہ کاروں کی بےاعتمادی بنی جن میں عالمی بینک اور بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔
دونوں اداروں نے بھارت، پاکستان اور نائیجریا میں سکول اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے، عارف نقوی پر الزام ہے کہ دونوں اداروں کے فنڈ ابراج گروپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے جس کے بعد عارف نقوی کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے گئے اور سرمایہ کاروں کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
ابراج گروپ اور کے الیکٹرک
ابراج گروپ نے سنہ 2009 میں 1.4 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کے الیکٹرک کے اکثریتی شیئر خرید کر انتظامی اختیار حاصل کیا۔ پاکستان کے سب سے گنجان آبادی والے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے اس ادارے کے 25 لاکھ صارفین ہیں اور یہ ادارہ نہ صرف بجلی کی پیداوار کرتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی اور منتقلی بھی اسی کے ذمے ہے۔
ابراج گروپ نے جب کے الیکٹرک کا انتظام سنبھالا تو اس وقت بجلی کے بحران کا سامنا تھا۔
کے الیکٹرک‘ کی فروخت کی کوشش
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ابراج گروپ جب مالی بحران کا شکار ہوا، تو ان ہی دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گروپ اپنے 66 فیصد شیئر ایک ارب 70 کروڑ ڈالر میں چین کی شہنگائی الیکٹرک کمپنی کو فروخت کرنا چاہتا تھا، جس کی کوششیں گزشتہ دور حکومت سے جاری ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ کے الیکٹرک کی فروخت میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے تعاون کے لیے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی نے ایک بزنس مین کو 20 بلین ڈالر کی پیشکش کی تھی تاہم میاں نواز شریف اور عارف نقوی ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔
عارف نقوی کی گرفتاری سے قبل وزیر اعظم عمران خان اور شہنگائی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ میں ملاقات ہوچکی ہے جس میں عارف نقوی بھی شریک تھے۔ کے الیکٹرک کی فروخت سے قبل کمپنی کو نجکاری کمیشن سے نیشنل سکیورٹی سرٹیفیکیٹ مطلوب ہے جبکہ مختلف سرکاری محکموں کے کمپنی پر واجبات بھی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
عارف نقوی اور ستارہ امتیاز
عارف نقوی نے اپنی پاکستانی شہریت برقرار رکھی ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے بزنس اسکول انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹرینش کے طلب علموں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کراچی میں امن فاؤنڈیشن کے نام سے فلاحی ادارا قائم کیا ہے، جو نہ صرف جدید ایمبولینس کی سہولت فراہم کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو جدید فنی تعلیم بھی دیتا ہے۔ عارف نقوی کے ساتھ ان کی اہلیہ فائزہ نقوی بھی اس ادارے کو چلاتی ہیں۔
حکومت پاکستان نے سنہ 2011 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں اوسلو بزنس فار پیس ایوارڈ دیا گیا۔ وہ انٹرپول فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی اور اقوام متحدہ کے بعض بورڈز کے رکن بھی ہیں۔